نام ونسب: آپ کا نام ”علی“، کنیت ”ابو الحسن“،اورلقب
”اسداللہ“ اور ”حیدر“ ہے۔
نسب نامہ: علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ھاشم بن عبد مناف بن قصی بن
کلاب ۔
(الاصابۃ ج: ۲،ص:۱۲۹۴،سیرت سیدنا علی المرتضی ،ص:۲۰ )
ولادت : حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں: صحیح قول کے مطابق آپ کی ولادت
بعثت نبوی سے دس برس قبل ہوئی ۔
(الاصابۃ ج:۲،ص:۱۲۹۴)
قبول اسلام : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اعلان نبوت فرمایا تو
بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کلمہ پڑھا ۔
(الاصابۃ ج:۲،ص:۱۲۹۴)
فضائل ومناقب: حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف
لے گئے تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کو ایک دوسرے بھائی بنایا۔حضرت
علی کو فرمایا ” أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ ‘‘آپ دنیا اور
آخرت میں میرے بھائی ہیں ۔
(جامع الترمذی ج:۲،ص:۲۱۳،مناقب علی ابن ابی طالب )
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت
علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا:
أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلا أَنَّهُ لا نَبِيَّ
بَعْدِي
(جامع الترمذی ج:۲ص:۲۱۴)
ترجمہ: تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو حضرت ہارون کو حضرت موسیٰ سے تھی
مگر میرے بعد کوئی(نیا) نبی نہیں۔
اعزازخصوصی : حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ کا نکاح
آپ رضی اللہ عنہ سے فرمایا۔
قوت اجتہاد : حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فقہ و اجتہاد میں بڑی دسترس حاصل
تھی۔بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی قوت اجتہاد کے معترف تھے ۔ یہی
وجہ ہے کہ فقہ حنفی کی بنیاد حضرت ابن مسعود ؓ کے بعد حضرت علی رضی اللہ
عنہ کے اجتہادی فیصلوں پر ہے ۔آپ کے اجتہادی مسائل میں چند درج ذیل ہیں ۔
آپ کے دور میں کچھ لوگوں کا نظریہ یہ تھا کہ اگر امت میں اختلاف ہو جائے تو
فیصلہ صرف قرآن سے کرانا چاہیے۔آپ نے لوگوں کو جمع کر کے فرمایا کہ اگر
زوجین میں اختلاف ہو جائے تو اللہ تعالیٰ حَكَم اور ثالث بنانے کا حکم دیتے
ہیں ۔آپ کا اشارہ آیت
’’وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ
وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا ‘‘ کی طرف تھا یعنی اگر امت میں اختلاف ہو جائے
تو ثالث بنانا کیوں ناجائز ہو گا ؟کیا امت محمدیہ کا مقام و مرتبہ مرد
وعورت سے بھی کم ہے۔
(مسند احمد ج:۱، ص:۴۵۳ ،رقم الحدیث ۶۵۶)
مجتہد کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک مسئلہ کی مختلف احادیث کو سامنے رکھتا
ہے۔پھر اپنی اجتہادی قو ت سے ایک کو ترجیح دیتاہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ
میں یہ خصوصیت کمال درجہ کی تھی۔ چند مسائل درج ذیل ہیں جن کے متعلق احادیث
کا ایک ذخیرہ موجو دہے۔حضرت علیؓ نےان میں سے ایک جانب کو ترجیح دی ۔
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا : نماز میں ہاتھ کہا ں باندھے جائیں ؟ اس بارے
میں حدیث کا ایک ذخیرہ موجود ہے۔حضرت علی ؓ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کوسنت
قرار دیتے ہیں فرماتےہیں: ’’ السُّنَّةُ وَضْعُ الكفِّ عَلَى الْكَفِّ فِى
الصَّلاَةِ تَحْتَ السُّرَّةِ ‘‘۔
(سنن ابی داؤد ج:۱،ص:۱۱۷)
ایک روایت میں ہے:
عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : مِنْ سُنَّةِ الصَّلاَةِ وَضْعُ الأَيْدِي عَلَى
الأَيْدِي تَحْتَ السُّرَرِ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج:۱،ص:۴۲۷، رقم الحدیث۱۳)
ترجمہ : نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے۔
ترک قراءت خلف الامام : حضر ت علی المرتضیٰ کا نظریہ یہ تھا کہ مقتدی امام
کے پیچھے قراۃ نہ کرے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ’’ مَنْ قَرَأَ خَلْفَ
الإِمَامِ فَقَدْ أَخْطَأَ الْفِطْرَةَ ‘‘
