افکارِ پریشاں

کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کے پیتا ہے۔ ہم پاکستانی، ہم وطن سے محبت کرنے والے تو ایسے ایسے جلے ہیں کہ کبھی ذہن اس طرف نکل جائے تو آنکھیں ساون کی جھڑی کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں۔ہم رسی کو سانپ سمجھ کے اس لئے ڈر جاتے ہیں کہ ان چونسٹھ سالوں میں بہت سے سانپوں نے ہمیں رسی بن کے ہی ڈسا ہے۔ہم دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست تھے پھر نہ رہے۔اندرا گاندھی نے کہا کہ اس نے دو قومی نظریہ بحیرہ عرب میں دفن کر دیا ہے۔ہم نے بچے کچھے پاکستان میں اس کی مزاحمت کی لیکن اندرا کی سوچ کی کامیابی دیکھئیے کہ آج ہمارا وزیر اعظم خود کہتا ہے کہ ہم ایک لوگ ہیں ہماری ثقافت ایک ہے۔ ہمارا رہن سہن ہمارے رسم ورواج سب ایک ہیں۔یہ تو بس سرحد کی ایک لکیر ہے جس نے بھائیوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا ہے۔یہ کہتے سمے اسے قائد کے فرمان تو خیر کیا یاد ہونگے۔وہ ان کشمیری ماؤں بہنوں کی عزتوں کی پامالی بھی بھول جاتا ہے جو اس کی آنکھوں کے سامنے پامال ہوئیں۔

پاکستان ابن بحران ہے۔اس کی تخلیق ایک بڑے بحران کا نتیجہ تھی۔لاکھوں لوگوں نے اپنا وطن چھوڑا۔لاکھوں شہید ہوئے ہزاروں عورتوں نے اپنی عصمتیں قربان کیں اور کچھ ابھی تک ہندووں اور سکھوں کی اولاد جن رہی ہیں۔ان کی ان قربانیوں سے ہم نے یہ وطن حاصل کیا۔اس لئے کہ مسلمان اکٹھے رہیں گے۔اپنا ملک ہو گا اپنا دین ہو گا اپنے لوگ ہونگے اور آزادی کے ساتھ ہم اپنی زندگی گذار سکیں گے۔ہم ہندوستان سے چلے تھے تو مسلمان تھے لیکن جونہی ہم نے اس پاک سر زمین پہ قدم رکھا تو ہم شیعہ سنی بریلوی دیوبندی وہابی اور اہل حدیث ہو گئے۔اب عالم یہ ہے کہ ہم سجدے میں جاتے ہوئے بھی سوچتے ہیں کہ یہ کہیں آخری سجدہ نہ ہو۔ ہمیں مائیں صبح اٹھا کے مسجد بھیجا کرتی تھیں۔آج بچہ جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد جانے کا کہے تو ماں کہتی ہے میرے لال گھر ہی میں پڑھ لے ۔خدا جانے آج مسجد پہ پکے مسلمان دھاوا بول دیں۔اولیاء کی عظمت کی قرآن گواہی دیتا ہے لیکن ہم ان کی قبروں کو بموں سے اڑا رہے ہیں۔بازار محفوظ نہیں ۔اقلیتیں محفوظ نہیں۔ ہاں کبھی کسی شراب خانے میں دھماکا نہیں ہوا۔وہی اب آخری پناہ گاہ رہ گئی ہے۔

