یکم مئی1960کو لسانی بنیاد پر
ریاست مہاراشٹر کا قیام عمل میں آیا۔ ریاست کی تشکیل و قیام کیلئے تیس
سالوں تک مسلسل جدوجہد کرنا پڑی۔ کئی لوگوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں
دیں۔1928 میں سب سے پہلے لسانی بنیادوں پر ریاستوں کے قیام کے نظریہ کو
قبول کیا گیا۔ لسانی بنیادوں پر ریاستوں کے قیام کی زبردست تحریک و مطالبہ
کے پیش نظر کانگریس نے 1948 میں سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں جواہر لعل
نہرو ، ولبھ بھائی پٹیل ، سیتا رمیا شامل تھے۔ مہاراشٹر ریاست کی تشکیل
کیلئے ’ متحدہ مہاراشٹر کمیٹی ‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ 10 اکتوبر1955میں حکومت
ہند نے جسٹس فضل علی کمیشن قائم کیا۔ اس نے مرکز کو اپنی رپورٹ سونپ دی۔ اس
سفارش میں ممبئی کو دو لسانی ( گجراتی ، مراٹھی ) شہر کا درجہ دینے کی بات
کہی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں ممبئی ، ودربھ ، مراٹھواڑہ کا روار ، نیپانی،
مغربی مہاراشٹر مل کر متحدہ مہاراشٹر بنایا جائے ،اس طرح کی سفارش کی گئی۔
آزادی کے پہلے اور آزادی کے بعد کچھ سالوں تک ملک کی تجارت و صنعت ، درآمد
و برآمد ، زراعت ، صنعت وغیرہ پر تقریباً مسلمانوں کا قبضہ تھا۔ خصوصاً کپڑ
ے کے مل اور کاروبار پر مسلمانوں کاہی دبدبہ تھا۔ پاور لوم کی صنعت
مسلمانوں کے ہی ہاتھوں میں تھی۔لیکن آزادی کے بعد خصوصاً ریاست مہاراشٹر کی
تشکیل کے بعد یہ منظر نامہ بدل گیا۔ اس پرمار واڑیوں اور بنیوں کا قبضہ
ہوگیا۔ گجراتیوں نے مرار جی راؤ دیسائی کی قیادت میں ساؤتھ افریقہ اور دیگر
یوروپی ممالک میں اپنے کاروبار کو فروغ دیا۔ اس میں ویزا اوررہائشی مسائل
کی شرائط کو دیسائی نے بڑے اچھے ڈھنگ سے حل کیا تھا۔ چنانچہ آج افریقی
ممالک ، یوروپی ممالک میں گجراتی پٹیل چھائے ہوئے ہیں۔ مہاراشٹر میں
مسلمانوں کے پاس پاورلوم کی زبردست صنعت تھی۔ ممبئی ، بھیونڈی ، مالیگاؤں ،
جلگاؤں ، کھام گاؤں اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں نے اس تجارت میں کافی
ترقی حاصل کی تھی۔ بیڑ کے مسلمانوں کے پاس چرم سازی کا فن اپنے عروج پر
تھا۔ آہستہ آہستہ پاور لوم کی صنعت مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلتی گئی۔ خام
مال بنیوں کے یہاں سے آنے لگا اور تیار شدہ مال بھی وہی جانے لگا۔چنانچہ
مسلمان صرف مزدوربن کررہ گیا۔ حکومت مہاراشٹر نے جس میں کانگریس پارٹی ہی
زیادہ تر مہاراشٹرمیں برسر اقتدار رہی لیکن اس نے مسلمانوں کی معاشی ترقی
کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے اور نہ ہی ان کی چھوٹی چھوٹی صنعتوں کو
کوئی مالی تعاون دیا اور اگر کہیں دیا بھی ہو تو اس کا اثر من حیث القوم
نظر نہیں آیا۔ اس طرح اقتصادی طورپرمسلمانوں کو دانستہ و نادانستہ طورپر
