بھانت بھانت کے پارلیمانی امیدوارسیاسی پارٹیوں کی ذہنی
مفلسی کی کہانی کہتے ہیں
بارہویں پارلیمنٹ کی تشکیل میں دو ہفتے باقی ہیں اور ایک سو سے زیادہ حلقوں
میں انتخاب کا کام بھی مکمل نہیں ہوا ہے لیکن جب مختلف سیاسی پارٹیوں کے
امیدواروں کی فہرست پر نظر ڈالتے ہیں تو سیاسی پارٹیوں کی ذہنی مفلسی آئینہ
ہو جاتی ہے
صفدرامام قادری
ہم کبھی قومی ترنگ میں ہوتے ہیں تو دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہم دنیا کی سب سے
بڑی جمہوریت کے باشندہ ہیں۔ تاریخ کے نہاں خانے میں اُترتے ہیں تو ویشالی
کا سیاسی تجربہ ہمارے سامنے ہوتا ہے جسے مورّخین نے جمہوریت کا پہلا ذائقہ
مانا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں جمہوریت کا پیغام
ہندستان سے ہی پہنچا اور اس کے لیے ہمیں فخر کرنا ہی چاہیے۔ انگریزوں سے
لڑتے ہوئے جب ہم نے آزادی حاصل کی اور بدقسمتی سے تقسیم در تقسیم کے عذاب
سے گزرنا پڑا تب بھی برِّصغیر کی سیاسی صورتِ حال میں ہندستان کی جمہوریت
کو مستحکم نظام کے طور پر پہچانا جاتا ہے اور پاکستان یا بنگلہ دیش کی
سیاسی اُتھل پُتھل اور ابتری کے مقابلے کون کافر ہے جو ہندستان کی مستحکم
جمہوریت کی داد نہ دے۔ سیاسی مبصرین اور سیاسیات کے ماہرین اس صورتِ حال کو
آئین کے معماروں کی خوبی بتاتے ہیں اور اس کے لیے بابا صاحب بھیم راو
امبیدکر کی ذہنی مضبوطی اور جمہوریت کے تئیں سا لمیت کو بنیاد قرار دیتے
ہیں۔
جمہوریت کی بقا کے لیے آئین ساز اداروں کا کام اساسی ہوتا ہے۔ آئین میں
پارلیمنٹ اور اسمبلی کے دونوں ایوانوں کو وہ تمام اختیارات تفویض کیے گئے
جن سے وہ اپنے خوابوں کا ملک بنا سکتے تھے۔ یہ ہمارے لیے مسلسل احتساب کا
کام ہے کہ چھے دہائیوں سے زیادہ گزرنے کے نتیجے میں ملک نے جمہوری تقاضوں
کے تحت کتنی ترقی کی اور کیا ترقی کی جو توقع تھی ، اس نشانے کو ہم حاصل
کرنے میں کامیاب ہوسکے؟ پارلیمنٹ کا تصور یہ ہے کہ عوام کے مسائل براہِ
راست ایوان میں پیش کیے جائیں اور ان کے تدارُک کے لیے اگر کوئی قانونی
اڑچن ہے تو پارلیمنٹ نئے قوانین بناکر ملک اور قوم کے مسائل کم کرے۔اسی لیے
یہ توقع کی جاتی ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان میں جو افراد جائیں وہ ملک
اور قوم کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے والے ہوں اور اپنی صلاحیت اور مہارت
کا استعمال کرکے وہ واقعی اپنے خوابوں کا ملک بنانے میں دستِ تعاون
بڑھائیں۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بارہ پارلیمنٹ میں ملک نے ایسے ایسے ماہرین
اورقومی جذبے سے سرشار جاں نثاروں کو دیکھا ہے جن کی خدمت اور عوام سے رشتے
کو ایمان کا درجہ حاصل ہے۔ جن کے سوالوں کے جوا ب دیتے دیتے حکومت کو جواب
