احتجاجی تحریک ایک نئے سیاسی اتحاد کو جنم دیگی؟

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے موجودہ حکومت کے خلاف الگ الگ احتجاجی تحریک شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے جو آگے چل کر دیگر سیاسی جماعتوں کی شمولیت سے نئے سیاسی اتحاد کو جنم دے گی۔ اس سلسلے میں کام جاری ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری موجودہ انتخابی نظام کے خاتمے کا نعرہ لیکر آگے بڑھیں گے جبکہ عمران خان الیکشن 2013 میں دھاندلی کو اپنی تحریک کا مرکزی نقطہ بنائیں گے۔ تحریک روزانہ کی بنیاد پر نہیں چلائی جائے گی بلکہ 11مئی کو ملک گیر مظاہروں کے بعد احتجاج، سیمینارز کانفرنسوں کا سہارا لیاجائے گا۔ عمران خان اپنے اس مطالبے کو لیکر چلیں گے کہ کم از کم چار حلقوں کو کھولاجائے۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ عمران خان الیکشن کے ایک سال کے بعد دیگر اپوزیشن جماعتوں کو دھاندلی کے خلاف کھڑا کرنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں کہ نہیں۔ مسلم لیگ (ق )کے صدر چوہدری شجاعت حسین کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ انہوں نے عمران خان کو تجویز دی تھی کہ دھاندلی کو بے نقاب کرنے کیلئے قومی اسمبلی کی رکنیت کا نہ خود حلف اٹھائیں اور نہ ہی اپنی پارٹی کے دیگرمنتخب ہونے والے ممبران کو حلف اٹھانے دیں بلکہ آپ سب پارلیمنٹ کے باہر دھاندلی کے خلاف بطور احتجاج دھرنادیں۔ چوہدری شجاعت کے بقول انہوں نے عمران خان کو یہ تجویز شوکت خانم ہسپتال میں اس وقت دی تھی جب الیکشن کے فوری بعد وہ وہاں عمران خان کی عیادت کیلئے گئے تھے۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی اب دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک میں شریک ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں تاہم اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے ان کا بھی دھاندلی کو بے نقاب کرنے کا ارادہ ہے۔

پیپلز پارٹی اور جمعیت علما اسلام بھی الیکشن 2013 ء میں دھاندلی کی شاکی ہے۔ ان تمام لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر دھاندلی نہ ہوئی ہوتی تو چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم الیکشن کروانے پر تمغہ لیکر جاتے اپنے عہدے سے مستعفی نہ ہوتے۔حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) نے اپنے سایسی مخالفین کا بازو مروڑنے کا شاید فیصلہ کریا ہے اور وہ اپنے سیاسی مخالفین کی تحریکوں سے نمٹنے کیلئے اپنے سیاسی حریفوں کو اعتماد میں لینے جارہے ہیں۔ تاہم گرمی کے موسم میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث حکومت مخالفت تحریکوں کو عوامی تائید حاصل ہوسکتی ہے، کیونکہ موجودہ حکومت کی عامیانہ پالیسیوں سے ہر طبقہ کے لوگ نالاں ہیں اور عوام میں پیدا ہونے والی نفرت کا لاوہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے ۔واقفان حال کا یہ بھی کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا اور حکومت کے خلاف عوامی نفرت بڑھے گی کیونکہ عوام جن مسائل کا شکار ہے انہیں حکومت ریلیف دے رہی ہے نہ ہی ان کے سلگتے ہوئے مسائل کی طرف توجہ ہے بلکہ بیرون ملک دوروں پر زور ہے اور لوگ ان کی آنیاں جانیاں ہی دیکھ رہے ہیں ۔گیس کی فلت ،بجلی غائب،بھاری بل لوڈ شیڈیگ کی وجہ سے شہر شہر پانی کی قلت ،بیروزگاری اور شدید مہنگائی اوپر سے بجٹ میں نت نئے ٹیکسوں کا اگر براہ راست اثر پڑے گا تو وہ طبقہ بے چارے عوام کا ہی ہوگا ۔جس ملک میں آلو کی قیمت ستر روپے سے نیچے نہیں لائی جاسکتی وہاں باقی شعبوں کا کیا حال ہوگا ۔اہل صحافت(ایک میڈیا گروپ) کا معاملہ بھی سلجھائے نہیں سلجھ رہا اور عوامی امنگوں کی ترجمان سمجھی جانے والی قومی اسمبلی میں جہاں ایک عوامی نمائندے کا محض اس لئے مائیک بند کردیا جائے کہ وہ فوج اور آئی ایس آئی کے حق میں بات نہ کرسکے تو پھر عمران حان کا واویلا بے جاء نہیں ہے ۔مکمل دھاندلی میں لتھڑی ہوئی اس اسمبلی کے ہر حلقے کے نتائج پر سوالیہ نشان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مقتدر حلقوں اور حکمرانوں نے نوں ہی نہیں چپ سادھ رکھی بلکہ کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے ،والا معاملہ ہے ۔