ابھرنے نہیں دیا گیا۔ یعنی تعلیم میں تمام اعلیٰ ادارے کس کے قبضہ میں ہیں۔
مہاراشٹر میں کتنی یونیورسٹیاں ہیں اور کتنے وائس چانسلر مسلم ہیں۔
مہاراشٹر میں اعلیٰ عہدوں خصوصاً کلاس ون آفیسر کتنے ہیں۔ پولس میں
مسلمانوں کا فیصد 3.35 فیصد ہے۔ سرکاری ملازمتوں کا تو اﷲ ہی حافظ ہے،مستقل
نان گرانٹ اردو اسکولوں کا مسئلہ بھی اب تک لٹکا ہوا ہے،بینکوں سے مسلمانوں
کو قرض ملنا ناممکنات میں سے ہوگیا ہے۔ سرکاری بینکوں کے ملازمین نہایت ہی
تعصب و فرقہ پرستی کا مظاہرہ کر تے ہیں۔ا س کی مثال اسکالر شپ کے واسطہ
طلباء کو بینک میں اکاؤنٹ کھولنا ضروری ہے۔ اس میں کس طرح طلباء و سرپرست
حضرات کو پریشان و ہراساں کیا جاتاہے۔اور بھی بے شمار مسائل ہیں یہ سب
بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
مہاراشٹر میں مسلمانوں کی سماجی صورتحال کیا ہے۔ اور سیاسی اعتبار سے
مسلمان آج مہاراشٹر میں کہاں کھڑا نظر آتا ہے۔ مراٹھواڑہ میں پولس ایکشن نے
مسلمانوں کی ہمت و طاقت کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ ایسے خوفزدہ تھے کہ سر
اٹھا کر چلنا ان کیلئے مشکل ہوگیا تھا۔ مہاراشٹر کے دیگر علاقوں میں مراٹھی
زبان و تیلگو و کنڑ زبان بولنے والے مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔
جن سنگھ ، ہندو مہا سبھا او ر دیگر ہندو احیاء پرست تنظیموں نے مسلمانوں کو
ہر میدان میں پیچھے دھکیلنے کی پوری کوششیں کیں۔ مہاراشٹر کے
مالیگاؤں،دھولیہ اور بھی مختلف علاقوں میں بے شمار فسادات ہوئے ہیں اور
ساری دنیا جانتی ہیکہ ان فسادات میں نقصان اکثر مسلمانوں کا ہی ہوتا ہے۔
بابری مسجدکی شہادت سے قبل ممبئی کی ٹرینوں میں مسلمانوں کاسفر کرنا مشکل
ہوگیا تھا۔ داڑھی ٹوپی والا مسلمان نظر آتے ہی اس کا مذاق اڑایا جاتا۔ کبھی
انہیں ٹاڈا ،پوٹا توکبھی مکوکا جیسے قوانین کے ڈر کے سایہ میں رکھا گیا تو
کبھی ان مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے نئی تعلیم یافتہ نسل کو نا امیدی کی
طرف دھکیلا گیااور دھکیلا جا رہا ہے۔ ان پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کردیا
گیا اور بے شمار نوجوانوں کو جیلوں میں بھر دیا گیا۔ یہ بات جگ ظاہر ہو
جانے کے باوجود کہ مہاراشٹر اور ملک میں ہونے والے دیگر بم دھماکوں میں
ہندو دہشت گردوں اور بھگوا تنظیموں کا ہاتھ ہے پھر بھی مسلم نوجوانوں کورہا
نہیں کیاگیا۔ سیاسی اعتبار سے مسلم لیڈر شپ کو پنپنے نہیں دیا گیا۔مہاراشٹر
کے قیام کے بعد سے مسلسل جیلوں میں مسلم محروسین کی تعداد بڑھتی گئی، ایک
رپورٹ کے مطابق 2005 کے بعدسے جیل کی آبادی میں 40 فیصد آبادی مسلمانوں کی
ہے۔
بہر حال بہت ساری وجوہات ہیں جسے جان کر اندازہ ہوتا ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ
تعصب،فرقہ پرستی،جیسے عنوان کے نام پر ہی مہاراشٹر کا قیام عمل میں لایا
گیاتھا․․․! |