آسام پھر لہو لہان

الیکشن 2014کا آخری مرحلہ آتے آتے وطن عزیز کی ریاست آسام آگ و خون اوربوڈو دہشت گردوں کے ظلم وستم کی شکار ہوگئی ۔یہی نہیں بلکہ اس کے زور سے تمام ملک کا امن بھی غارت ہو گیا ۔کوکرا جھار ،چرانگ ،پرانک ،بکسا اوربوڈو دہشت پسندوں کے سرحدی علاقوں میں محض اس لیے بے دریغ مسلم گاؤں اوربستیوں میں آگ لگائی جارہی ہے کہ انھوں نے پارلیمانی انتخابات میں بوڈو امید وار کو ووٹ نہ دے کر اُس کے مخالف کو ووٹ دیا ہے ۔حالانکہ جمہوری ملک کے ہر باشندے کا یہ آئینی حق ہے کہ وہ اپنے من پسندامید وارکو ووٹ دے ،اس پر کسی کی کوئی زبردستی نہیں ہے اس کے باوجودحکومت و انتظامیہ بے بس و ناکارہ بن کر انھیں دیکھ رہی ہے ۔بلکہ درپردہ مسلمانوں کے قتل عام میں ان کی مددکررہی ہے۔اس سے بھی افسوس ناک بات یہ ہے کہ قومی میڈیا اس جانب سے بالکل لاپرواہ ہے ۔حالانکہ اب تک بوڈو انتہاپسندو ں کے حملوں میں پچاس سے زائد افراد ہلاک ،کروڑوں لاگت کی املاک،فصلیں اورکھیت برباد ہوگئے مگر اسے کوئی احساس ہی نہیں ہے اسے تو بس مودی کے انٹرویو اوربد نما چہرے کو دکھانے کی پڑی ہے جس کے لیے وہ اپنی تمام نشریات بند کردیتا ہے ۔اس کی نظر میں انسانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ کس نے اسے جمہوریت کا چوتھا ستون کہہ دیا اورکیا دیکھ کر کہا۔ حالانکہ میڈیا جمہوریت کو برباد کر نے پر تلا رہتا ہے بھلا وہ ستون اورمحافظ کیسے ہوسکتا ہے۔

واضح رہے کہ ماضی قریب میں جولائی 2012میں بھی اسی طرح بوڈوں انتہا پسندو ں نے مسلمانوں پر بنگلہ دیشی دراندازوں کاالزام لگاکر ظلم کیا تھا نیز وہ دوہرے واقعات کی چپیٹ میں آئے تھے ۔ایک طرف بھیانک سیلاب نے ان کی بستیوں کو اجاڑا تھا تو دوسری جانب علاحدہ ریاست کی تشکیل کی آڑ میں بوڈو دہشت پسندو ں نے کر فیوکے بیرکٹوں کو توڑ کر انھیں نشانہ بنایا تھا اورترون گگوئی کی حکومت مذمت و افسوس کے سواکچھ نہیں کر پائی تھی ۔اس تشدد میں سو سے زائد مسلمان ہلاک اوربے شمار زخمی ہوئے تھے ۔نیزمتعدد گاؤں اورکھیتوں کو جلایا گیا تھا۔جس کے نتیجے میں تقریباً چار لاکھ لوگوں نے پناہ گزین کیمپوں جاکر اپنی جان بچائی تھی ۔ حالانکہ اس قیامت کو آج دو برس سے زائد کا عرصہ بیت گیا مگر تیس ہزار لوگ ابھی بھی اپنے گاؤں اورعلاقوں سے باہر ہیں۔وہ کہاں جائیں نہ ان کے گھربار ہیں اورنہ ہی فریبی حکومت نے انھیں کوئی مدد دی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ بوڈوؤں کے ظلم کی تاریخ نئی ہے، بلکہ 1996اور98میں بھی انھوں نے اسی طرح آسام میں آگ و خون اورقتل و غارت گری کا بازار گر م کیا تھا۔ اس کے باوجود سمجھ میں نہیں آتا کہ عظیم تر ہندوستان میں ایسے سانپوں کو کیوں دودھ پلایا جاتا رہاہے جو مبینہ طور پر ملک کی سا لمیت و تحفظ کے لیے خطرہ بنتے رہے ہیں ۔ انھیں پابند کیوں نہیں کیا گیا ؟اورکیوں ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی ؟کیا اس لیے کہ وہ تعداد میں کثیر ہیں اورحکومت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی یا وہ ہتھیارو ں کے ذریعے افواج اور انتظامیہ کو منہ توڑجواب دیتے ہیں؟قابل غور ہے کہ اگراس جگہ مسلمان یا عیسائی ہوتے تو انھیں کب کا مٹا دیا جاتا ،ان کی چارو ں جانب سے ناکہ بندی کر کے اوران کی تنظیموں کو کالعدم کر کے جیلوں کو ان سے آباد کر دیا جاتا اس کے بر خلاف بوڈوؤں کو بار بار آسام جلانے کی کھلی آزادی ہے اوروہ حکومت کی اس نااہلی سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ آسام میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اورریاستی حکومت سمیت مرکزی حکومت گہرے صدمات کے اظہار کے ساتھ بے بس بنی ہوئی ہے ۔نیز آسامی مسلمانوں کو جھوٹا دلاسا دے کر پر امن رہنے کی تلقین کی جارہی ہے گویا مرے پر ایک لاٹھی اور ․․․․ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے حسب دستوراپنا وہی گھسا پٹااوررٹا رٹایا بیان دیاہے کہ ’’یہ حملے ہمارے شہریوں میں خوف ہراس پھیلانے کی ایک بزدلانہ کوشش ہے،حکومت ہر طرح سے دہشت گردی سے لڑنے کے تئیں پابند ہے اورہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ وہاں امن ہوجائے۔‘‘وزیر اعظم صاحب اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتے ہیں ۔چو نکہ نہ اختیار ہے نہ اتھارٹی ۔ کٹھ پتلی سے اس سے زیادہ اور کیا امید ہو سکتی ہے۔

