اردو۔۔۔قومی ورثے۔۔۔۔ خداحافظ!!

دنیامیں آباد ممالک اور قومیں اپنی شناخت اور پہچان قائم رکھنے کے لیے اپنے طورپرمخصوص اقدار، علامتیں اورشعائر رکھتی ہیں جن سے عالمی سطح پر اس قوم یاملک کاتشخص برقراررہتاہے۔ کسی بھی ملک میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو’’قومی‘‘ کا درجہ دیاجاتاہے جس کے بعد وہاں کے باشندے ان چیزوں یاعلامات وشخصیات کوفخر اورقدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ خوددار قوم بھی وہی کہلاتی ہے جواپنی تہذیب وتمدن، مخصوص اقدار، ملی ومذہبی رسوم وطریقے اور قومی ورثے کو سینے سے لگاکر اس کی حفاظت کرے اور ہرحالت میں اس پرقائم رہے۔ بہر حال پاکستان اسلام کے نام پربناتھا اور آئین وقانون کی رو سے پاکستان کا مملکتی مذہب بھی اسلام ہے لیکن یہاں حکومتی اور عوامی سطح پر اسلام کی کتنی اہمیت ہے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے، ملک کے مختلف کونوں سے لادینیت کی جو آوازیں بلندہوتی رہتی ہیں اور جو مختلف اطوار وکردار ہمیں نظرآتے ہیں ایسے میں کوئی کیا گمان کرسکتاہے کہ یہاں کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ وطن عزیز پاکستان کا پورا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن مختلف دستاویزات میں اس پورے نام لکھنے سے ہم گریزاں ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جن کو اپنے پیارے ملک کا پورا نام بھی نہیں آتا، نام نہ آنا توعیب ہے لیکن نام تبدیل کرنے کی خواہش ظاہر کرنا کس زمرے میں آئے گا!!! میرا اشارہ ان ’’مصلحت پسند‘‘ افراد کی جانب ہے جو وطن عزیزکے نام سے لفظ ’’اسلامی‘‘ ختم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ شاعرمشرق علامہ اقبال سے متعلق توآپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ وہ ہماراقومی شاعرہیں، شکرہے ہم سال میں دو دفعہ اقبال کو تو یادکرتے ہیں، اقبال یادہونہ یادہو اپنی ڈیوٹی سے جان چھڑانے یاکم ازکم کچھ تعطل لانے کے لیے چھٹی تو ہمیں یادہی ہوتی ہے۔ بہت سے دلوں میں اقبال کی محبت اس لیے بھی ہوگی کہ ان کی وجہ سے کبھی ایک اورکبھی دوچھٹیاں مل جاتی ہیں۔ یہی حال ہمارے قومی دنوں کابھی ہے جیسے چودہ اگست، تئیس مارچ وغیرہ کہ چھٹی کے باعث ہم ان دنوں کو یاد رکھتے ہیں۔ کیاآپ کومعلوم ہے کہ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے، شنیدہے کہ قومی ہاکی ٹیم شایداگلے ورلڈکپ میں شمولیت کے لیے اہل قرارنہ پائے، جی ہاں! یہ ہماراقومی کھیل ہے اور قومی ’’شعائر‘‘ کا ہم یوں ہی حشرکردیتے ہیں۔ قومی پھول گل یاسمین توخیرپاکستانی زمین میں نایاب ہونے کوجارہاہے اور ہمارے جدیدتعلیم یافتہ نوجوانوں کو غالباً نام کی حدتک بھی اس کاعلم نہیں۔ قومی جانور مارخور کے بارے میں کون جانتاہے کہ وہ سانپ ہے یابکری کی ایک قسم ہے ، ہم تو گھروں میں بلی اور کتاپالتے ہیں۔ قومی لباس یعنی شلوارقمیص پہن کرقوم کی خدمت میں کچھ تنگی محسوس ہوتی ہے، ویسے بھی آج کل پوری بات ’’لباس‘‘ ہی سے بنتی ہے، اندرسے کچھ بھی ہو لباس کی حدتک توہم ترقی یافتہ ممالک کی طرح بن سکتے ہیں، پہلے پہل جب پختون قوم پہاڑی اور ان پڑھ شمارہوتی تھی توان کے بدن پرشلوارقمیص نظرآتاتھا لیکن اب ماشاء اللہ یہ قوم بھی ترقی کی منازل طے کرتی ہوئی کوٹ پینٹ سے بھی نہیں شرماتی۔ بیشتر ہم ’’قومی‘‘ کامعنی ’’پاکستانی‘‘ سے کرتے تھے اورہروہ عمل یاچیزجس سے پاکستان کاتشخص ظاہر ہوتاتھا یا بطور شعارہم دنیاکودکھاتے تواس کوقومی کہہ کرباقی دنیاکے سامنے بطورفخرپیش بھی کرتے تھے لیکن اب پتہ نہیں قومی کامفہوم ومطلب کیا لکھا اور بیان کیاجائے گا، اب توہماری روایات و اقدارمیں دیگر ’’قوموں‘‘ کے نشانے زیادہ نظرآنے لگے ہیں۔ بازاروں میں کولڈ ڈرنکس کی دکانوں پر پیپسی، کوکاکولا اور سیون اپ وغیرہ کی بوتلیں سجی نظرآتی ہیں اور تھکے پیاسوں کاہجوم بھی قابل دیدہوتاہے ورنہ میں نے تو سناہے کہ پاکستان کاقومی مشروب گنے کارس ہے، شایداس بات کوصیغہ رازمیں رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ پھر لوگ گنے کارس پیناشروع کردیں گے تو ہمارے شوگرملوں میں چینی اورگڑھ کاکیا بنے گا۔ دیودار کوقومی درخت کی حیثیت سے ہم نے کتنا متعارف کرایا اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم، صدر، وزراء اور دیگر پاکستانی ’’خدام‘‘ کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ انگریزی میں بات کرنے کی پوری ’’کوشش‘‘ کرتے ہیں او ر کم ازکم انگریزی الفاظ کا استعمال تو اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں لیکن دوسری طرف سکول کی کتابوں میں ہم نے پڑھاہے کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہے۔ اب آئندہ نسلوں کو ہم کیسے باور کرائیں گے کہ ہماری قومی زبان اردوہے کیونکہ تمام دفتری امور کی خط وکتابت انگریزی میں ہے، بازاروں میں لگے سائن بورڈز انگریزی میں اویزاں کیے جاتے ہیں، ہسپتالوں اور دیگراداروں میں انگریزی الفاظ واصلاحات کا اتنااستعمال کہ عام آدمی بات ہی نہ سمجھے، ’’حکام بالا‘‘ کی تقاریر یاٹی وی وغیرہ پر انٹرویوزمیں انگریزی زبان کا غلبہ ہوتاہے، کھانے پینے کی مصنوعات اور دوائیوں وغیرہ پر انگریزی تحریریں درج ہوتی ہیں، غرض ہر جگہ انگریزی ہی انگریزی ہے اور اب تو وفاقی سطح پر بالعموم اور خیبر پختونخوا میں بالخصوص یہ کوشش جاری ہے کہ نصاب تعلیم کی کتابیں انگریزی میں ہوں اور ذریعہ تعلیم بھی انگریزی ہو، فی الحال میں اس بحث میں نہیں پڑتاکہ طلبہ کو صحیح معنوں میں علم دینے کے لیے مادری زبان بہترہے، قومی زبان زیادہ مفیدہے یا انگریزی زبان سے کامل انسان وجود پائے گا بہرحال یہ فکرضرور لاحق ہے کہ آخرہماری قومی زبان اردو کاکیا بنے گا؟ اگرکچھ ہی سالوں تک انگریزی کا سلسلہ جاری رہاتو ہماری آئندہ نسلوں کے ذہنوں میں اردو زبان کی کیاحیثیت ووقعت ہوگی اور وہ اردو سے کتنی واقف ہوں گی؟ شاید بہت جلد ہم داغ کے اس شعر کو داغ دار بنانے جارہے ہیں کہ
اردوہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

سنا ہے شاہ جہان نے ایک بازارکانام بھی ’’اردوئے معلی‘‘ رکھاتھا۔ اگرپاکستان اور ہندوستان کی سطح پراردوکے موجودہ حشرسے واقف ہوتے تو محمدعطاء حسین، مرادشاہ، فضلی محمد، خواجہ بندہ نواز، ملاوجہی، ڈپٹی نذیراحمد، محمدقلی، رشیدۃ النساء، سجادحیدریلدرم، اسماعیل میرٹھی، سرسیداحمدخان، حضرت شاہ رفیع الدین، ایم ٹینی سن، امیرخسرو، امام بخش ناسخ، نظیراکبرآبادی، محمدیوسف اور محمدحسین آزاد وغیرہ اردو ادب کے مختلف اصناف میں غوطے لگاکران کاآغاز نہ کرتے اور اس کے بعدمیرتقی میر، میردرد، سودا، غالب، داغ، میرانیس اوراقبال جیسے استاد شعرا اردو شاعری کو زبان وبیان سے مالامال نہ کرتے۔ میں نے اپنے پچھلے ایک کالم میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیاتھا کہ آج کے عوام تو عوام تعلیم یافتہ طبقہ بھی اردو کی صحت کاخیال نہیں رکھتا لیکن اب یہ فکر دامن گیرہے کہ بھلے غلط ہی کیوں نہ ہو اردو زبان تو بولنی چاہئے۔ میں مانتاہوں کہ اپنے طورپر بہت سارے عشاق اردو مختلف اصناف سخن میں اردوکی بہتری کے لیے تحقیق و تصنیف میں لگے ہوئے ہیں، یونی ورسٹیوں کی سطح پربھی اردوکے شعبے قائم ہیں لیکن جب حکومت کی طرف سے اردو کوچھوڑکر انگریزی پرتوجہ مرکوزکرنے کا منظر سامنے آتاہے تو ہم دل میں شکوہ ہی کرسکتے ہیں،!!!۔ خود ہمارا یہ بھی تجربہ ہے کہ سکول وکالج میں طلبہ اردو کی کلاس پراتنی توجہ نہیں دیتے اور ڈانٹنے پرطلبہ خودہی دلیل دیتے ہیں کہ ’’سر! ہماری آئندہ زندگی میں تمام کتابیں انگریزی میں ہوں گی، واسطہ انگریزی سے ہوگا تو اردو سیکھنے کی کیاضرورت!‘‘ کتنے لوگوں سے سناگیا ہے کہ ہمارے بچے اردو میں کمزور سہی لیکن انگریزی مضبوط ہونی چاہئے۔۔ یہاں میں یہ طعن نہیں دیتا کہ ہم انگریزوں سے متاثرہوکر ایساکرتے ہیں، اس ’’مقولے‘‘ سے بھی صرف نظرکرتاہوں کہ ہم غیروں کے غلام ہیں اور اس الزام پربھی توجہ نہیں دوں گا کہ یہ اوروں کی سازش ہے۔۔۔ لیکن ایک پاکستانی کی حیثیت سے کیایہ ضروری نہیں کہ ہم اپنی قومی زبان کی حفاظت کریں اور اس کو واقعی قومی زبان کی حیثیت دیں کیونکہ قومی زبان وہی ہوتی ہے جوملک کے کونے کونے میں ہرزبان پر جاری ہو، ہرجگہ نظرآئے اور ہرکتاب میں مسطورہو۔ آج ایک ایک کرکے ہم اپنے قومی ورثے سے پاتھ دھورہے ہیں۔ ہرمحاذپرہم اپنی شناخت سے دست بردار ہونے کی خودہی کوشش کرتے ہیں، ذمہ دارہم سب ہیں۔
Nizam Uddin
About the Author: Nizam Uddin Read More Articles by Nizam Uddin: 14 Articles with 16357 views Columnist / Reasercher / Story Writer.. View More