وزارت مذہبی امور کے باوثوق ذرائع کے مطابق چند روز قبل
امریکی صدر بارک اوباما کے خصوصی ایلچی اور اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی
سی کے لیے نمایندہ ارشاد حسین نے 4 رکنی وفد کے ہمراہ وفاقی وزیر مذہبی
امور سردار یوسف سے ملاقات میں قادیانیوں کی تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھنے کی
کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتی برادری خصوصاً قادیانیوں کے ساتھ
پاکستان میں اچھا برتاﺅ نہیں ہورہا، جس پر امریکا کو تشویش ہے اور ہم
مطالبہ کرتے ہیں کہ قادیانیوں کو تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی
جائے اور ان پر عاید قدغن ختم کی جائے، جس پر وفاقی وزیر سردار محمد یوسف
نے اوباما کے خصوصی نمایندہ کو کہا کہ ملک میں تمام اقلیتی برادری کو تحفظ
حاصل ہے اور حکومت اقلیتی برادری کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھارہی
ہے۔ قادیانیت سمیت تمام مذاہب کے لیے قانون وضع ہے اور اس کے مطابق ہی سب
سے پیش آیا جاتا ہے، جبکہ اقلیتی برادری کے عدم تحفظ کے حوالے سے محض
پروپیگنڈا کیا جارہا ہے جس پر مزید کوئی وضاحت نہیں دی جاسکتی۔ دہشت گردی
سے صرف اقلیتی برادری نہیں، بلکہ مسلم اکثریت بھی اس کا شکار اقلیتوں سے
زیادہ ہوئی ہے۔ذرائع کے مطابق امریکی صدر کے نمایندہ خصوصی کی وفاقی وزیر
سے ملاقات کابڑا مقصد قادیانیوں کو پاکستان میں مذہبی آزادی دلانے کے لیے
دباﺅ ڈالنا تھا۔عابد محمود عزام نے اسی حوالے سے ملک کی بڑی مذہبی و سیاسی
جماعتوں کے رہنماﺅں سے مختصر گفتگو کی، جو نذرقارئین ہے
مرکزی رہنما مجلس تحفظ ختم نبوت مولانا اللہ وسایا
امریکا کی جانب سے قادیانیوں کی تبلیغی آزادی کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے
مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنما مولانا اللہ وسایاکہا کہ ہماری پارلیمنٹ
کا فیصلہ ہے کہ کسی ملک کی پارلیمنٹ کے فیصلے کونظر انداز کرکے اس ملک میں
مداخلت کرنا کسی طور ٹھیک نہیں ہے۔ امریکا کی کوشش رہی ہے کہ وہ پاکستان
میں قادیانیوں کے حوالے سے بنے ہوئے قانون کو ختم کرائے، یہ قانون جمہوری
جدوجہد کے نتیجہ میں بناتھا۔ قادیانیوں کے متعلق جتنے بھی قوانین ہیں، رہتی
دنیا تک کوئی مائی کا لعل انہیں منسوخ نہیں کرسکتا۔ انشاءاللہ۔ قادیانی
امریکا کی لابی ہیں اور امریکا ہر اس لابی کی سپورٹ کرتا ہے جو مسلمانوں
اور اسلام کے مخالف ہو، قادیانی اسلام دشمنی اور مسلمان دشمنی میں صف اول
میں ہیں، اس لیے امریکا ان کو تھپکی دیتا ہے اور ان کو مکمل تعاون فراہم
کرتا ہے۔
امریکا کا یہ کہنا کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں، سراسر غلط ہے۔
پاکستان میں قادیانیوں کی عبادت گاہیں محفوظ ہیں، پاکستان میں قادیانیوں کے
بڑے بڑے کاروبار ہیں، یہ لوگ پاکستان میں گورنمنٹ کے محکموں کے اندر بڑے
بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔یہ مطالبہ پاکستان کے حالات کو خراب کرنے کی کوشش
اور بہانہ ہے۔ پاکستان میں ہندو، عیسائی، سکھ اور دوسرے کئی مذاہب کے لوگ
بستے ہیں، سب محفوظ ہیں۔ حالاں کہ بھارت میں عیسائیوں کو قتل کیا گیا، ان
کی عبادت گاہوں کو جلایا گیا، مسلمانوں کا بھارت میں قتل عام جاری ہے۔
امریکا اس ظلم کے خلاف آواز کیوں بلند نہیں کرتا۔ صرف پاکستان میں
قادیانیوں کی بات ہی کیوں کرتا ہے، حالاں کہ ہماری حکومت امریکا کے الزامات
کو مسترد کرچکے ہیں۔ امریکا کا ایسا مطالبہ کرنا پاکستان کے اندرونی
معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔ ہماری پارلیمنٹ کے فیصلے کو نظر انداز کرنا
کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔حالانکہ قادیانی خود پاکستان کے قانون کی خلاف
ورزی کرتے ہیں۔ انہوں نے خود کو مسلمانوں سے علیحدہ کیا، یہ مسلمانوں کا
جنازہ نہیں پڑھتے۔ انہوں نے پاکستان کے بانی قائداعظم کا جنازہ نہیں پڑھا،
جب ان کا سب کچھ مسلمانوں سے علیحدہ ہے، تو اب ان کا مسلمانوں سے کیا تعلق
رہا، قادیانی قادیانیت کو قادیانیت کے نام پر پیش کریں اسلام کے نام پر پیش
نہ کریں، اس سے اسلام کا تشخص برباد ہوتا ہے، اگر کوئی آدمی اسلام کے نام
پر یہودیت کو پھیلائے گا اور عیسائیت کو پھیلائے گا تو اس سے اسلام کا تشخص
برباد ہوگا، مسلمان اس کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
مولاناگل نصیب خان مرکزی نائب امیر جمعیت علمائے اسلام(ف)
جمعیت علمائے اسلام کے نائب امیر مولانا گل نصیب خان کاپاکستان میں
قادیانیوں کو تبلیغی سرگرمیوں کی اجازت کے امریکی مطالبے کے تناظر میں کہنا
تھا کہ اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ قادیانی ملک کے آئین اور قانون
کے مطابق غیر مسلم ہیں۔ اس حوالے سے ریاستی موقف بھی واضح ہے اور جے یو آئی
سمیت تمام مذیبی و سیاسی جماعتوں کا موقف بھی واضح ہے۔ جب یہ واضح ہے کہ
قادیانی غیر مسلم ہیں تو پھر انہیں یہاں تبلیغ کی اجازت کیوں دی جائے؟
تبلیغ کی اجازت دینے کا مطلب تو ملک میں کفر کی تبلیغ کی اجازت دینا ہے، وہ
کسی طور پر قبول نہیں ہے۔ امریکا ایسے مطالبات کرکے اسلامی ممالک اور
خصوصاً پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے۔ امن اسی میں ہے کہ امریکا
اپنی گھناونی سرگرمیوں سے باز رہے، امریکا کی وجہ سے ہی ہمارا ملک بدامنی
کا گہوارا بنا ہوا ہے۔ اگر امریکا کو زیادہ ہی شوق ہے تو وہ قادیانیوں کو
پاکستان سے امریکا لے جائے، وہا ں ان کو اپنی مرضی سے کھلی آزادی دینا چاہے
تو دے، لیکن اپنے ملک میںہم ایسے مطالبے بالکل برداشت نہیں کریں گے۔ ہم
ایسے مطالبات کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔ قادیانی امریکا اور برطانیہ کے ٹاؤٹ
ہیں، اس لیے امریکا ان کے ذریعے ہمارے ملک میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے،
امریکا ہمارا دشمن ہے، اس لیے وہ کبھی بھی ہمیں امن و سکون میں نہیں دیکھنا
چاہے گا۔ امریکا وقتاً فوقتاً اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان کے خلاف سازشوں
کے جال بنتا ہے، مقصد صرف اسلامی ممالک کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔
جے یو آئی کے رہنما مولانا گل نصیب کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کا یہ کہنا
سراسر غلط ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو تحفظ نہیں ہے۔ پاکستان میں تمام
اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے، قیام پاکستان کے وقت سے ہی اقلیتیں یہاں رہ
رہی ہیں۔ مسلمان کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ ہیں،
بلکہ وہ تو عام مسلمانوں سے بھی زیادہ محفوظ ہیں۔حالانکہ امریکا میں مسلمان
غیر محفوظ ہیں، ساری دنیا میں مسلمان غیر محفوظ ہیں۔ ان کے لیے امریکا آواز
کیوں نہیں اٹھاتا؟ وہ صرف قادیانیوں کی بات کیوں کرتا ہے؟ یہ امریکا کی
سراسر اسلام دشمنی ہے۔ ہم ریاستی اداروں سے مطالبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
امریکا کا ایسے مطالبات کرنا سراسر پاکستان کے آئین اور قانون کی خلاف ورزی
اورہمارے ملک کے اندرونی معاملات میں کھل کھلا مداخلت ہے۔ ریاستی اداروں کو
