جمہوریت پسندی۔ہاتھی کے دانت

پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی یومِ شہدا پر جی ایچ کیو سے کی جانے والی تقریر کانوں میں رس گھولتی رہی۔ تمام باتیں انتہائی مثبت اور حوصلہ کن تھیں۔ ریاست کے باغیوں سے لے کر آئین کی بالا دستی، جمہوریت کی تقویت سے لے کر قومی ترقی و فلاح میں افواجِ پاکستان کے کردار، دہشت گردی کے خلاف عوام اور میڈیا کی قربانیوں سے لے کر سیکیورٹی اداروں کی قربانیوں تک کا اچھے الفاظ میں ذکر کیا گیا!

اہم ترین بات جو ہر جمہوریت پسند شخص فوج کے سر براہ کی زباں سے سننا چاہتا ہے وہ جمہوریت کا فروغ اور اداروں کی مضبوطی ہے۔حالانکہ وقت کے جھروکے سے ماضی پر نظر دوڑائیں تو یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں کے ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور!

پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کی جمہوریت پسندی کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ تقسیم ہند کے موقع پر پنجاب باؤنڈری فورس میں خدمات سرانجام دینے کے بعد جب سیاستدانوں نے اس فورس کی ناکامی کو آڑے ہاتھوں لیا تو سیاستدانوں سے بدظن ہو گئے اور دل و دماغ میں یہ مفروضہ قائم کر لیا کہ پاکستان کی باگ ڈور صرف ایک منظم فوج ہی کے ہاتھ میں ہونی چاہیے! پارلیمانی جمہوری نظام کو ناکام قرار دیتے ہوئے فوجی انقلاب کے اگلے ہی سال Basic Democratic System یا بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کروا دیا۔ حالانکہ یہ اس انگریز دور ہی کے نظام کی دوسری شکل تھی جس کے تحت انگریز سرکار غیر الحاق شدہ ریاستوں پر سیاسی گرفت قائم رکھتی تھی۔ پھر اسی نظام پر سوار ہو کر 1960 میں صدارت کی توثق کی، 1962 کے انتخابات منعقد کروائے اور مادرِ ملت کے خلاف 1965 کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔اپنی انگریز یافتہ بنیادی جمہوریتی نظام کی ہر ممکن تشہیر اور اسے صریحاٌرائج کرنے کے باوجود نہ یہ عوام میں پذیرائی حاصل کر سکی اور نہ ہی عوام کے بنیادی مسائل کا خاتمہ کرنے میں کامیاب رہی! یوں 1969 میں ایوب خان کے استعفی کے ساتھ ہی بنیادی جمہوریتوں کا یہ نظام بھی قصہ پارینا بن گیا۔

جنرل یحی خان کی جمہوریت پسندی کا قصہ یہ ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی فراہم کردہ معلومات اور قیاس کی بنیاد پر یہ یقین کر لیا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت 1970 کے انتخابات میں واضح اکثریت نہیں لے پائے گی اور یوں وفاق مشرقی پاکستان کو کنٹرول کرتا رہے گا۔ اسی بھروسے صدر صاحب جمہوری انتخابات منعقد کرا بیٹھے۔ انتخابی نتائج انٹیلی جنس کی تمام تر معلومات اور قیاس کی گردن توڑتے ہوئے الٹے پڑ گئے ! مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے 162 نشستوں میں سے 160 سیٹیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کی اور اِدھر مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 138 نشستوں میں 81 سیٹیں جیت کر اکثریت حاصل کی۔ اس طرح مرکز میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ حکومت سازی کا آئینی حق حاصل تو کر گئی پر جمہوریت پسند فوجی صدر حسبِ منشاء انتخابی نتائج برآمد نہ ہونے پرجمہوریت پسندی کو بالائے طاق رکھ کر مشرقی پاکستان پر فوج کشی پر مائل ہو گئے۔ پھر جو ہوا وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے!!!

جنرل ضیاء الحق مرحوم کیوں کہ خالصتاٌ مشرقی مرد اور بنیاد پرست و رجعت پسند شخصیت تھے تو مغرب کے طرزِ عمل اور جمہوریت دونوں ہی سے نفرت تھی۔ 1976 کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے ملکی و سیاسی حالات کا بگاڑ محض اقتدار پر قابض ہونے کا بہانہ تھا۔ اقتدار کے حصول کا بنیادی مقصد پاکستان کی ریاست کو اپنے نظریہ کے عین مطابق صحیح اسلامی خطوط پر استوار کرنا تھا۔ کیونکہ عزت مآب اسلامآئزیشن کی آڑ میں اقتدار کو طول دینے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے تو جمہوریت میں بھی اسلامی طرز طبیعت کو لبھاتا تھا۔ آپریشن فئیر پلے کے تئیں منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر براجمان ہوئے اور نوے دنوں میں جمہوری انتخابات منعقد کرانے کا وعدہ بھی کیا پھر اقتدار کا چسکا ایسا لگا کہ اگلے آٹھ سال بھی انتخابات منعقد نہ ہو سکے ہاں البتہ دسمبر 1984 میں اسلامی جمہوریت کی توپ سے ایک عدد ریفرنڈم ضرور داغا تھا اور عوام الناس کی مسلم نفسیات سے کھیلتے ہوئے وطنِ عزیز میں اسلامی قوانین و نظریہ نافذ کرنے کے نام پرکثیر تعداد میں ووٹ اکھٹے کر کے اقتدار میں پانچ سال کی توسیع بھی کی تھی جس کے بعد عالمی دباؤ کے تحت بالآخر 1985 میں انتخابات کرائے بھی توغیر جماعتی بنیادوں پر۔ اﷲ تبارک و تعالی کی رضا نہ ہوتی تو شاید آج بھی موصوف کی ریکارڈ توڑ حکومت جاری و ساری ہوتی اور پاکستان بالکل صحیح اسلامی مملکت کے روپ میں ڈھل چکا ہوتا ۔ پر جو اس ذاتِ پاک کی مرضی۔

