کرنول (اندھراپردیش) سے شائع
ہونے والے ایک موقر ماہنامہ نے اپنے اپریل کے شمارے میں ’’جب حج و عمرہ نہ
کرنا ، عمرہ کرنے سے افضل ہوجائے ‘‘عنوان سے ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں
سعودی نظام حکومت اوراس کی بعض پالیسیوں اور اقدامات سے اختلاف کی بنیاد پر
یہ ترغیب دی گئی ہے کہ موجودہ حالات میں سعادت حج و عمرہ حاصل کرنے سے، نہ
کرنا ہی افضل ہے۔ استغفراﷲ۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک فاسد خیال ہے اور گمراہ
کن تحریک کا آغاز ہے ۔ ہم مضمون نگار کی نیت پر تو شک نہیں کریں گے مگر ان
کی نادانی پر خصوصاً توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں۔
فاضل مضمون نگار نے، جن کا نام درج نہیں کیا گیاہے، سیرت کے ایک اہم واقعہ
کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔ یہ واقعہ صلح حدیبیہ کے موقع کا ہے، جب نبی کریم
ﷺ 14سوصحابہ کے ساتھ عمرہ کے ارادے سے مدینہ سے مکہ کے لئے نکلے۔ مشرکین
مکہ نے، اس کے باوجود کہ حضوراکرمؐ ؑاور حضرات صحابہؓ احرام میں تھے ، عمرہ
کرنے سے روک دیا۔ اس موقع پر حضورﷺ نے حضرت عثمان ؓ کو اپنے سفیر کے طور پر
یہ پیغام لے کرمشرکین مکہ کے پاس بھیجاکہ ہم جنگ کے ارادے سے نہیں آئے ہیں،
عمرہ کرکے لوٹ جائیں گے۔ دوران مکالمہ سرداران قریش نے، جواس وقت تک ایمان
نہیں لائے تھے اور اہل اسلام کے خلاف برسرِ جنگ تھے، حضرت عثمان ؓکو یہ پیش
کش کی کہ وہ انفرادی طور سے طواف بیت اﷲ شریف اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنا
چا ہیں تو کرلیں،مگر حضرت عثمان ؓنے اس پیش کش کو قبول نہیں فرمایا اور صاف
کہہ دیا کہ ان کو یہ منظور نہیں کہ وہ تنہا طواف وعمرہ کرلیں ، جبکہ
حضورصلعم اور دیگر صحابہ کرام محروم رہیں۔ فاضل مضمون نگار نے حضرت عثمان ؓ
ؓکے اس انکار کو بطوردلیل پیش فرمایا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ’’
موجودہ حالات میں مسلمانان عالم اگر حضرت عثمانؓ کی پیروی کریں،جنہوں نے
عمرہ کرنے کی قریش کی دعوت قبول نہیں کی تو پوری طرح حق بجانب ہونگے۔‘‘
لیکن ان کی یہ دلیل درست نہیں ہے اورکئی وجوہ سے گمراہ کن ہے۔سعودی عرب کے
موجودہ حالات ہرگز ایسے نہیں ہیں جیسے مکہ مکرمہ میں سنہ 6ھجری میں تھے ۔
جیساکہ خود مضمون نگار نے کہا ہے، حضرت عثمان ؓ نے قریش کی دعوت پر اس لئے
حج وعمرہ سے انکار کردیا تھا کہ ’’اہل مکہ نے اہل حق اور اہل اسلام کو طواف
وعمرہ سے روک دیا تھا۔‘‘اس وقت خدانخواستہ کوئی ایسی صورت نہیں۔ دنیا بھر
سے پیر وجوان، عورت و مرد اور بچے آتے ہیں اور اوقات نماز کے علاوہ رات اور