دہ ہونا لازم ہوجاتا تھا اور لاکھوں کروڑوں کے مسائل ان کی کوششوں سے حل
ہوجاتے تھے۔ رام منوہر لوہیا گنتی کے دنوں تک پارلیمنٹ کے رکن ہوئے لیکن
انھوں نے پارلیمنٹ میں جو تقریریں کیں یا عوامی مسائل سے متعلق ضروری
سوالات پیش کیے ان کی اشاعت درجنوں جلدوں میں تکمیل کو پہنچی۔ مدھودنڈ وتے
کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ پارلیمنٹ کا کوئی ایسا دن نہیں ہوگا جب
پانچ اور پانچ دس سوالات ان کے ایوان میں نہ پیش ہوں اور لازماً سرکار کو
ان سوالوں کے جواب دینے ہی ہوں گے۔ لیکن موجودہ پارلیمنٹ میں ایسے امتیازی
بیانات کس کے سلسلے سے دیے جائیں؟ جواب مشکل ہے۔
الیکشن کمیشن سے لے کر عوام تک اور کبھی کبھی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے بھی
یہ بات کی جاتی ہے کہ ہمارے قانون ساز اداروں میں لائق لوگ گھٹتے جارہے
ہیں۔ دوسری بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ نالائق سربراہوں کی تعداد میں اضافہ
ہوتا جارہا ہے۔ پہلے سیاست داں جبراً ووٹ حاصل کرنے کے لیے جرائم پیشگان کی
مدد لیتے تھے، اب جرائم پیشہ افراد خود ہی جام و مینا ہاتھ میں بڑھ کر اٹھا
رہے ہیں اور ایوان کی رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ ۱۹۷۷ ء کے
انتخاب میں بہت سارے ایسے لوگ تھے جنھوں نے جیل میں رہتے ہوئے انتخاب لڑا
اور کامیاب ہوئے۔ وہ سب سیاسی قیدی تھے لیکن اب جیل میں رہتے ہوئے چناو
لڑنے والے جرائم پیشہ افراد کی بڑی تعداد ہے۔ ممکن ہے، وہ بھی خود کو سیاسی
قیدی ہی سمجھتے ہوں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ نام نہاد بڑی سیاسی جماعتیں کیا ذہنی طور پر اس قدر
مفلس ہیں کہ انھیں ملک میں پانچ سو پینتالیس صاف ستھرے دل و دماغ کے قوم
پرستی اور سماج موافق فکر رکھنے والے آدمی نہیں ملتے ؟ کانگریس، بھارتیہ
جنتا پارٹی کو ہمیشہ یہ دعویٰ ہے کہ وہ فکر و نظر کی بنیاد پر سیاست کو مشن
بناتے ہوئے کام کرتی ہیں۔ ممکن ہے،ان کا ایسا ہی ارادہ ہو لیکن موجودہ
پارلیمانی انتخاب میں جب ان کے امیدواروں کی فہرستوں پر نظر ڈالتے ہیں تو
پہلی نظر میں جو باتیں صاف صاف سمجھ میں آتی ہیں وہ یہ ہیں:
(الف) وراثت کی سیاست کو ہر پارٹی ترجیح دیتی ہے اور باپ، بیٹے، بھائی،
بہن، بیوی، بہو اور داماد کو امیدوار بنانے کی مہم میں کوئی پارٹی پیچھے
نہیں۔
(ب)اپنے حلقے کے دبنگ امیدواروں کو سب نے ترجیح دی اور یہ کبھی بھی نہیں
سوچا کہ وہ آدمی فتح حاصل کرکے پارلیمنٹ میں آکر آخر کرے گا کیا؟
(ج) ہر پارٹی میں آدھے سے زیادہ ایسے امیدواروں کے نام عوامی طور پر لیے
جاتے ہیں جنھوں نے اپنی دولت کی بنیاد پر ٹکٹ خریدے اور تمام پارٹیوں نے بہ
خوشی ان کی اس طاقت کا فائدہ اٹھایا۔
(د) امیدواروں کے انتخاب میں زیادہ غور و فکر اور کس سے کون مقابلہ کرے گا
