ایک ایسے وقت میں جب مقبوضہ
کشمیر میں الیکشن کے نام پر آپریشن ہو رہا ہے۔کشمیری مسلمانوں پر مظالم کے
پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ،حریت رہنماؤں کو گرفتار و نظر بند کیا گیا
ہے۔پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف نے یوم شہداء کے موقع پر منعقدہ تقریب سے
اپنے خطاب میں کہا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور جنوب ایشیائی خطے
میں مستقل قیام امن کے لئے تنازعہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہشات کے عین
مطابق اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنا
ناگزیر ہے، جنرل راحیل شریف نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور کہا
کہ اس دیرینہ تنازعہ کے بغیر خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے، یہ پہلا
موقعہ ہے کہ پاکستانی فوج کا سربراہ بننے کے بعد جنرل راحیل نے کشمیر کے
بارے میں شہ رگ کا لفظ استعمال کیا ہو، اس ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ کشمیر
پاکستان کی شہ رگ اور بین الاقوامی سطح پر ایک تسلیم شدہ تنازعہ ہے، کشمیری
عوام کی بیش بہا قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، انہوں نے واضح کرتے ہوئے
کہا کہ افواج پاکستان امن کی خواہاں ہیں لیکن کسی بھی قسم کی جارحیت کا
جواب دینے کے لئے ہمہ وقت تیار بھی ہیں، کسی کو بھی افواج پاکستان کی
صلاحیتیوں پر کوئی شک نہیں ہونا چاہئے، فوج قوم کی امیدوں پر کھرا اترے گی،
جنرل راحیل شریف نے بتایا کہ ہماری فوج امن کے ساتھ محبت رکھتی ہے لیکن کسی
نے جارحیت سے کام کیا تو منہ توڑ جواب دیا جائے گا کیونکہ پاکستان کی
سلامتی فوج کے لئے سب سے عزیز ہے۔ کشمیر ایشوپاکستان کا اہم اور بنیادی
مسئلہ ہے۔اس کو حل کیے بغیر بھارت سے تجارت اور دوستانہ تعلقات کی باتیں
کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔آرمی چیف نے کشمیر کوپاکستان کی شہ
رگ قرار دینے کے موقف کااعادہ کرکے 18کروڑپاکستانی عوام کے جذبات کی
ترجمانی کی ہے۔بھارت نے7لاکھ فوج کے ذریعے کشمیر پرغاصبانہ قبضہ کیا
ہواہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق20ہزار کشمیری خواتین کی بے حرمتی ایک لاکھ سے
زائد افراد کی شہادت اور ہزاروں معصوم بچوں کویتیم بنادیاگیاہے اور کوئی
پرسان حال نہیں ہے۔ بھارت ہماراازلی دشمن ہے جس نے پاکستان کو نقصان
پہنچانے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔کھیل کے میدانوں سے لے کر عالمی
سطح پر سفارت کاری تک ہندوستان کی پالیسیاں پاکستان مخالف رہی ہیں۔کشمیر
ایشوکوپس پشت ڈال کر ہندوستان سے تعلقات اچھے نہیں ہوسکتے۔ بھارت میں بر سر
اقتدار جماعت کانگریس نے کشمیر کے حوالے سے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل
راحیل شریف کے بیان پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اس مؤقف کا اعادہ کیا کہ
جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ۔کانگریس لیڈران امبیکا سونی اور ترجمان
رندیپ سورج والا نے الگ الگ بیانات میں کہا کہ جموں و کشمیر کوئی متنازعہ
علاقہ نہیں بلکہ بھارت کا نا قابل تنسیخ حصہ ہے ۔دختران ملت کی سربراہ آسیہ
اندرابی ، حریت کا نفرنس جموں کشمیر کے قائد اور مسلم کا نفرنس کے چیر مین
شبیر احمد ڈار نے پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے کشمیرکے حوالہ سے
بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس لیڈر پی چدمبرم کا اس حوالہ سے
بیان حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ مو جودہ پارلیمانی انتخابات