دن طواف وسعی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
سعودی عرب کے موجودہ نظام حکومت اوراس کی بعض پالیسیوں سے اختلافات کی وجہ
سے مکہ مکرمہ کے حکام اور عوام کو کفاران قریش سے تعبیرکرنا سخت نادانی ہے۔
سعودی عرب نے کسی کوحج و عمرہ سے نہیں روکا ہے۔ صراحت کے ساتھ یہ اعلان بھی
آچکا ہے اگرکوئی اخوانی حج یاعمرہ کے لئے آناچاہے گا، تو اس کو روکا نہیں
جائیگا۔رہا حکومت کی بعض پالیسیوں اوراقدامات سے اختلاف ، تو بیشک یہ آپ کا
حق ہے ، ضرور کیجئے۔ مگر اس کا یہ طریقہ مذموم ہے کہ لوگوں کو حج و عمرہ کی
سعادت سے رک جانے کی ترغیب دی جائے۔ سعودی نظام سے اختلاف کی بناء پر چند
سال قبل وہاں ایام حج کے دوران مظاہرے بھی ہوئے تھے، جن کی اس بناء پر
شدیدمذمت ہوئی تھی کہ ارکان حج کی ادائیگی اورعبادت الٰہی میں مشغول بندگان
خدا کو اس سے تکلیف پہنچی اوربد نظمی پیدا ہوئی۔
فاضل مضمون نگارنے حضرت عثمانؓ کا واقعہ تودرست بیان فرمایا مگر اس سے یہ
دلیل کہاں نکلتی ہے کہ مکہ پر مشرکین کے قابض ہونے سے ، یا نظام حکومت
خاندانی ہونے سے یا اس کی پالیسیوں اور اقدامات سے اختلاف کی بناء پرحج و
عمرہ کرنے سے نہ کرنا افضل سمجھا گیا؟ اگر ایسا ہوتا تو ہمارے حضورصلعم
14سوصحابہ کرام ؓکے ساتھ عمرہ کے ارادے سے مدینہ سے چل کرمقام حدیبیہ تک نہ
پہنچتے اور صلح حدیبیہ کے بعد دوسرے ہی سال حج کے لئے تشریف نہ لاتے۔ آپ
صلعم نے صحابہ کے ساتھ عمرہ کے لئے یہ سفر اوراس کے بعدحج اس حال میں کیا
کہ مکہ پر مشرکین کا قبضہ تھا اور خانہ کعبہ میں سینکڑوں بت رکھے ہوئے تھے۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حج وعمرہ کی فضیلت ہرحال میں مسلمہ ہے، چاہے مکہ
پر حکمران کوئی بھی ہو اور حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔بلا اختلاف تمام
مسالک حج وعمرہ کوسعادت ہی گردانتے ہیں اور طواف کعبہ اورروزہ رسولﷺ پر
درودوسلام کی آرزولئے ہوئے ،بار باروہاں حاضری دیتے ہیں۔
ہم فاضل مضمون نگار کی توجہ اس پہلو پر بھی دلانا چاہتے ہیں کہ تاریخ اسلام
کے بیشتردور میں یہ خطہ حجاز خاندانی حکومتوں کے زیرنگیں ہی رہا ہے اوران
حکومتوں سے اہل تقوٰی کو سخت اختلاف بھی رہا ، مگر سعادت حج و زیارت کے کسی
نے اجتناب نہیں کیا۔ ارض حجاز سے خلافت عثمانیہ کا اقتدار تقریباً ایک صدی
قبل سنہ1916 ء(1334ھجری) میں ختم ہوا۔ یہ خلافت بھی نسلی اور خاندانی
حکمرانی کا تسلسل تھی۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب ہندستان میں تحریک
تحفظ خلافت شباب پر تھی اور شریف مکہ نے ہندستان کے کئی ممتازعلماء کو
برطانیہ کی طلب پر مکہ مکرمہ سے گرفتار کراکے انگریزوں کے حوالے کردیا تھا،