آسام میں وقفے وقفے سے ہونے والے ان حادثات نے جہاں آسام کی موجودہ حکومت اوروزیراعلیٰ تروگگوئی کو ناکارہ ثابت کیا ہے وہیں وزارت داخلہ سمیت ہندوستان کے شعبۂ سلامتی و تحفظ کی کارکردگی پر متعدد سوالات کھڑ ے کر دیے ہیں جنھیں ہر وہ شخص پوچھ رہا ہے جسے ملک عزیز سے دل و جان سے زیادہ محبت ہے۔وہ کانگریس بنام یوپی اے سے پوچھنا چاہتا ہے کہ وہ کس منہ سے ملک کی ترقی اورسا لمیت کی بات کرتی ہے جب کہ اس کے زیر حکومت ریاست آسام میں خوف ودہشت کے ناگ پھن اٹھا ئے پھررہے ہیں۔کانگریس کا اب کیامنہ رہ گیا ہے؟ وہ کیسے کہتی ہے کہ اس نے ہندوستان کی تعمیر میں سب سے زیادہ حصہ لیا ہے جب کہ اس کی تخریب کاریاں اور اس کے زیر سایہ ہونے والے لامتناہی فسادات کے سلسلوں نے ملک کا جغرافیہ ہی بگاڑکے رکھ دیا ہے ۔ کانگریس کیسے کہتی ہے کہ وہ ہندوستان کو سب سے بہتر حکومت دیتی آئی ہے جب کہ اس کے کارنامے یہ ہیں کہ جتنا اس نے ملک کا بیڑا غرق کیا ہے ایسا کسی نہیں کیا۔کانگریس کے وزیر اعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان سے زیادہ طاقت وراورکوئی وزیراعظم ہندوستان کی تاریخ میں پیدا نہیں ہوئے جب کہ ان کی کمزوریاں ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے اور یہ کہہ کر ہنستا ہے کہ جو شخص اپنے بل کسی فیصلے اور و اختیار لینے کا مجاز نہیں ہے اس کے بارے میں کیسے یہ مان لیا جائے کہ وہ طاقت ور زیر اعظم ہے ۔ایک بات تو صاف ہے کہ کانگریس صرف کھوکھلے دعوے کر تی ہے اور لاشوں پر سیاست کر نا ہی اس کاکام رہا ہے اور بس ! ایک ایسے وقت میں کہ جب کانگریس کا ملک سے سوپڑا صاف ہونے والا ہے وہ اپنے دامن پر مزید داغ لگاتی جارہی ہے تاکہ ملک کے عوام اسے کبھی معاف نہ کر سکیں اور کبھی اسے یاد نہ کر یں۔

تازہ ترین اطلاعات مطابق بوڈوانتہا پسندوں نے متعدد گاؤں کو خالی کرادیا اورسینکڑوں مسلمانوں کو موت کے گھا ٹ اتاردیا ہے۔ خوف ہراس بھی چاروں طرف پھیل رہا ۔نقل مکانی کے سلسلے بھی بڑے پیمانے پر جاری ہیں ۔نیز گوہاٹی اور آسام کے مختلف علاقو ں میں بڑے احتجاج اور مظاہرے منعقد کیے جارہے ہیں اورحکومت پر دباؤ بنایا جارہا ہے کہ وہ بوڈو انتہا سرکوبی کے لیے فوری کارروائی کر ے۔

احساس
ایسا نہیں ہے کہ بوڈوؤں کے ظلم کی تاریخ نئی ہے، بلکہ 1996اور98میں بھی انھوں نے اسی طرح آسام میں آگ و خون اورقتل و غارت گری کا بازار گر م کیا تھا۔ اس کے باوجود سمجھ میں نہیں آتا کہ عظیم تر ہندوستان میں ایسے سانپوں کو کیوں دودھ پلایا جاتا رہاہے جو مبینہ طور پر ملک کی سا لمیت و تحفظ کے لیے خطرہ بنتے رہے ہیں ۔ انھیں پابند کیوں نہیں کیا گیا ؟اورکیوں ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی ؟کیا اس لیے کہ وہ تعداد میں کثیر ہیں اورحکومت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی یا وہ ہتھیارو ں کے ذریعے افواج اور انتظامیہ کو منہ توڑجواب دیتے ہیں؟قابل غور ہے کہ اگراس جگہ مسلمان یا عیسائی ہوتے تو انھیں کب کا مٹا دیا جاتا ،ان کی چارو ں جانب سے ناکہ بندی کر کے اوران کی تنظیموں کو کالعدم کر کے جیلوں کو ان سے آباد کر دیا جاتا اس کے بر خلاف بوڈوؤں کو بار بار آسام جلانے کی کھلی آزادی ہے اوروہ حکومت کی اس نااہلی سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ آسام میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اورریاستی حکومت سمیت مرکزی حکومت گہرے صدمات کے اظہار کے ساتھ بے بس بنی ہوئی ہے ۔نیز آسامی مسلمانوں کو جھوٹا دلاسا دے کر پر امن رہنے کی تلقین کی جارہی ہے گویا مرے پر ایک لاٹھی اور ․․․․

IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62230 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More