چاہیے کہ امریکا کے ایسے مطالبات کا سختی سے نوٹس لیں اور ان کو خبردار
کریں کہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔
سربراہ اہل سنت والجماعت مولانا احمد لدھیانوی
اہل سنت والجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی نے کہا ہے کہ قادیانیوں
کے حوالے سے پاکستان کی پارلیمنٹ فیصلہ کرچکی ہے کہ قادیانی اور ان کے
پیروکار دائرہ اسلام سے خارج ہیں، ضیاءدور میں آرڈیننس جاری ہوا تھا، اس
آرڈیننس کی روشنی میں قادیانیوں کو اسلامی شعار استعمال کرنے کی اجازت نہیں
ہے، لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قادیانیوں نے ابھی تک پاکستان کی پارلیمنٹ
کے فیصلے کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ جب وہ پارلیمنٹ کے فیصلے کو تسلیم نہیں
کرتے تو جو ان کے حق میں بات کرنے والے ہیں، وہ بھی پاکستانی پارلیمنٹ کا
مذاق اڑانا چاہتے ہیں۔ ناموس رسالت اور ختم نبوت کا عنوان بڑا حساس ہے، اس
عنوان پر پاکستان میںمتعدد تحریکیں چل چکی ہیں۔ 1953ءاور1973ءمیں بڑی
تحریکیں چل چکی ہیں، ان تحریکوں میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان اپنی جانوں
کے نذرانے دے کر جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ یہ بڑا حساس معاملہ ہے۔سردار
یوسف صاحب اور پیر امین الحسنات صاحب کو میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ
انہوں نے جرات مندانہ موقف اختیار کرتے ہوئے امریکی وفد کو جواب دیا۔
مولانا احمد لدھیانوی نے مزید کہا کہ امریکا دنیا کا سب سے بڑا بدمعاش ہے،
امریکا مسلمانوں کا بڑا دشمن ہے۔ اسلام کا دشمن ہے۔ مسلمانوں اور اسلام کے
خلاف سازشیں کرنا امریکا کا وطیرہ ہے، جبکہ قادیانی امریکا کے ٹاو ¿ٹ بھی
مسلمانوں اور اسلام کے دشمن ہیں، تو امریکا مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے
لیے قادیانیوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ مسلمانوں اور اسلام کو نقصان پہنچانا
اس کا مقصد ہے، لیکن امریکا کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمان ہر چیز برداشت
کرسکتے ہیں لیکن ناموس رسالت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ مسلمان اپنی جانوں پر
کھیل کر بھی ناموس رسالت کا تحفظ کریں گے۔ امریکا اپنی سازشوں میں ناکام
ہوگا۔ ان شاءاللہ۔مولانا احمد لدھیانوی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اقلیتیں
اکثریت سے زیادہ محفوظ ہیں،حالانکہ یہاں تو کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہاں
تو ملک کا صدر،وزیراعظم محفوظ نہیں ہے۔ علماءمحفوظ نہیں ہیں،پروفیسر محفوظ
نہیں ہیں، ڈاکٹر محفوظ نہیں ہیں۔ عوام محفوظ نہیں ہے، کوئی طبقہ محفوظ نہیں
ہے۔ اس کے باوجود امریکا کا یہ کہنا کہ صرف اقلیتیں غیر محفوظ ہیں، سراسر
غلط ہے۔ حالاں کہ یہاں اقلیت اکثریت سے زیادہ محفوظ ہے۔ امریکا کا
قادیانیوں کی پشت پناہی کے لیے اسی قسم کے مطالبات کرنا ہمارے مسلک کے
معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔ جس کو ہم کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ جب
امریکا ہمیں اپنے ملک میں مداخلت کی اجازت نہیں دے سکتا تو ہمارے ملک میں
مداخلت کیوں کرتا ہے۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ اس کا سخت نوٹس لے۔
سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن
سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے قادیانیوں کی تبلیغی آزادی کے
