ـ’لمحہ فکر ‘ کی شاعرہ نعیم
فاطمہ توفیق کا مجموعہ کلام’آئینہ فکر ‘کا میں پہلے ہی تفصیل سے مطالعہ کر
چکا تھا اور ان کی شاعری سے متاثر بھی ہوا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مجھے
اپنے ہی جیسی شاعرہ لگیں، یعنی آسان سے آسان الفاظ کااستعمال، جو بات کہنی
ہے سادہ پیرائے میں کہہ دی جائے اس کے لیے شاعری کے اصولوں کی خلاف ورزی ہی
کیوں نہ کرنی پڑجائے۔ انہوں نے اس بات کا بر ملا اظہار بھی کتاب کے تعارف
میں کردیا ہے کہ انہوں نے شاعری میں علم و عروض کی سختی سے پابندی نہیں
کی۔یہ کوئی قابل گرفت بات نہیں بعض شعراء اس بات کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں
کہ وہ شاعری میں علم و عروض کی سختی سے پابندی کے قائل نہیں۔اس حوالے سے
اردو شاعری کی تاریخ میں نظیر اکبر آبادی کی مثال پیش کی جاسکتی ہے لیکن
نظیر اکبر آبادی کا کوئی بھی شعر علم و عروض سے باہر نہیں۔ لفظیات میں بھی
نظیر کا کوئی ثانی نہیں۔ بقول پروفسر سحر انصاری’’وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں
نے عامیانہ, سوقیانہ اور غیر شاعرانہ الفاظ کو بھی شاعری بنا دیا ہے‘‘۔
جب ان کا دوسرا مجموعہ کلام ’’لمحہ فکر‘‘ طباعت کے مراحل میں تھا تو میرے
دوست عبد الصمد انصاری نے شعری مجموعے کا مسودہ مجھے اس غرض سے دیا کہ میں
اس کا پیش لفظ لکھوں۔ پہلے تو میں یہی سمجھا کہ میرا دوست مجھ سے مزاق کر
رہا ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ کسی قد آور علمی شخصیت سے میرے توسط سے یہ کام
کرانے کی خواہش رکھتا ہو لیکن ان کا اصرار جاری رہا۔ میں نے بہت ٹال مٹول
سے کام لیا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ بالا آخر ’لمحہ فکر‘ کا مطالعہ شروع
کیا، یہ مجموعہ مجھے نیٹ پر دیا گیا تھا، یعنی اس کی میرے پاس سافٹ کاپی
تھی اور کمپیوٹر اسکرین پر مجھے اس کا مطالعہ کرکے اپنے خیالات کا اظہار
کرنا تھا جو ایک مشکل کام بھی تھا لیکن میں ایسے مشکل کاموں کا عادی ہوں۔
شاعری کی جانچ اور پرکھ کا ایک کلیہ یہ بیان کیا گیاہے کہ شاعر نے کیا کہا
ہے؟ دوسرے یہ کہ اس کا انداز یا اس نے شعر کس طرح کہا ہے۔ ماہرین کا کہنا
ہے کہ شاعری میں یہ بات زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ شاعر نے کیا کہا ہے ، اس
کے مقابلے میں دوسری بات یعنی کس طرح کہا ہے کم اہم ہے۔ لیکن اس بات کو نظر
انداز بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ خیالات کو خوب صورت اور اچھے انداز سے پیش
کرنے سے ہی بات بنتی ہے اور دونوں کے اشتراک سے اچھی شاعری جنم لیتی ہے۔
پیش نظر مجموعے کی خالق نعیم فاطمہ توفیق کی شاعری کے پس پردہ خیالات ،
افکار اور احساسات پاکیزہ اور حساس نوعیت کے ہیں نہیں انہوں نے صاف صاف
طریقے سے شاعری کا روپ دے دیا ہے اور وہ اس میں کامیاب و کامران نظر آتی
ہیں۔
مجموعہ کلام ’’لمحہ فکر‘‘ کا مطالعہ بتا تا ہے کہ اس مجموعہ میں جو کچھ کہا
گیا ہے وہ ایمانداری، سچائی، دردمندی، جان سوزی اور جذبہ حیات اثار کے