جوچارسال تک مالٹا میں اسیر بناکر رکھے گئے۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو
اقتدار کی اس تبدیلی سے قبل اورنہ اس کے بعد ،کہیں سے یہ آواز اٹھی کہ
کیونکہ ’نظام حکومت خاندانی ہے ،اس کی بعض پالییساں غلط ہیں، اس لئے حج
وعمرہ کرنے سے نہ کرنا افضل ہے۔‘ یہ نئی بات جو اس مضمون میں کہی گئی ہے،
ایک فتنہ کا درکھولتی ہے ،جس کا اثر حرمین شریفین سے اہل اسلام کی والہانہ
عقیدت و محبت پر پڑ سکتا ہے حالانکہ یہ عقیدت و محبت ہر صاحب ایمان کے لئے
ایک اثاثہ ہے۔ حرمین شریفین اسلام کے مقدس ترین تاریخی مراکز ہیں۔ ان کی
زیارت اور وہاں کی عبادتوں کو جو فضیلتیں ہیں ،وہ ہرحال میں قائم ہیں اور
رہیں گی۔ مضمون نگار نے یہ غورنہیں فرمایا کہ حج و عمرہ کا ارادہ کرنے
والوں کے ارادے کو کمزور کرنے یا ان کو ارداہ ترک کرنے کی ترغیب دینے کا
مطلب کیا ہوا؟اﷲ ہمیں ہرطرح کی نادانی اورفتنوں سے محفوظ رکھے اور بار بار
حرمین شریفین میں حاضری کا شرف عطافرمائے۔ آمین۔
انتخابی مہم
لوک سبھا کے انتخاب اپنے آخری مرحلے میں ہیں۔ سنگھی پرامید ہیں کہ انہوں نے
جھوٹ ، فریب اور بدزبانی کی جومہم پانچ سال پہلے چھیڑی تھی ، ہندستان کے
عوام اس کے نرغہ میں آگئے ہیں اور ان کی کامیابی یقینی ہے۔چندحلقوں کو چھوڑ
کر ملک بھر کے رائے دہندگان اپنا فیصلہ دے چکے ۔انہوں نے فیصلہ دانائی کا
کیا یا نادانی کو دانائی سمجھ کر فسادیوں کوووٹ دیا ہے، یہ 16مئی کو معلوم
ہوگا۔ کئی بار نتائج سارے قیاسات اور جائزوں کے خلاف بھی آتے ہیں۔نتیجہ کچھ
بھی ہو ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔یہ دنیا آنی جانی ہے، نہ جانے کتنے
فرعون آئے اور چلے گئے۔ دیکھا جائے توسیکولرزم کا ڈنکا بجانے والے بھی عملی
طور پر کتنے سیکولر ثابت ہوئے؟البتہ اس انتخابی مہم کا معیار پستی یقینا
تشویش کا باعث ہے۔
اس مہم کے دوران کچھ نے جوش میں ہوش کھویا، کچھ نے جان بوجھ کر گھٹیا
حرکتیں کیں۔ تازہ مثال جنسی لذت میں ڈوبا ہواخودساختہ ’بابا‘ رام دیو کا
بیان ہے ۔یہ ایک مخصوص طبقہ کی اس گندی ذہنیت کی عکاسی ہے جس میں صدیوں سے
یہ ذلیل خیال بساہوا کہ دلت بہوبیٹیاں عفت وعصمت ہی نہیں رکھتیں۔ جو چاہے ،
جب چاہے،جہاں چاہے ان کو ہوس کا شکار بنالے۔ جگہ جگہ دلتوں کی آبروریزی کے
واقعات اسی ذہنیت کا نتیجہ ہیں۔بھاجپا کے ہم نوا ایک اور ’بابا‘ آسارام
اپنی جنسی ہوسناکی کی بدولت جیل میں ہیں۔ ایسے لوگوں کو بابااور سوامی کہنا
سارے باباؤں اورسوامیوں کی سخت توہین ہے۔
راج ناتھ کی یقین دہانی
بھاجپا صدرراج ناتھ سنگھ نے لکھنؤ میں اپنی انتخابی مہم کے دوران بعض مقتدر