اس کے بارے میں ناپ تول کا کوئی ٹھوس پیمانہ وضع نہیں کیا گیا۔
(ہ) ہر سیاسی جماعت میں ذات ، برادری اور مذہب کی بنیاد پر امیدواروں کو نہ
صرف یہ کہ منتخب کیا بلکہ اسی انداز میں انھیں حلقۂ انتخاب بھی عطا کیا
گیا۔
(و) اکثر بڑی پارٹیوں نے جس غیر سنجیدگی سے امیدوار میدان میں اتارے وہ
مضحکہ خیز نظر آتا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ کے خلاف عام آدمی پارٹی نے فلمی
ظریف جاوید جعفری کو میدان میں اتارا تھا۔ بنارس میں نریندر مودی کے خلاف
کانگریس نے اجے راے کوپیش کیا اور کانگریس کے نائب صدر اور وزیر اعظم کے
امیدوار راہل گاندھی کے خلاف ٹیلی ویژن کی اداکارہ اسمرتی ایرانی کو میدان
میں اتارنا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں گہری وابستگی اور مکمل
سنجیدگی کے ساتھ چناو نہیں لڑ رہی ہیں۔
(ز) اس چناو میں فضول قسم کے مشہور لوگوں کی تلاش میں سب پارٹیوں نے جدوجہد
کی اور ٹکٹ بانٹے۔ فلم سے پہلے بھی نرگس دت، سنیل دت، امیتابھ بچن، جیا
بچن، جیا پردا، نغمہ، جے للیتا، ہیما مالینی، دھرمیندر، گووندا، راج ببر،
شتروگھن سنہا وغیرہ باضابطہ طور پر انتخاب میں اتر کر پارلیمنٹ پہنچ چکے
ہیں۔ ان میں سنیل دت کے علاوہ شاید ہی کسی کی ایسی کارکردگی ہو جس کی وجہ
سے ہمیں یہ ضروری معلوم ہو کہ فلمی کرداروں کو پارلیمنٹ میں بھیجا جانا
چاہیے۔
(ح) اس چناو میں کھلاڑیوں کے اسٹار ڈم کو بھی نقدی مال کی طرح استعمال کرنے
کی کوشش ہوئی۔
کانگریس نے محمد کیف کو ٹکٹ دیا اور کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ
ویریندرسہواگ اور ہربھجن سنگھ کو بھی پارلیمنٹ کا انتخاب لڑنے کا آفر دیا
گیا تھا۔ منصور علی خاں پٹودی، اسلم شیر خاں سے لے کر چیتن چوہان، نوجوت
سنگھ سدھو ، کیرتی آزاد اور محمد اظہرالدین؛ سب کے سب پارلیمنٹ کا ذائقہ
چکھ چکے ہیں لیکن اس قانون ساز ادارے اور عوامی زندگی کو انھوں نے کیا دیا
، یہ کسی کو معلوم نہیں۔
مشہور شخصیات کو پارلیمنٹ میں پہنچا نے کا کام شاید سیاست دانوں کے گھٹتے
اسٹار ویلیو کو بڑھانے کی ایک کوشش تو نہیں؟ ہمیں اس بات سے اعتراض نہیں ہے
کہ لتا منگیشکر ہوں یا شبانہ اعظمی یا سچن تندولکر؛ مگر جب انھیں دنیا کی
سب سے بڑی جمہوریت میں ایوانِ بالا کی رکنیت تفویض کی تو کیا ان کا یہ فرض
نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ملک کے لیے اس بڑی ذمے داری کو سلیقے سے اپنے کاندھوں
پر اٹھائیں؟ جب چنے ہوئے نمائندگان پارلیمنٹ سے مسلسل غائب رہنے اور
مذاکروں میں شریک نہیں ہونے کے لگاتار ریکارڈ قائم کرتے ہیں، ویسے میں
نامزد ممبران سے اس قدر توقع کرنا شاید زیادتی ہی کہی جائے گی۔ مجھے یاد
آتا ہے کہ ایک زمانے میں حسبِ اختلاف کے مسلسل احتجاج کی وجہ سے ایک طویل