احساسات کے ساتھ کہا گیا ہے۔اس میں حمد بھی ہیں ، دعا بھی ،نعتِ رسول مقبول
صلی اﷲ علیہ وسلم بھی، نظمیں بھی ہیں، غزلیں بھی، قطعات بھی ہیں رباعیات
بھی۔ ان کے کلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ موصوفہ اختصار کی قائل ہیں ، مصرعے
چھوٹے چھوٹے ہیں لیکن ان کے پیچھے وسیع مفہوم پوشیدہ نظر آتا ہے۔ گویا ان
کا ظاہری پن مختصر لیکن باطن میں ان کے کلام کا قد کاٹ بلند ہے۔
شاعری میں دکھ و تکلیف، غم و اندوہ، دکھ اور کرب کے احساسات کو خوبصورت
الفاظ میں ڈھالنا شاعر کا فن قرار پاتا ہے۔ زندگی میں شاعر پر جو گزرتی ہے
یا معاشرے میں جو کچھ اس نے دیکھا ، محسوس کیا اسے اشعار کی صورت میں پیش
کردیتا ہے ۔لمحہ فکر کی شاعرہ بھی ایک درد مند دل اورحساس طبیعت رکھتی ہیں،
انہوں نے زندگی کو قریب سے دیکھا، پرکھا اور محسوس کیا ہے۔ ان کی شاعری
گویا ان کے انہی طویل تجربات کی عکاسی کرتی ہے۔
ان کی نظم ’’پاکستانی نوجوانوں سے خطاب ‘‘ ایک خوبصورت احساس ہے۔
وہ دیار غیر میں رہتی ہیں لیکن اپنے دیس ،اپنے ملک اور اپنی قوم سے بے تعلق
نہیں۔ان کی نظم ’’پردیس میں دیس کی یاد ‘‘ ان کے اندر کی آواز ہے۔ پاکستان
کے حالات سے آگاہ اور اسی کرب میں مبتلا ہیں جس میں آج پاکستانی قوم مبتلا
ہے اس کا اظہار انہوں نے اپنی نظموں میں درد بھرے لہجے میں ’’پاکستان کی بد
حالی کا باعث بے خبری ‘‘ اور ’’سیلاب پاکستان ‘‘ کے عنوان سے کیا
ہے۔پاکستانی حکمرانوں سے مخاطب ہوکر پاکستان کے ایک اہم اور حساس موضوع پر
خوبصورت شعر دیکھئے
اپنے حکمرانوں کی غیرت تو دیکھئے
لیتے ہیں دولت غیر سے تفریح کو آج کل
دیتے ہیں ڈرون حملوں کا پرمٹ وہ بخوشی
کرتے ہیں قتل قوم کو مل کر وہ آج کل
عورت ، نوجوان اور بچے بھی ان کا موضوع ہیں۔ ’’ماں ‘‘ کے عنوان سے ان کی
آزاد نظم ، ’’عورت ‘‘ کے عنوان سے ان کی نظم اپنے مثال آپ ہیں۔ بچوں اور
نوجوانوں کے لیے بھی اچھی نظمیں کہیں ہیں۔ غزل تو ہر شاعر کی شان ہے، اس کے
بغیر تو شاعری ادھوری ادھوری سی ہے۔ ان کا ایک خوب صورت شعر دیکھیے
اے دوست میرے دل میں ذرا جھانک کر تو دیکھ
آسان نہیں شمار ، میرے غم کا ہوسکے
نعیم فاطمہ توفیق علیگ ہیں اس حوالے سے علیگیو ں والی خوبیاں ان کے کلام
میں بدرجہ اتم نمایاں ہیں۔ پاکستان کے بعد اب بیرون ملک عرصہ دراز سے قیام
رکھتی ہیں۔ شاعری کے علاوہ نثر بھی لکھتی ہیں اور افسانہ نگار بھی ہیں، سنا
ہے عنقریب ان کے افسانوں کا مجموعہ بھی آنے والا ہے۔ادبی ذوق یقینا انہیں
علی گڑھ اور بریلی کی فضاؤں سے ملا، ان کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں شوہر بھی
بھوپال کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے علم و ادب کے پرستار مل گئے، شوہر کی
رفاقت نے نعیم فاطمہ صاحبہ کی ادبی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ ان کے شوہر توفیق
محمد خان بھی شاعر تھے ان کا شعری مجموعہـ’’اجالے دل کے داغوں کے‘‘شائع
ہوچکا ہے۔آخر میں دل کی بات کہتے ہوئے کہتی
ہیں
خود غرضیاں ہیں غالب، ہمدردیاں ہیں غائب
یاں پیار نہیں ملتا ، اخلاص نہیں ملتا |