مسلم علماء سے ملاقات کی اور کہا کہ مودی کی ذات سے مسلمان فکرمند نہ ہوں۔
یہ بات وہ بار بار دوہراچکے ہیں۔ ان کے پاس اس کا کیا جواب کہ مودی کے
گجرات میں مسلم اقلیت کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک ہو رہا ہے ۔ مسلمانو ں کے
گھروں پر جبری قبضہ کا توگڑیا کا مشورہ اور بھاؤ نگر میں ایک بوہرہ مسلمان
کے گھر کے باہر مستقل دھرنا اور گھڑیال بجانا ، روزگار پانے کے لئے
مسلمانوں کو اپنی شناخت چھپانے کے لئے مجبور ہونااور مودی کے اسمبلی حلقے
میں مسلم آبادیوں کی زبوں حالی اور اس کے مقابلے اسی حلقے میں غیر مسلم
علاقوں میں ہر طرح کی آسائشیں ،اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ مودی کے ذہن میں
مسلم اقلیت کے خلاف زہر بھرا ہوا ہے۔ یہ زہر اس فاسد نظریہ کی عطا ہے جس کو
آرایس ایس کہتے ہیں۔ ہاں پارسیوں سے رغبت ہے ،وہ اس لئے کہ اسرائیل کو خوش
رکھا جائے۔
سنگھی بات تودیش بھکتی اور ہندوکلچر کی کرتے ہیں، مگر عمل اس کے خلاف کرتے
ہیں۔ ہندوسماج میں داماد کو عزت دی جاتی ہے۔ ملک اورقوم کے لئے قربانی دینے
والوں کی پوجا کی جاتی ہے، ان کے خاندان والوں کو عزت دی جاتی ہے۔ سنگھی
اور ان کے نمائندہ مودی اس کے خلاف کررہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے، کسی سنگھی نے
تحریک آزادی میں قربانی نہیں دی۔ وہ دیش بھکتی کیا جانیں؟ ان کو دوسروں سے
سوال کرنے کا کیا حق؟
کانگریس کا حال
افسوس کہ سب سے لمبے عرصہ حکومت کرنے والی ’’سیکولر کانگریس‘‘ نے سنگھ کے
فاسد نظریہ کی تبلیغ اور انتظامیہ میں اس کی دراندازی کو نظرانداز کیا اور
اب سٹپٹا رہی ہے۔یوپی اے ہی اگر ایمانداری سے’نرم ہندتوا‘ کے بجائے
سیکولرایجنڈہ پرقائم ہوجاتی ،تو صورت مختلف ہوتی۔ دہشت گردی کے الزام میں
بیجا گرفتاریاں،اقلیتوں کی ہرجائز مانگ کو اس اندیشے سے ٹلانا کہ ہندو ووٹ
ہاتھ سے نکل جائیگا، سب نظریہ کے اسی فساد کی بدولت ہے۔ اسی لئے افضل گرو
کو قاعدہ، قانون بالائے طاق رکھ کر پھانسی پر لٹکایا گیا ،مگر افسوس یہ
حرکتیں کچھ کام نہ آئیں۔ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور کے جن خفی پہلوؤں
کو انتخابی مہم کے آخر میں جلی سرخی سے ابھار نا چاہا ، اگران پر پچھلے دس
برس کے دوران عمل کرلیا ہوتا تو جان بچ جاتی۔اس کے لئے اب بھی موقع ہے۔
کیونکہ آثار یہ کہتے ہیں نئی حکومت جو بھی آئے گی، پانچ سال نہیں چلے گی
اور اس کے بعد مایوسی کا شدید دور آئے گا، کیونکہ عوام اور خصوصا نوجوان
نسل میں جھوٹے پروپگنڈے سے جو توقعات پیداکردی گئی ہیں ان پر کھرااترنا کسی
کے بس کی بات نہیں۔ (ختم) |