مدت تک پارلیمنٹ کی نشستیں نہیں ہوسکیں۔ اس زمانے میں کلدیپ نیر نامزد
ممبرِ پارلیمنٹ ہوا کرتے تھے۔ پارلیمنٹ سے جب انھیں تنخواہ اور بھتّا پیش
کیا گیا تو انھوں نے جتنے دن ایوان نہیں چلا تھا اس کے بھتے کی رقم باضابطہ
طور پر واپس کی تھی۔ اخباروں میں یہ بات آئی اور دوسرے سیاست دانوں کے
مثالی کردار پر انگلی اٹھنے لگی۔ پیشے ور سیاست دانوں کے کردار کے بارے میں
مجھے کچھ نہیں کہنا ہے لیکن ہم نے یہ کبھی نہیں سنا کہ لتا منگیشکر یا اسی
انداز کے دوسرے نامزد ارکانِ پارلیمنٹ ایوان کی نشستوں سے مسلسل غائب رہنے
کے باوجود پارلیمنٹ سے حاصل شدہ تنخواہ اور بھتّوں کو کتنا واپس کیا؟
جمہوریت گھنے پیڑ کی طرح ہوتی ہے۔ اس کی جڑیں گہری ہوں گی تب تنا مضبوط
ہوگا۔ اس کے بعد ہی اس کی شاخیں پھیلیں گی اور وہ شجرِ سایہ دار بنے گا۔
اصلاح کا پہلا کام امیدواروں کا انتخاب ہے اگر وہاں ہم نے صحیح ، ایماندار
، سوجھ بوجھ والے امیدواروں کے بجاے برے لوگوں کو چنا تو پارلیمنٹ میں
ہماری نمائندگی ویسے ہی لوگ کریں گے۔ غلطی سے ایک بار جسے ٹکٹ مل گیا ،
بھلے وہ ہار گیا ہو لیکن اگلی بار کے لیے بھی وہ پختہ امیدوار ہوگا۔
جمہوریت کی کشتی میں ہر پارٹی نے سوراخ کر رکھاہے۔ گندا پانی بھرتا جارہا
ہے۔ چند ہفتوں کی سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی نے جب دَل بدل کرنے والے اور
دولت یا منصب کے بل پر ٹکٹ ہتھیانے والے افراد کو بھی گلے لگایا تو پرانی
پارٹیاں ایسے کاموں میں بڑی مہارت رکھتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اب یہ تجربہ
کرنا ہی چاہیے کہ دس بیس فی صد ایسے امیدواروں کو بھی ٹکٹ دیں جن کے جانے
سے پارلیمنٹ کا علمی اور سماجی وقار بڑھے اور وہاں کی کچھ گندی نالیاں صاف
ہوسکیں۔ تھوڑی توجہ سے ہماری گھٹتی ہوئی ساکھ بحال ہوسکتی ہے اور سیاست کا
جبرعوامی خدمت میں بدل سکتا ہے۔ سو بات کی ایک بات یہ کہ جسے بھی پارلیمنٹ
کا امیدوار بنایا جائے اس کے بارے میں یہ سوچنا ہی چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ
پہنچ کر کیا کرے گا؟ایک کلرک اور ایک پیون کو چنتے ہوئے ہم اس کی متوقع
کارکردگی کو نگاہ میں رکھتے ہیں تو کیا پارلیمنٹ کے لیے امیدوار چنتے ہوئے
ہمیں یہ معلوم نہیں کہ پریش راول، جاوید جعفری، محمد کیف، اسمرتی ایرانی،
نغمہ، محمد اظہرالدین، ہیما مالینی اور شتروگھن سنہا ؛ کسی کام کے نہیں ہیں
اور ان کی شہرت پارلیمنٹ پہ بوجھ بن کر ہمارے جمہوری ادارے کا مذاق اڑائے
گی۔ امیدواروں کے انتخاب کے اس پہلو سے اس بار تو ہم ٹھگے ہی گئے لیکن اﷲ
کرے کہ اگلے مرحلے میں ہمارے قائدین کی آنکھ کھلے اور امیدواروں کے انتخاب
میں وہ اپنی سیاسی اور سماجی ذمے داریوں کو مثالی انداز میں استعمال کریں
گے۔ |