لیجئے جناب ایک اور احتجاجی
مظاہرہ 11مئی کے دن پھر سے ہونے لگا ہے اس بار طاہر القادری کے بالمقابل
کوئی اور نہیں تبدیلی کے خواہاں عمران خان ہیں جو کہ اب الیکشن میں حصہ لے
کر طاہر القادری صاحب کی باتوں پر اب قائل ہوئے جا رہے ہیں کہ پہلے جو کچھ
بھی ہوا ہے وہ ملی بھگت سے ہوا ہے اور اب اقتدار میں آکر انکو دھاندلی اور
حقیقی تبدیلی اقتدار میں آکر نہ ہوسکنے کا ادرک ہو چلا ہے۔ بھئی ہمارے ملک
میں آوئے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے یہاں کوئی سیاست دان یا لیڈریا اعلی افسران
کسی بھی حوالے سے کسی بارے میں جواب طلبی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے
اور نہ ہی عوام کی فکر ہوتی ہے جب اپنے مفادات درست طورپرحاصل ہو نہ پائیں
تو عوام کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔دوسری طرف جوں جوں وقت گذرتا جا رہاہے
محترم ڈاکٹر طاہر القادری کی تمام تر باتیں سچ ثابت ہوتی جا رہی ہیں کہ اس
ملک میں جب تک ہر شعبے میں قانون کے مطابق عمل درآمد نہیں ہوگا حقیقی
تبدیلی رونما نہیں ہو پائے گی۔آپ لوگ اگر موجود ہ حکومت کی کارکردگی پر نظر
ڈالیں تو پتا چلے گا کہ جس عوام نے جو کچھ سوچ کر موجود ہ حکمران جماعت کو
اقتدار میں لانے کا سوچا تھا وہ بہت حد تک پورا نہیں ہو پایا ہے اور نہ ہی
اس بات کی کوئی توقع ہے کہ وہ کچھ خاص تبدیلی رونما ہو سکے گی۔ڈاکٹر طاہر
القادری کے بارے میں جو گروہ بھی بات کرتا ہے وہ بے بنیاد بات کرتا ہے
وگرنہ سب جانتے ہیں کہ وہ ’’حمام میں ننگے ‘‘ ہو چکے ہیں مگر باتوں کے شیر
عملی طور پر بالکل ناکام ہو چکے ہیں۔ڈاکٹر طاہر القادری اگر انقلاب کی بات
کرتے ہیں تو تمام تر شعبوں میں اس پر عمل درآمد کے خواہاں ہیں اور اسکی
شروعات جب تک الیکشنز سے نہیں ہوگا تو کچھ بھی تبدیل نہیں ہو پائے گاآپ خود
دیکھ لیں جناب کہ الیکشن میں کیا کچھ ہوا تھا او ر ابھی عوام کی بھلائی کس
قدر ممکن ہو پائی ہے؟جو سلسلہ کرپشن کے حوالے سے اور میرٹ کے قتل ،انصاف کی
فراہمی اور غریب مکاؤ کا ماضی کی حکومتوں نے جو مشن جاری کیا ہوا تھا وہ آج
بھی جاری و ساری ہے۔یوں سمجھ لیں کہ کام وہی ہے جو باقی کرتے رہے ہیں مگر
چہرے بدل گئے ہیں اب ہمیں نظام بدلنا ہوگا؟یہاں میں عمران خان کے چاہنے
والوں اور محترم ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے عقیدہ مندوں کو بالخصوص یہ
کہنا چاہوں گا کہ وہ تبدیلی کا ذکر تو کریں مگر ایسے اقدامات بھی ساتھ ساتھ
کریں جن سے عوام کی سوچ بھی بدلے جب تک یہ سوچ نہیں بدلے گی اسوقت تک ہمارے
ملک میں تبدیلی نہیں آئے گی آپ بھلے کتنے ہی احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دے
دیں ؟جب تک عوام تبدیل ہونے پر آمادہ نہیں ہوگی اسوقت تک پاکستان میں
انقلابی تبدیلیاں رونما نہیں ہو سکتی ہیں۔
ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ حکومت عوام کی خادم ہے مگرآج مجھے لگتاہے کہ
پاکستان میں عوام حکومت کی خادم ہے خود ہی دیکھ لیجئے کہ عوام اپنی روزمرہ
کی اشیاء پر کس قدر رقوم خرچ کر کے اپنے اُوپر حکومت کرنے والے ناعاقبت
اندیش لیڈران کی عیاشی کا سامان پیدا کرتی ہے۔ جاگیر دارحکمران طبقہ آرام و
آسائش میں زندگی گزار رہے ہیں وہیں عوام ظلم وستم اور غربت کی چکی میں پس
رہے ہیں ۔آج عوام کا کوئی مخلص ہمدرد نظر نہیں آتا ہے۔ عوام پر طرح طرح کے
جرمانے(Taxes)لگا کر حکمران طبقہ اپنے خزانے کو بھر رہے ہیں اپنے مفاد ات
کی خاطر ملک او عوا م کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ اب تک پتا نہیں کتنے لوگ
غیروں کے ہاتھوں بیچ کر دولت کمائی جاچکی ہے ۔کتنے ہی بے گناہ افراد روزانہ
