امام راغب اصبہانی اپنی کتاب\"
محا ضرات الا دباء\" میں بیان کرتے ہیں کہ میمون بن مہران ،عمر بن
عبدالعزیز ؒ کے پاس بیٹھے تھے، اتنے میں باہر سے آوا ز سنائی دی،حضرت عمرؒ
نے اپنے دربان سے کہا ،دیکھو دروازے پر کون ہے؟جواب ملا کہ جس شخص نے ابھی
ابھی اونٹ بٹھایا ہے ،اس کا دعوی ہے کہ وہ موذن رسول ﷺ کا بیٹا ہے،حکم ہوا
کہ اسے اندر بلا یا جائے،جب وہ اندر آئے تو فرمائش کی گئی کہ حدیث رسولﷺ
بیان کریں۔
ابن بلالؓ نے عرض کیا ،مجھے میرے والد گرامی نے بیان کیاکہ انہوں نے رسول
اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ \"جو شخص لوگو ں کے کسی معاملے کا نگران
ہو،اور وہ خود کو ان سے چھپا لے تو اللہ تعالی روز قیامت اس سے پردے میں ہو
جائیں گے(یعنی ایسے شخص کو دیدار الہی نصیب نہ ہو گا)۔ ابو داؤد
عمر بن عبدالعزیزؓ نے اسی وقت اپنے دربان سے فرمایا ،آج سے ہمیں تمہاری
ضرورت نہیں ہے،اپنے گھر چلے جاؤ،اس کے بعد ان کے دروازے پر کوئی دربان نہیں
دیکھا گیا۔اس واقعہ پر غور کیا جائے اور اپنے موجودہ حکمرانوں کے شاہانہ
ٹھاٹھ بھاٹھ پر نگاہ دوڑائی جائے تو معاملہ اس کے بالکل برعکس دکھائی دیتا
ہے ۔خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے دور میں
غریب ڈھونڈنے سے بھی دکھائی نہیں دیتا تھا اور زکوۃ لینے والا بھی کوئی نہ
ملتا تھا۔
کسی بھی رعا یا کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کا حاکم ان کے لیے باعث رحمت ہو
،نا کہ باعث زحمت۔ حاکم کے دربان مقرر کر لینے سے بڑھ کر مملکت کو تباہ
کرنے والی اور رعایا کو ہلاک کرنے والی کوئی دوسری شے نہیں۔ دربانوں کی
موجودگی کے باعث رعایا پر حکمران اور حکومتی کارکنوں کا بے پناہ رعب طاری
ہو جاتا ہے کیونکہ جب حکام کو عام آدمی کی حکمرانوں تک رسائی آسان ہونے کا
یقین ہو جاتا ہے تو ظلم رک جاتے ہیں ،مگر جب ان کو یہ پتا چلتا ہے کہ ان تک
عام لوگوں کی رسائی ناممکن ہے تو پھر وہ خوب ظلم کرتے ہیں۔
اگر ہم اپنے ماحول پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں حکومتی اداروں میں ایک نائب
قاصد سے لے کر اس ادارے کے سربراہ تک اپنے آپ کو ایک خاص حصار میں قید کیے
ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ برصغیر سے آزادی کے بعد انگریز واپس اپنے وطن کو چلا
تو گیا لیکن اپنی مغربی تہذیب کی ان رسوم و رواج کو برصغیر کے عوام کو
وراثت میں دے گیا،جو کبھی ہمارا حصہ تھیں ہی نہیں۔ وراثت میں ملنے والی ان
مغربی روایات کا پہلو یہ دکھائی دیا کہ ہمارے حصے میں تاریکی کا گھونٹ آیا
اور خود انگریز اسلام کے سنہری اصولوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر
کامیابی کی راہ پر چلنا شروع ہو گئے۔ اکثر بیشتر عزیز و اقارب جب دیار غیر