کہتے ہیں خاموشی طوفان کا بیش خیمہ ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں تو شاید طوفان آچکا۔کان پڑی آواز سجھائی نہیں دیتی۔ہر کوئی باہم دست وگریباں ہے۔حکومت فوج سے الجھ رہی ہے اورعوام حکومت سے۔میڈیا ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہے۔ پرانے حساب برابر کئے جا رہے ہیں۔ ہر کوئی لگتا ہے ایک دوسرے کوختم کر کے ہی رہے گا۔ طاہر القادری کنیڈا میں بیٹھ کے پاکستان میں انقلاب کی نوید سنا رہے ہیں جبکہ عمران خان ایک سال بعد دھرنے اور جلسے جلوسوں کا اعلان کر رہے ہیں۔فرینڈلی اپوزیشن بھی کچھ ایسی فرینڈلی رہتی نظر نہیں آتی۔مولانا فضل الرحمن کایاں آدمی ہیں پچھلے پندرہ سال سے حکومت کا حصہ ہیں لیکن اب کی بار کشتی میں بیٹھ کے اس کے چلنے سے پہلے چھلانگ لگا گئے تو اس کی بھی کوئی نہ کوئی وجہ ہو گی۔ایم کیو ایم حکومت کے بغیر بن پانی کے مچھلی کی طرح ہے کہ حکومت کے بغیر اس کا سانس اکھڑنے لگتا ہے۔اب وہ حکومت میں ہے بھی اور اس کے خلاف احتجاج بھی کر رہی ہے۔عجیب" گھڑ سمبھا "ہے۔کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ معاملہ کیا ہے۔ اس وقت ملک میں امن و امان کے بعد بجلی کی اشد ضرورت ہے لیکن حکمرانوں کی ترجیحات مختلف ہیں۔ وہ بقول چوہدری پرویز الہی جنگلہ بس سروس بنا رہے ہیں۔حکومت بنے ابھی صرف ایک سال ہوا ہے لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ اسے چلنے نہیں دیا جائے گا۔یہ آہ و فغاں اور یہ دھوم دھڑکا بے سبب نہیں۔جمہوریت کا نوزائیدہ پودا شاید پھر سوکھنے کو ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ فوج اب کی بار یہ عذاب اپنے سر نہیں لے گی تو پھر ہمارے بین الاقوامی آقا ہم پہ کیا کوئی نیا تجربہ کرنے جا رہے ہیں؟ ان کے اپنے مفادات ہیں۔ وہ پاکستان اور اس کے اداروں کو اپنے گماشتوں کے ذریعے کمزور کروا کے کیا کوئی نیا ورلڈ آرڈر ہم پہ مسلط کرنے جا رہے ہیں؟ نواز شریف ایسے لگتے تو نہیں لیکن کیا نواز شریف نے بھی ان نئے احکامات کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔اسی لئے کیا ان کا مکو ٹھپنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں؟

آج ہی ایک چینل پہ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ جس حکومت سے ریلوے نہ چلے،جو پی آئی ائے نہ چلا سکے اس سے حکومت کیا خاک چلے گی۔بات دل کو لگتی ہے لیکن کیا ان کی جگہ جو آئیں گے وہ ان اداروں کو چلا پائیں گے۔میں اس حکومت کا بڑا نقاد ہوں۔اس میں بہت سے ایسے ہیں جو کندھوں پہ سر نہیں تربوز لئے پھرتے ہیں۔جنہیں سوائے اپنے مفادات کے تحفظ کے اور کسی بات کی عقل نہیں۔یہ بھی تسلیم کہ یہ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے۔یہ بھی کہ یہ نجم سیٹھی کے لگائے پنگچروں پہ چل رہی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو اس وقت ہم سو رہے تھے۔کیا ہمیں خبر نہ تھی کہ کیا ہونے والا ہے؟ کیا ہم نون لیگ کے نون غنوں کی قابلیت سے آگاہ نہ تھے؟اب جب کہ ہم نے انہیں سر پہ بٹھا لیا ہے تو انہیں ان کی مدت پوری کرنے دی جائے۔جمہوریت چھاننی ہے ایک دن یہی نظام سارا کچرہ نکال کے خوبصورت لوگ اپنے وطن کے حوالے کرے گا۔ ہم نے پانچ سال زرداری کو بھی تو برداشت کیا ہے تو ان کو کیوں نہیں؟

مجھے نواز شریف اور ان کے رشتہ داروں کی فکر نہیں۔پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کا خیال ہے۔بھینسوں کی لڑائی میں ان کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ خدا را اس ملک پہ رحم کریں اور اس کے بجلی گیس اور پانی کی لوڈ شیڈنگ سے ستائے عوام پہ بھی۔نواز شریف تو بمعہ اپنے حواریوں کے جہاز پکڑ کے باہر چلے جائیں گے اور ہم ایک بار پھر بیس سال پیچھے دھکیل دئیے جائیں گے۔جمہوریت اس ملک کے لئے ناگزیر ہے اور حقیقی جمہوریت۔اس میں لیکن وقت لگے گا۔ میڈیا بھلے شور مچائے،طاہر القادری بھلے نظام کی اصلاح کا نعرہ لگائیں۔ عمران خان کو اﷲ کریم چار حلقے کھلوانے کی بھلے توفیق دے لیکن ایک بات یاد رہے کہ ملک کو نقصان نہ پہنچے۔ ایسا ہوا تو اب کی بار فوج نہیں عوام خود آگے بڑھے گی اور طالع آزماؤں کے گریبانوں پہ ہاتھ ڈالے گی۔اﷲ کریم اس ملک کی حفاظت کرے ۔آمین

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268678 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More