جنرل (ر) پرویز مشرف بھی اپنے آپ کو جمہوریت پسند گردانتے تھے اور’ سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگا کر نو سال حکومت کے مزے لوٹتے رہے۔ان کے نزدیک بھی سیاستدان چور اچکے اور بے ایمان تھے۔ ان کے دورِ حکومت میں بھی جمہوری انتخابات کرائے گئے اور جمہوری حکومت کا قیام بھی عمل میں آیا۔یہ اتنی جمہوری حکومت اور پارلیمنٹ تھی کہ باوردی جنرل کو بار بار آئینی صدر منتخب کرنے پرادھار کھائے بیٹھی تھی۔ جمہوریت کا ایسا عالم تھا کہ مکے لہرا لہرا کر قومی اداروں اور آئینِ پاکستان کی تذلیل کی جاتی تھی۔ طاقت کا اصل سر چشمہ با وردی صدر اور مشیران حواری ایک خاص گروہ تھا۔

ایوب خان اور یحی خان کے دور میں جمہوریت کے چمپئین دو سیاستدان ابھر کر سامنے آئے! شیخ مجیب اور ذولفقار علی بھٹو۔ دونوں حضرات پاکستان ٹوٹنے کے بعد اپنے اپنے حصے کی زمیں پر جمہوری سیاسی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ پھر انہی دونوں حضرات پر طاقت کا بھوت ایسا چڑھا کہ دونوں ہی جمہوری رویوں کو بھول بھال کر سول ڈکٹیٹر شپ کی بنیاد ڈالنے کے مرتکب ہوئے۔

مندرجہ بالا تمام حضرات پاکستان سے محبت کا دعوی بھی کرتے رہے اور جمہوریت پسند بھی تھے۔ پر جمہوریت کی تشریح ہر ایک کی اپنی اپنی ہی رہی بالخصوص فوجی ڈکٹیٹروں کی۔ جمہوریت کی تشریح الگ الگ کرنے کا مقصد اقتدار و وسائل پر قابض رہنا ، عوامی جذبات سے کھیل کر اقتدار کے مزے اٹھانا اور پاکستان کو اپنی سوچ کے مطابق استوار کرنا تھا۔ وگرنہ جمہوریت کو سمجھنا اور رائج کرنا راکٹ سائنس ہر گز نہیں ہے۔ جمہوری نظام تمام دنیا میں رائج ہیں اور کامیابی سے چل بھی رہے ہیں! جمہوریت انتخابات کرانے، انتخابات کی بنیاد پر برسراقتدار آنے، وسائل پر قابض ہونے، وسائل کی بندر بانٹ اور نوازنے کا نام نہیں! جمہوریت ایک رویہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ درجہ بہ درجہ قوم کی نفسیات کا حصہ بنتا ہے۔ ریاستی مشیزی، اداروں اور عوام کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کام کرنے پر اکساتا ہے۔ قانون و ریاست کی بالا دستی قائم کرتا ہے۔ حکمران طبقہ کو عوام و ریاست کے بہترین مفاد میں قوانین وضع کرنے اور فیصلے کرنے کا حق فراہم کرتا ہے۔

پاکستان حقیقی جمہوریت سے فی الحال یقینا کوسوں دور ہے! لیکن اپنے قیام کے بعد سے اب تک کی مختصر سی تاریخ میں جو نشیب و فراز، ڈکٹیٹر شپ،انواع اقسام کی جمہوریتں اور جو جو تجربات بھگت چکا ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تسلسل سے چلتا ہوا سیدھا سادہ جمہوری نظام جس میں عوام کی براہ راست شراکت داری اور حکومت و اداروں کی جواب دہی کا طریقہ کار ہو ہی میں پاکستان کا بہتر مستقبل پنہا ہے۔
Jahid Ahmad
About the Author: Jahid Ahmad Read More Articles by Jahid Ahmad: 19 Articles with 12863 views Columnist for Roznama "Din"... View More