سے وطن واپس آتے ہیں یا خود کبھی باہر جانے کا موقع ملتا ہے تو ہمیں اس بات
کابخوبی احساس ہو جاتا ہے کہ یہ انگریز اگر کلمہ پڑھ لیں تو ہم سے بہتر
مسلمان ثابت ہوں گے۔چند دن پہلے کی بات ہے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد
نواز شریف صاحب برطانیہ کے دورہ پر تشریف لے گئے تھے ،ان کے دورہ برطانیہ
کے موقع پر جب ان کی ملاقات وزیراعظم برطانیہ ڈیوڈ کیمرون سے ہونا تھی تو
جو منظر ٹیلی ویثرن پر دکھائی دیا وہ کچھ یوں تھا کہ وزیر اعظم پاکستان کا
استقبال وزیر اعظم برطانیہ نے اپنی رہائش گا ہ 10ڈاوئن سٹریٹ کے دروازے پر
آ کرخود کیا،اس موقع پر وزیر اعظم برطانیہ کی رہائشگاہ کا دروازہ ڈیوڈ
کیمرون نے اپنے ہاتھوں سے خود کھولا اور کوئی دربان دکھائی نہیں دیا اوریہ
کوئی معمولی بات نہیں ہے،آج انہی اسلامی اصولوں کو اپنائے جانے کے سبب
برطانیہ ایک فلاحی ریاست کی حیثیت سے دنیا بھر میں اپنا منفرد مقام رکھے
ہوئے ہے۔ بہرکیف یہاں پرذکر اس بات کا ہے کہ حاکم وقت اور عوام کے درمیان
جتنا زیادہ فاصلہ ہو گا،مسائل میں اضافہ اس قدر ہوتا جائے گا۔ حکمران جتنا
اپنے آپ میں اور عوام میں فاصلہ کم کریں گے اتنی زیادہ عوامی سطح پر ان کی
پذیرائی ممکن ہو گی ۔ حکمران دراصل رعایا کا محافظ ہوا کرتا ہے ،اگر اقتدار
کے حصول کے بعد حاکم خود کو پنجرے میں بند کرے گا تو رعایا یقیناًحاکم وقت
کے دربان کے مظالم کا شکار ہوتی جائے گی۔مثال کے طور پر ہماری بدقسمی یہ ہے
کہ ڈپٹی کمشنر صاحب کے دفتر کا ایک معمولی سا ملاز م خود اپنے آپ کو اپنے
صاحب کے منصب کے برابر سمجھتے ہوئے سائلین کے لیے اپنے صاحب کی کرسی کا رعب
جمانے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتا اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ
ہمارے حکمران اور یہاں حکمران سے مراد صرف صدرو وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ ہر
وہ میرا محترم ہے،جن کے کندھوں پر عوامی مسائل کے حل کرنے کے لیے حکومت نے
بوجھ ڈال رکھا ہے، ان کا تعلق کسی بھی ادارے سے ہو،مگر عوام اور ان کے
درمیان رخنے ڈالنے والا جو دوست ان کے دروازے پر کرسی جمائے بیٹھا ہوتا
ہے،وہیں سے معاشرتی مسائل کا جنم ہوتا ہے۔ یہ معاشرتی مسائل پھر عوام اور
حکمران کے درمیان نفرت کے بیج کو بونا شروع کر دیتے ہیں اور پھر یہی بیج
مظلوم سائلین کی بددعاؤں کے سائے میں پلنا شروع کر دیتے ہیں اور دنیا میں
بھی اس کا نتیجہ یوں دکھائی دینے لگتا ہے کہ ادھر اقتدار کا خاتمہ ہوا تو
دوسری جانب عوام کی عدالت میں ماضی کے حاکم وقت کو ذلت اٹھانا پڑتی ہے اور
پھر دنیا تو پھر دنیا ہے جیسے تیسے کر کے گزر ہی جائے گی مگر بروز محشر جب
وہی حاکم دنیا، رب ذوالجلال کے دیدار سے محروم رہ جائے گا تو اس سے بڑی
بدقسمی اس کے لیے اور کیا ہوگی۔۔۔۔ذرا سوچیئے۔۔۔۔!!! |