تحریک آ زادی کیلئے ایک بڑے چلینج کی حثیےت رکھتے ہیں جس کا ادراک کر کے
ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو احسن طر یقے سے نبھانا چا ہئے۔ہم پر یہ لازم قرار
پا تا ہے کہ بھارت کی طرف سے جمہوریت کے نام پر اس غیر جمہوری اور فوجی عمل
کو حریت کا نفرنس جموں کشمیر کے پیغام الیکشن با ئیکاٹ پر پوری ایمانداری
اور خلوص سے عمل پیر اہو کر سرخروئی حاصل کر ے۔جمہوریت کی آ ڑ میں ریاست
جموں کشمیر کے لو گوں کا بنیادی حق حق آ زادی چھین لیا گیا ہے اسلئے تحریک
مزاحمت کا تقاضاہے کہ ہر فرد اپنے حصے کا حق ادا کر ے کیو نکہ شہیدوں کے
خون سے عبارت تحریک آ زادی ہم سے یہ تقاضا کر تی ہے کہ ہر اس عمل سے دور
رہے جس سے کسی بھی طور ہماری تحریک آ زادی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ۔
کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی نے جنرل راحیل شریف
کے جموں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے بارے میں تاریخی حقائق کی روشنی میں
بیان کو سراہتے ہوئے کہا کہ جنرل راحیل شریف کا بیان بروقت اور برمحل بھی
ہے اور کشمیریوں کی قربانیوں کے تقاضے کے عین مطابق بھی ہے کہ جنوب ایشیائی
خطے میں مستقل قیام امن کے لئے تنازعہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہشات کے عین
مطابق اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل ناگزیر
ہے اور کشمیر ایک بین الاقوامی سطح پر ایک تسلیم شدہ تنازعہ ہے، علی گیلانی
نے کہا پاکستان کی مضبوطی اور استحکام ہی متنازعہ ریاست جموں کشمیر کی
آزادی کی ضمانت ہے، انہوں نے پاکستانی حکمرانوں، سیاست دانوں اور عوام سے
اپیل کی کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاکستان کے استحکام کو ترجیح دیکر
اندرونی اور خارجی سطح پر پاکستان نظریاتی اور سرحدیں مضبوط بنائیں اور اہل
کشمیر کی دعائیں پاکستان کے استحکام کے لئے ہیں۔ سید علی گیلانی نے جنرل
راحیل شریف کے بیان پر کانگریس اور بی جے پی کے ردعمل کو جھوٹ کا پلندہ اور
مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کے حکمرانوں کو زیب نہیں دیتا ہے کہ
وہ ہمالیہ جتنا بڑا جھوٹ بول کر تاریخ کو جھٹلائیں اور ہندوستانی عوام کو
متنازعہ مسئلہ کے بارے میں گمراہ کریں۔ تاریخی پسِ منظر کی روشنی میں جموں
کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ تھا، نہ ہے اور نہ رہے گا۔ طاقت کی بنیاد پر
تاریخی اور زمینی حقائق کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے اور اگر بزور طاقت کسی
قوم یا ملک کو ہمیشہ کے لئے غلام بنایا جاسکتا، تو خود بھارت آج بھی
برطانیہ کا غلام ہوتا اور آج بھارت دنیا کے نقشے پر ایک ملک کی حیثیت سے
موجود نہ ہوتا۔ انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوکر یہاں دو مملکتیں (ہندوستان
اور پاکستان) وجود میں آئیں۔ تقسیم ہند کی بنیاد دو قومی نظرئیے کی بنیاد
پر وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ ریاستوں کے مستقبل کا سوال پیدا ہوگیا۔ پھر
ان کے الحاق کا اساسی اصول یہ قرار دیا گیا کہ اصول تقسیم کی روشنی میں وہ
جغرافیائی حالات اور آبادی کی نوعیت کے مناسبت سے باشندوں کی خواہش کے
مطابق کسی ایک ملک سے ملحق ہوجائیں۔ خود وائسرائے ہند لارڈ مونٹ بیٹن نے
25؍جولائی 1947کو ہندوستانی ریاستوں کی تنظیم چیمبرس آف پرنسس کو خطاب کرتے
ہوئے کہا تھا کہ یہ ریاستیں آزاد ہیں کہ دونوں مملکتوں میں سے جس کے ساتھ
چاہیں الحاق کرسکتی ہیں اور یہ بھی کہا کہ کچھ جغرافیائی مجبوریاں بھی ہیں
جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے اور رعایا کی مرضی کے خلاف بھی نہیں
جاسکتے۔ ریاستوں کے لیے ناگزیر تھا کہ وہ اصولِ تقسیم کے مطابق اپنے مستقبل
کا فیصلہ کریں اور خود ہندوستان کی حکومت نے بھی بعض ریاستوں کے معاملے میں
اسی اصول پر اصرار کیا۔ جب ریاست جوناگڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تو
ہندوستان نے یہی بات کہی کہ یہ ان اصولوں اور گائیڈ لائینز کے خلاف ہے، جن
پر تقسیم طے ہے اور اس دلیل کی بنیاد پر بھارت نے قانون اپنے ہاتھ میں لیتے
ہوئے فوج کشی کے ذریعے جوناگڑھ پر قبضہ کیا اور حیدرآباد کے سلسلے میں بھی
ہندستان نے اسی طاقت کو آزمایا۔ اصول تقسیم کی روح سے کشمیر پاکستان کا حصہ
تھا۔ جغرافیائی حقائق،80فیصد اکثریت مسلمان ہونے، دریاؤں کا رُخ، زبان،
ثقافت، نسل، معاشی تعلقات، روابط اور رشتے اور پاکستان کی سرحد پر اتصال کے
پیش نظر تمام حقائق اس بات کو ناگزیر قرار دیتے ہیں کہ ریاست جموں کشمیر کا
الحاق پاکستان سے ہو، مگر ریاست جموں کشمیر کے مہاراجہ نے بڑی عیاری کے
ساتھ مسلمانوں کو دبانے اور مٹانے کا کام شروع کردیا اور فوج اور پولیس میں
جتنے مسلمان تھے ان کو اگست 47ء میں غیر مسلح کردیا گیا اور 27؍اکتوبر 1947
کو کشمیر پر فوج کشی کرکے جبری قبضہ کیا گیا۔ جبکہ آر ایس ایس، جن سنگھ،
ہندومہاسبھا، ڈوگرہ فوج، پٹیالہ فوج، سکھ اور بھارتی فورسز نے 6؍نومبر 47ء
کو جموں کے مسلمانوں کا قتل عام کرنے کا ننگا ناچ کھیلا اور 5؍لاکھ
مسلمانوں کو شہید کردیا گیا۔ 10؍لاکھ لوگوں کو پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور
کردیا گیا اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے
لیے مسلمانوں کو قتل کرکے ایک آزاد ریاست پر قبضہ کرلیا گیا۔ دوسری طرف
پاکستان کے قبائل اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے آگئے۔ پاکستانی
قبائلوں کی کشمیر آمد کے بعد یکم جنوری 1948 کو خود بھارت کشمیر کے مسئلے
کو اقوامِ متحدہ میں لے گیا اور بالآخر پاکستان اور بھارت کے درمیان شکایات
اور جوابی شکایات کے بعد پہلی قرارداد 21؍اپریل 46ء ، دوسری 13؍اگست 48ء
اور تیسری 5؍جنوری1949کی قراردادوں میں سلامتی کونسل نے جنگ بندی اور آزاد
وغیر جانبدار استصواب کی تجاویز کو منظور کرلیا۔ جنہیں بھارت اور پاکستان
کی دونوں حکومتوں نے تسلیم کیا اور پوری دنیا اس کی گواہ رہی۔ مسئلہ کشمیر
کے حوالے سے اب تک کل ملا کر 18قراردادیں پاس کی گئیں، مگر بھارت نے جموں
کشمیر کو غاصبانہ قبضے کے ذریعے اپنا غلام بنا رکھا۔ گزشتہ 66سال سے ریاست
جموں کشمیر میں بھارت کے جبری قبضے کے خلاف جدوجہد چل رہی ہے ۔ جس قوم نے
بھارت کے پنجۂ استبداد سے نجات حاصل کرنے کے لیے 6لاکھ جانوں کا نذرانہ پیش
کیا ہو جس کی بستیاں اجاڑ دی گئی ہوں، جس کے جوانوں کو قتل کیا جارہا ہو
اور جس کے جوانوں کو جیلوں میں سڑایا جارہا ہو اور اپاہہج بنایا جارہا ہو،
جن کی خواتین کی عزتوں کو نیلام کردیا گیا ہو اس قوم کو بھارت کا اٹوٹ انگ
کہنا تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ خود بھارت کے وزیر اعظم نے
کشمیر کے دل لالچوک سرینگر میں اور بھارتی پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے
کہا ہم نے کشمیر میں استصواب رائے عامہ کرنے کا وعدہ نہ صرف کشمیری قوم،
بلکہ پاکستانی قوم اور بین الاقوامی برادری سے بھی کیا ہے۔ بھارت کو چاہیے
کہ تاریخی حقائق کو جھٹلانے کے بجائے ریاست جموں کشمیر سے فوجیں واپس بلاکر
کشمیریوں کو اپنا مستقبل طے کرنے کا موقع دیا جائے۔ |