پا کستان بننے سے پہلے بھی
اختلاف رائے مو جود تھا بلکہ مسلم لیگ کے بننے سے پہلے تمام مسلمان کانگر
یس میں ہندوستان سے انگریزوں کو نکالنے کیلئے جدو جہد کر رہے تھے لیکن جب
مسلمانو ں کومعلوم ہوا کہ ہندو مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں تو انہوں نے
اپنے لئے ایک الگ جماعت 1906ء میں قائم کی جس کانام مسلم لیگ رکھا گیا ۔
بعد ازں مسلمانوں کو محسوس ہوا کہ ہندوستان میں ہندو ؤں کے ساتھ ایک ملک
میں نہیں رہا جا سکتا ہے ۔وجہ اس کی یہ تھی کہ مسلمانوں کے مقابلے میں
ہندوتعداد میں زیادہ تھے جسکی وجہ سے مسلمانوں کے حقوق پامال ہو رہے تھے
لیکن اس وقت بھی بہت بڑی تعداد میں عام مسلمان اور مسلمان لیڈر یہ سمجھ رہے
تھے کہ مشترک ہندوستان میں ہی مسلمانوں کی بہتری ہے۔ اگر اکثر یت والے
علاقوں میں الگ مسلم ملک بن بھی جائے تو باقی مسلمانوں کے لئے مسئلہ بنے گا
۔اسلئے بڑے بڑے علماء کرام سمیت سیاسی اکا برین بھی کانگر یس کو سپورٹ کر
رہے تھے بلکہ مو جودہ پا کستان میں بھی بہت سے سیاسی رہنما پا کستان کے حق
میں نہیں تھے لیکن جب پا کستان بن گیا تو سب کے سب پا کستان کی تعمیر و تر
قی شانہ بشانہ شامل ہو گئے ۔اس وقت جس طرح سیاسی لو گوں میں اختلاف رائے
موجود تھا اُسی طر ح اخبارات میں بھی گروپنگ ہوئی تھی کچھ مسلم اخبارات پا
کستان کے حق میں تھے جبکہ بعض اخبارات ہندوستان کی تقسیم کے مخالف تھے کہ
چھو ٹے حصہ کو الگ نہیں ہونا چاہیے۔ بہر کیف تقسیم ہو گئی ‘اکثر یت
مسلمانوں کی ہندوستان میں رہ گئی جبکہ پاکستان کے علاقوں میں رہنے والے کم
تعداد کے لئے الگ ملک پا کستان بن گیا جو کہ ایک نظر یہ پر بنا کہ یہاں پر
اسلامی نظام حکومت ہو گی‘ تمام لو گوں کو برابر کا حق حاصل ہو گا ۔ قائد
اعظم نے کہا تھا کہ اس ملک میں سب برابر ہوں گے ۔ اقلیتوں کے لئے بھی حقوق
متعارف کرائے گئے کہ یہ لو گ بھی اتنے ہی پا کستانی ہے جس طر ح کسی اور کو
حقو ق حاصل ہے ۔ اختلاف رائے اس وقت بھی موجود تھاآج بھی مو جود ہے بلکہ
دنیا کی تاریخ میں اختلاف رائے موجودہے اور آئند ہ بھی موجود رہے گا ۔ جن
معاشروں اور ملکوں میں اختلاف نہیں ہوتا وہ ملک اور معاشرے تباہ ہو جاتے
ہیں ۔ دنیا کی تاریخ میں ان ممالک نے تر قی کی جہاں پراختلاف رائے موجود ہو
تا ہے ۔ جمہوریت کو دنیا میں اس لیے پسند کیا جا تا ہے کہ جمہوریت میں
اختلاف رائے ہو تا ہے ۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں پر جمہوریت کا نام تو
لیا جا تا ہے لیکن جمہوریت برائے نام ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بہت کم سیاسی
پارٹیوں میں جمہوری فیصلے اور اختلاف رائے کی جاتی ہے ۔ پا کستان کی بڑی
سیاسی جماعتوں میں بھی ورکر اپنی پارٹی قائد سے اختلاف نہیں کر سکتا جو