(مصنف ابن ابی شیبہ ج:۱ ص:۴۱۲ رقم الحدیث ۶)
ترجمہ: جوشخص امام کے پیچھے قرات کرتا ہے وہ فطرت کی مخالفت کرتا ہے ۔
آمین آہسۃ کہنا : ابو وائل کہتے ہیں:
’’ كَانَ عُمَرُ وَعَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا لَا يَجْهَرَانِ ببِسْمِ
اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَلَا بِالتَّعَوُّذِ , وَلَا بِالتَّأْمِينِ
‘‘
(سنن الطحاو ی ج:۱ص:۱۵۰، باب قراۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم فی الصلوۃ)
ترجمہ : حضرت عمر اور حضرت علی نماز میں تعوذ ،تسمیہ اور آمین آہسۃ کہتے
تھے ۔
ترک رفع یدین : حضرت علی المرتضی ٰ صرف شروع میں رفع یدین کرتے تھے :
’’ان علی بن ابی طالب کرم اللہ وجھہ کان یرفع یدیہ فی التکبیرۃالاولیٰ التی
یفتتح بھا الصلوۃ ثم لایرفعھما فی شئی من الصلوۃ ‘‘
(موطا امام محمد ص:۹۴ ،باب افتتاح الصلوۃ،کتاب الحجۃ امام محمد ج:۱ص:۷۶)
ترجمہ : حضرت علی المرتضیٰ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے تھے ،اس
کے بعد نہیں کرتے تھے ۔ دوسری روایت میں ہے:
’’کان یرفع یدیہ فی التکبیرالیٰ فروغ اذنیہ ثم لایرفعھما حتیٰ یقضی صلاۃ‘‘
(مسندالامام زید ص:۸۸ رقم الحدیث ۷۴ ،باب التکبیر فی الصلوٰۃ)
ترجمہ : حضرت علی المرتضیٰ تکبیر تحریمہ کے وقت کانوں تک ہاتھ اٹھاتے،اس کے
بعد آخر تک دوبارہ رفع یدین نہ کرتے تھے ۔
حضرت علی المرتضیٰ کا مسلک یہ تھا کہ دیہات اور گاؤں میں جمعہ اور عیدین کی
نماز درست نہیں ۔آپ کا فرمان ہے:
’’ لاَ جُمُعَةَ ، وَلاَ تَشْرِيقَ ، وَلاَ صَلاَةَ فِطْرٍ ، وَلاَ أَضْحَى
، إِلاَّ فِي مِصْرٍ جَامِعٍ ، أَوْ مَدِينَةٍ عَظِيمَةٍ ‘‘
(مصنف ابن ابی شیبہ ج:۲ ص:۱۰)
مجتہد کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ الفاظ حدیث کے ساتھ ساتھ منشائے نبوت کو
بھی ملحوظ رکھتا ہے۔ یہ خوبی حضرت علی ؓ میں بدرجہ اتم موجود تھی ۔ چنانچہ
آپ ہی سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نوکرانی سے بد کاری
سرزد ہوگئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ اس کو حد لگا ؤ
میں نے جا کر دیکھا تو اس کے ہاں بچہ کی ولادت ہوئی تھی۔ مجھے خدشہ ہوا کہ
اگر میں نے اس کو سزا دی تو یہ مر جائے گی۔ میں بغیر سزادیئے حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کو واقعہ بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا ’’احسنت‘‘تو نے بہت خوب کیا ۔
(صحیح مسلم ج:۲ ص:۷۱ باب حد الزنا)
اسی طرح ایک اور موقع پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک صحابی پر
لوگوں نے زنا کی تہمت لگائی۔آپ نےحضرت علی ؓ سے فرمایا کہ اس شخص کو قتل
کردو۔ حضرت علی ؓ گئے تو دیکھا کہ وہ ایک کنویں میں پاؤں لٹکائے بیٹھا
ہے۔آپ ؓ نے اسے پکڑا تو معلوم ہو اکہ وہ شخص تو حقوق زوجیت ادا کرنے پر
قادر ہی نہیں تو آپ نے اس کو قتل نہ کیا ۔
(صحیح مسلم ج:۲ ص:۲۶۸ باب براۃ حرم النبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
من الریبۃ )
ملاحظہ فرمائیں دونوں روایتوں میں حضرت علی ؓ کا عمل بظاہر الفاظ حدیث کے
مخالف ہے مگر منشائے نبوت کے عین مطابق ہےمجتہد کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ
امت میں پیش آنے والے نئے مسائل کے حل کی فکر میں رہتا ہے۔ حضر ت علی
المرتضیٰ اس خوبی سے بھی متصف تھے۔
چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے حضور سے پوچھا:
یا رسول اللہ ان نزل بنا امر لیس فیہ بیان امر ولا نھی فماتا مرونا؟
حضور اگر ہمیں کوئی ایسا مسئلہ ہو پیش آجائے جس کا حل وضاحت کے ساتھ نص میں
نہ ہو تو ہم وہ مسئلہ کیسے حل کریں گے ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا
’’تشاورون الفقہاء والعابدین ‘‘
ایسے مسائل میں مجتھد ین اور فقہاء کی طرف رجوع کرنا وہ ان مسائل کو حل کر
دیں گے۔
(المعجم الاوسط طبرانی ج:۱ص:۴۴۱ رقم الحدیث ۱۶۱۸ )
شہادت:
۱۷ رمضان ۴۰ ھ کوفہ کی جامع مسجد میں صبح کے وقت آپ رضی اللہ عنہ پر حملہ
کیا گیا اور آپ رضی اللہ عنہ ۲۱ رمضا ن کو خالق حقیقی سے جا ملے |