پاکستان میں دھرنا اور احتجاج پے احتجاج جماعت اسلامی نے
متعارف کروایا ۔وہ دور جب ظالمو قاضیؒ آرہا ہے اور قاضی کے دھرنوں کا ہر
طرف چرچا تھا اوروہ وقت بھی گزر گیا اور جناب عمران خان کی سونامی نے سر
اٹھایا اور ایسا اٹھایا کہ اس کہ ہی دھوم مچ گئی۔سونامی تیزی سے ابھرا اور
ملک بھر میں تو نمایاں کارگردگی دیکھانے میں تو ناکام رہا لیکن صوبہ خیبر
کی حکومت ہاتھ آئی ۔ بہت سے وعدے کیے تھے طلبہ یونین کی بحالی سے لیکر
انتہائی سستا اور جلدی انصاف کے وعدے تو بس خواب بن کے ہی رہ گئے ۔ابھی تک
صوبہ خیبر حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے ۔خیر دیکھتے ہیں آگے
آگے وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوا والی بات ہوتی ہے یا صوبہ خیبر حکومت مثالی
کام کر دیکھانے میں کامیاب ہوتی ہے جماعت اسلامی جو دوسری بار صوبہ خیبر کی
حکومت میں حصہ دار ہے ملک بھر میں بلدیاتی الیکشن اور طلبہ یونین کے الیکشن
کے لیے احتجاج بھی کرتی نظر آتی ہے لیکن صوبہ خیبر میں طلبہ یونین کے
الیکشن کروانے میں ابھی تک ناکام رہی ہے ۔دوسری جانب شریف برادران نے
الیکشن سے قبل چھ ماہ میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی میں نمایاں کمی کا
اعلان اور وعدے کیے تھے نہ تو لوڈشیڈنگ میں کمی ہو سکی اور نہ ہی مہنگائی
میں ذرا برابر کمی ہوئی بلکہ مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوا ۔الیکشن سے
پہلے جب سونامی اور شیر کے چرچے اور ایک دوسرے پر طنز جاری تھا کہ ڈاکٹر
طاہر القادری اسلام آباد میں ایک بڑا میدان لگانے میں کامیاب ہونگے ۔شروع
میں تو ایم کیوایم نے ڈاکٹر صاحب کا خوب ساتھ دیا لیکن بعد میں پیٹھ
دیکھاکربھاگ گئے اور اس دھرنے میں شمولیت سے معذرت کر لی۔دھرنے کے دوران
جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو بھی اس دھرنے میں شمولیت کی دعوت دی جوان
جماعتوں نے اپنی پارٹی پالیسوں کے باعث قبول نہیں کی ۔ خیر ڈاکٹر صاحب نے
اکیلے ہی میدان لگایا اور حکومت کو مذکرات پر مجبور کیا اور آخر کار حکومتی
وزراء کو ڈاکٹر صاحب سے مذکرات کے لیے ان کے پاس ان کے کنٹینر میں جانا پڑا
۔لیکن یہ الگ بات ہے کہ حکومت نے بھی وہی کیا کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوا
۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ منہاج القرآن کے ورکر زجن میں بچے ،بورھے،خواتین،نوجوان
ایک جذبے اور استقامت کے ساتھ پر امن طور پر موجود تھے ۔جو استقامت کے ساتھ
سردی اور اوپر سے ہونے والی شدید بارش میں اپنے قائد طاہرالقادری کے حکم پر
ڈٹے رہے ۔اورآخر حکومت کو مذکرات کے لیے آنا پڑا ۔ویسے دیکھنے میں آیا ہے
کہ اسلامی جماعتیں ہمیشہ پرامن ہی ہوا کرتی ہیں یہ بھی ایک ریکارڈ کی بات
ہے پاکستان میں ۔جماعت اسلامی ۔جمیعت علماء اسلام ۔ جمیعت علماء پاکستان ۔تحریک
منہاج القرآن ،سنی تحریک ،وغیرہ سب کے سب جب بھی اپنے جماعتی یا ملکی مفاد
میں احتجاج کے لیے نکلے پرامن طور پر نکلے نہ کوئی توڑ پھوڑ نہ نقصان یہ
مذہبی جماعتوں کی تربیت کا نتیجہ ہے ۔اب 11مئی کو ایک بار پھر ڈاکٹر
طاہرالقادری نے ایک ملک گیر احتجا ج کا اعلان کیا ہے ڈاکٹر صاحب اور ان کے
ہزاروں ورکرز ایک بڑے انقلابی معرکے کی تیاری میں مصروف ہیں ۔اسی دن جناب
عمران خان نے بھی انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے تاہم
ڈاکٹر طاہرالقادری کا مرکزی اسٹیج روالپنڈی میں ہوگا اور عمران خان اسلام
آباد میں اسٹیج لگائے گے ۔جہاں ڈاکٹر طاہر القادری نے ایم کیوایم سمیت دیگر
جماعتوں کو اپنے احتجاج میں شرکت کی دعوت دی ہے وہاں عمران خان نے بھی شیخ
رشید احمد اور جماعت اسلامی کو اپنے احتجاجی پروگرام میں شرکت کی دعوت دے
رکھی ہے ۔ماضی جہاں مذہبی حلقوں بطور خاص مولانا فضل الرحمان کی جانب سے
عمران خان کے جلسوں میں چلنے والے گانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا
وہاں ڈاکٹر طاہرالقادری کے کنٹینرکو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے
۔اب 11 مئی کو ہونے والے احتجاج کے حوالے سے بھی یہی صورت حال ہے کہ ڈاکٹر
طاہرالقادری خود کینڈا میں بیٹھ کر ویڈیو لنک سے خطاب کرئے گے کارکنان
پاکستان میں بیٹھ کر اپنے قائد کا خطاب سنے گے ڈاکتر طاہر القادری کو ویڈیو
لنک اور ٹیلی فون کی بجائے عوام کے درمیان موجود رہتے ہوئے ایسے پروگرامات
کی قیادت کرنی چاہیے ۔ویسے ویڈیو لنک اور ٹیلی فون کے ذریعے خطاب کو
پاکستان میں جناب الطاف حسین قائد ایم کیو ایم نے متعارف کروایا ہے ۔الطاف
حسین سے ہزاروں اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن ان کی ابتدائی جدوجہد ایک عظیم
جدجہد تھی اس انداز سے شائد ہی پاکستان کی کسی جماعت نے اپنا نظریہ پھلایا
ہو ۔اب دیکھتے ہیں 11مئی کو ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان اپنے اپنے
احتجاج کے ذریعے حکومت پر کتنا پریشر ڈالنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔اور عوام
کی مشکلات میں کتنی کمی کا باؑعث بنتے ہیں - |