اختلاف کرتاہے ان کی پارٹی میں جگہ نہیں ہوتی ۔دوسری بدقسمتی یہ ہے کہ
35سال آمر یت کے زیر اثر رہنے والے ملک میں جب جمہوری حکومتی آتی ہے تو صدر
وزیراعظم آمر بننے کی کوشش کر تا ہے‘ تمام فیصلے خود ہی کر تا ہے‘۔اختلاف
رائے تو ہو تی ہی نہیں لیکن اگر بعض اوقات اختلاف ہو بھی جا ئے تو اس کو
اہمیت نہیں دی جاتی ہے ۔ جبکہ آمر پر ویز مشرف ہو یا ضیاء الحق اور ایوب
خان سب نے جمہوری پسند لیڈر بننے کی کوشش کی جس کی وجہ سے بھی کافی مسائل
پیدا ہو ئے ہیں ۔ اسی طر ح اگر دیکھاجائے تو زندگی کے مختلف ایشوز اور
مسائل پر اختلاف رائے مو جود ہے لیکن آج جہاں پر سائنس و ٹیکنالوجی نے دنیا
کا نقشہ ہی تبد یل کر دیا ہے‘ ہم ایک دوسر کی بات سننے کے لئے تیا ر ہی
نہیں ۔ پا کستان میں گزشتہ 15سالوں میں بالعموم اور نائن الیون کے بعد سات
اٹھ سالوں میں بالخصوص ‘میڈ یا کی آزادی اور وکلاء تحر یک نے بہت سے چیزوں
کو تبدیل کر دیا ہے( جس کو ہم ماننے کیلئے تیار ہی نہیں) آزادی صحافت کا
نعرہ تو لگا یا جا تا ہے اور اختلاف رائے کی بات بھی کی جاتی ہے لیکن حقیقت
یہ ہے کہ بہت سے ایشوز پر آج بھی نہ میڈ یا میں بات کی جاسکتی ہے اور نہ ہی
علماء کرام ایک دوسر ے کو سنتے ہیں ۔ غدار ،کافر، یہودیوں، امر یکی اور
انڈیا کا ایجنٹ کا لیبل ہمارے جیبوں میں 24گھنٹے پڑا ہو تا ہے ۔ ہم آج تک
ایک دوسر ے کے محب وطن ہونے پر شک کر رہے ہیں ۔ ایک طرف کو ئی واقع پیش آئے
تو دیکھایہ جاتا ہے کہ اس کا تعلق کس فرقے ،مسلک اور گروہ سے ہیں ۔اس کے
بعد دیکھا جا تا ہے کہ اس کا نظر یہ رائٹ کا ہے یا لفٹ کا ۔ اگر آپ رائٹ کی
بات کر یں تو لفٹ کی ہمدری آپ کھو جا ئیں گے‘ اگر آپ لفٹ کی بات کر تے ہیں
تو رائٹ والے آپ کو نفر ت سے دیکھیں گے۔ہم اسلام کی بات تو کر تے ہیں لیکن
عمل اسلام پر بالکل نہیں کر تے ،اسلام کی تو بنیادی تعلیمات یہ ہے کہ سچ
بات کیا کرو اور جھوٹ سے بچو لیکن آج ہم کیا کیا کر ر ہے ہیں۔ اسلام میں
اختلاف رائے کی بہت گنجائش ہے لیکن چونکہ اختلاف رائے ہمیں سوٹ نہیں کر تی
اس لئے وہاں پر ہم خاموش ہو جاتے ہیں ۔ صحافت کے میدان میں بھی اختلاف رائے
موجود ہو تاہے لیکن بد قسمتی سے ہم ایک دوسرے کو سننا گوار اہی نہیں کر تے
۔ جو لوگ اختلاف کی بات کر تے ہیں ہم ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کر تے
ہیں۔ جب تک ہم ایک دوسر ے کی بات نہیں سننے گے اس وقت تک ہمارے مسائل میں
اضافہ ہوتا رہے گا ۔ پاکستان کو اگر تر قی یافتہ ملک بنانا ہے تو کھل کر
ایک دوسرے کی بات سنی چاہیے ۔ ڈائیلاگ اور ڈیبیٹ کرنے سے ہی معاشر ے آگے
بڑھتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں اس طرف توجہ نہیں دی جاتی بلکہ
کالج یو نیورسٹیزاور مدارس بھی اس سے خالی ہے‘ ہمیں اس جانب توجہ دینے کی
اشد ضرورت ہے ۔ |