حوالے سے امریکی مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قادیانیوں کے حوالے سے
کچھ بھی وضاحت کی گنجائش نہیں ہے، سب کچھ طے شدہ ہے۔ ملک میں اس حوالے سے
قانون بنا ہوا ہے، آئین کے مطابق وہ غیر مسلم ہیں۔ اس کے باوجود ان کو
تبلیغی سرگرمیوں کی آزادی کے کیا معنیٰ ہیں؟ ان کو مذہب کی تبلیغ کی اجازت
کسی صورت نہیں دی جاسکتی۔ ہمارا آئین اور قانون قادیانیوں کے معاملے میں
خاموش نہیں، بلکہ بالکل واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ قادیانی امریکا اور
برطانیہ کا خود کاشت پودا ہے۔ انہوں نے ہی یہ پودا یہاں پر لگایا تھا، اس
لیے وقتاً فوقتاً کبھی یورپ کی طرف سے اور کبھی امریکا کی طرف سے ان کی
آزادی کا واویلا کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ پاکستان میں قادیانیوں کو تمام حقوق
آئین اور قانون کے دائرے کے اندر ملے ہوئے ہیں، لیکن انہوں نے ملکی قانون
کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک میں پھر بھی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں، ان
کی عبادت گاہوں کو مسجد نہیں کہہ سکتے، ان کی عبادت گاہوں کو مسجد کہنا
ملکی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ وہ مسلمانوں کے شعار کو استعمال نہیں کرسکتے۔
حکومت کو امریکی مطالبے پر سے سخت ایکشن لینا چاہیے۔ ہماری حکومت کی طرف سے
امریکا کو سخت جواب ملنا چاہیے۔ سید منور حسن کا مزید کہنا تھا کہ امریکا
اسلام دشمن اور مسلمان دشمن ہے، مسلمانوں کے معاشرے میں جتنا بھی انتشار
ہوسکے، وہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ مسلمانوں کو تقسیم کیا جاسکے،
ان میں پھوٹ ڈالی جاسکے۔ مختلف حیلوں بہانوں سے امریکا اور یورپ ایسے
اقدامات کرتے رہتے ہیں جس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچے، ویسے تو مسلمانوں کو
نہ توڑا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کو شکست دی جاسکتی ہے، لیکن امریکا و یورپ
نت نئے طریقوں سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
سید منور حسن نے کہا کہ پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں، امریکی ایجنٹوں کی
کارروائیوں اور اس کی سازشوں کی بدولت کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس کے
باوجود یہاں پر اکثریت سے زیادہ اقلیتیں زیادہ محفوظ ہیں۔ ان کی بستیاں
محفوظ ہیں، ان کی عبادت گاہیں محفوظ ہیں، پوری دنیا میں مسلمان ہی ایسی قوم
ہے، جو دوسروں کے حقوق کے حوالے سے بہت زیادہ حساس ہے۔ دوسروں کے حقوق کا
احترام کرتی ہے، اپنے حقوق کو نظر انداز کرکے دوسروں کے حقوق کو پامال ہونے
سے بچاتی ہے۔حالانکہ ساری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔ بھارت
میں دیکھ لیں، مسلمان اقلیتوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔چند دنوں میں 32 مسلمان
شہید کردیے گئے ہیں اور سو سے زاید گھر جلادیے گئے ہیں اور بھارت میں وقتاً
فوقتاً مسلمانوں پر ظلم کیا جاتا ہے، امریکا اور یورپ میں بھی مسلمان اقلیت
محفوظ نہیں ہیں، ساری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے، اس طرف
امریکا کی کوئی توجہ نہیں ہے،مسلمانوں کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھاتا، ساری
دنیا میں مسلمانوں کو نظر انداز کرکے قادیانیوں کی بات کرنا جو بالکل محفوظ
ہیں، سراسر اسلام دشمنی ہے۔امریکا کے اس قسم کے مطالبات کرنا پاکستان کے
آئین اور قانون کے خلاف ہیں اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے،
جو کسی طور بھی برداشت نہیں کی جاسکتی۔ |