ڈرون حملوں میں مارے جاتے ہیں، کتنے ہی خودکش حملوں کی نظر ہو جاتے ہیں
،کتنے ہی غربت کی وجہ سے اپنی اوراپنے بچوں کی جان لینے پر مجبور ہو جاتے
ہیں۔جن کی کھیلنے کی عمر ہوتی ہے وہ کھلونوں ،کتابوں کی بجائے روٹی کے
متلاشی ہوتے ہیں عوام کو کوئی بھی تو پوچھنے والا نہیں ہے ۔ بچاری عوام
جائے تو جائے کہاں روز بروز بڑھتی مہنگائی نے ان کا جینا دوبھر کر رکھا
ہے۔جب حکمران عوام کے سامنے آتے بھی ہیں تو وہ انکے جذبات سے بے خبراپنے
سہانے خوابوں میں مگن رہتے ہیں اگر یہ ایک دن غریب عوام کے گھر کی حالت
دیکھ لیں تو ان کی ساری خوشی کافور ہو جائے۔عوام سے بھر ے جلسے جلوسوں میں
یہی عوام انکے حق میں نعرے لگاتی ہے مگر بدلے میں انکو کچھ نہیں ملتاہے ۔
عوام سے کروڑوں اربوں روپے کاٹیکس حاصل کرکے اپنے بنکوں کو بھرتے ہیں اور
عوام بچاری غربت میں مرتی ہے۔اور وہ بھی اُس جمہوری حکومت کے دور حکومت میں
جو غریبوں کی ہمدرد کہلواتی ہے اور اسی وجہ سے غریب عوام مکاؤ پروگرام پر
عمل پیرا ہے تاکہ نہ رہیں غریب ،نہ رہے غربت واہ کیاانصاف ہے؟
ڈاکٹر طاہر القادری کے انقلابی مشن کا ہم سب کو ساتھ دینا ہوگا تاکہ ہمیں
بہت سے مسائل جو آ ج پاکستان کودرپیش ہیں ان سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ مل
سکے جب تک ایسا نہیں ہوگا ہم ایک نیا پاکستان نہیں بنا پائیں گے؟ہمارے ملک
میں بچاری عوام روزی روٹی کی فکر ہی میں پڑی ہوئی ہے جبکہ تیونس اور مصر کی
عوام کسی قدر خواب غفلت سے جاگ اٹھی ہیں ۔کیا یہ بات اہم نہیں ہے کہ ملک کی
سربراہت کو اپنی جاگیر سمجھنے والے لیڈران کو نا چاہتے ہوئے بھی اقتدار او
رملک چھوڑنا پڑا ہے۔ حسنی مبارک صاحب نے اپنے طو ر سے تو بہت زور لگا یا کہ
میٹھی گولی دے کر جیسے ہمارے پاکستان میں لیڈران ووٹ کے حصول کے لئے جھوٹے
وعدہ کرکے اقتدار میں آتے ہیں ویسے ہی وہ اپنے اقتدار کو طول دے سکیں
مگرعوام نے بس ایک ہی مطالبہ رکھا جناب آپ کی رخصتی سے کم کسی بات پرکوئی
سمجھوتہ نہ ہوگا۔ جیسے ہمارے حکمران اپنے مفادات کی خاطر سپرپاور مملکت سے
اپنے اقتدار کی طوالت اور مالی مفاد مانگتے ہیں کہ بدلے میں بیٹیاں
اوربیٹوں کی جانوں کا نذرانہ بمعہ تمام تر شرائط کو مان لیں گے جو بھی آپ
پسند کریں ۔لیکن مصری عوام میں شعور اجاگر ہو چکا تھا لہذا وہ ہوا جو بہت
کم دیکھنے میں آتا ہے مصر کی عوام نے تو باقی مسلمان ممالک کے لئے ایک مثال
قائم کر دی ہے کہ اگر سب متحد ہوجائیں تو کسی بھی فرعون سے چھٹکارہ پانا
کوئی مشکل کام نہیں ہے بس بات صبر اور حوصلے سے حالات کا مقابلہ کرنے کی ہے
۔
اب یہ دیکھنا ہوگا کہ عمران خان اور طاہر القادری صاحب 11مئی کو کیا حکمت
عملی ظاہر کرتے ہیں اگر طاہر القادری دوہری شہریت کا اعتراض کرنے والوں کو
اس دن اپنی دوہری شہریت ختم کرنے کا اعلان کر کے پاکستان میں رہ کر حقیقی
تبدیلی کے انقلاب کا اعلان کر دیں گے تو یقینا آنے والے دنوں میں خوب سیاسی
میدان سجے گا اور حالات کا دھار بھی تبدیلی کی طرف جائیگا ۔اب دیکھنا یہ ہے
کہ 11مئی کو پردہ اسکرین پر کیا ظہور ہوتا ہے ؟اب پاکستان میں بسنے والی
عوام کو بھی چاہیے کہ اپنے حقوق کے حصول کی خاطر عملی قدم اُٹھائے ،جب تک
وہ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند نہیں کریں گے اس وقت تک کچھ تبدیل نہ ہوگا
وگرنہ وہ اسی طرح سے اپنی باقی ماندہ زندگی بھی گذار لے گی کہ وقت کب کسی
کیلئے رک پاتاہے۔ویسے بھی خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرنا چاہتے
ہیں اور اگر کسی قوم کو اپنی حالتے بدلنے کا خیال نہیں آئے گاتو انکی حالت
زار کسی طور بہتر نہیں ہو پائے گی تو قانون فطرت ہے۔ |