کہنے والے تو حکومت کی پالیسیوں کا دفاع بھی کرتے نظر آتے ہیں ایک قاری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس سال معاشی ترقی کی شرح 5فیصد اور افراط زر سنگل دیجٹ میں رہنے کی توقع ہے۔ یہ حکومت کی بہترین معاشی پالیسی، اخراجات میں کفایت شعاری اور غیر معمولی ریونیو کی وصولی کی وجہ سے ممکن ہے اور اس سال بجٹ خسارہ 6فیصد کے قریب رہنے کی توقع ہے۔ وصولیوں کی شرح پہلے مالی سال کے پہلے 9ماہ کے دوران 16.4فیصد رہی۔ پاکستان کی برامدات میں بھی اضافہ ہوا۔ ترسیلات ذر11.5ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔حکومت نے اکنامک چیلنجز سے نمٹنے کیلئے بہترین حکمت عملی تیار کی ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے معاشی و مالیاتی شعبے میں اصلاحات کے ایجنڈے پر کام شروع کیا ہے۔ زراعت اور صنعت کے شعبوں میں بہترین کارکردگی کی وجہ سے شرح نمو میں اضافہ کی توقع ہے۔ اخراجات میں کفایت شعاری اور غیر معمولی ریونیو کی وصولی نے بھی ملکی معشت پر مثبت اثر ڈالا ہے جس سے عوام کو فائدہ ہو گا۔

جب سے طالبان سے مذاکرات کا معاملہ طول پکڑتا جارہا ہے بھانت بھانے کو بولیاں سننے کو مل رہی ہیں ۔مولانا سمیع الحق نے گزشتہ دنوں بڑا سخت بیان دے ڈالا اس پر ردعمل میں اہلسنت نے شدید احتجاج کیا سُنّی تحریک علماء بورڈنے دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کامطالبہ کرنے والے شہداء کے لواحقین کو ملک دشمن قراردینے پرمولاناسمیع الحق سے معافی مانگنے کامطالبہ کردیا۔علماء ومفتیان کرام نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کامطالبہ مقتولین کے ورثا ء کاآئینی اورشرعی حق ہے۔شہداء کے لواحقین اپنے پیاروں کے قاتلوں کو کوئی رعایت دینے کیلئے تیارنہیں۔مولاناسمیع الحق کے بیان سے قوم کی دل آزاری ہوئی ہے۔مولاناسمیع الحق ساٹھ ہزارشہداء کے لواحقین کو ملک دشمن قراردینے پر قوم سے معافی مانگیں۔سمیع الحق کو چاہیے کہ شریعت کے مطابق اپنے شاگردوں سے ساٹھ ہزارمقتولوں کاقصاص طلب کریں۔ دہشت گردوں کے لیے مذاکرات طاقت کا انجکشن ثابت ہورہے ہیں۔حقیقی سٹیک ہولڈر دہشت گرد نہیں شہداء کے ورثاء ہیں۔حکومت دہشتگردوں سے مذاکرات کے بجائے ملک کیلئے قربانیاں دینے والے شہیدوں سے وفا کرئے۔ دہشت گردپے درپے دھماکوں اور حکمران مذاکرات میں مصروف ہیں۔ دھماکوں کی گونج میں مذاکرات کی بانسری بجائی جا رہی ہے۔تین ماہ کے مذاکراتی عمل سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ حکمران کب تک مذاکرات کے نام پر قوم کو بیوقوف بناتے رہیں گے؟ دہشت گردوں کے خلاف ملک گیر آپریشن کے بغیر خودکش دھماکے نہیں رک سکتے۔ حکومت بے گناہوں کا خون بہانے والے ریاست مخالف دہشت گردوں کی رہائی سے باز رہے۔ آئین کو تسلیم نہ کرنے والے ریاست کے باغیوں سے مذاکرات ختم کر کے ان کے خلاف فیصلہ کن آپریشن شروع کیا جائے۔ دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے فوج کو فری ہینڈ دیا جائے۔فوج کو متنازع بنانے کی سازشیں عالمی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ استحکام پاکستان اور آئی ایس آئی لازم و ملزوم ہیں۔قوم کے محافظ فوجی جوانوں کے حوصلے پست کرنے کی سازشیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

ڈیک ڈیک ڈیک ڈیک ڈیک
واقفان حال کا یہ بھی کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا اور حکومت کے خلاف عوامی نفرت بڑہے گی کیونکہ عوام جن مسائل کا شکار ہے انہیں حکومت ریلیف دے رہی ہے نہ ہی ان کے سلگتے ہوئے مسائل کی طرف توجہ ہے بلکہ بیرون ملک دوروں پر زور ہے اور لوگ ان کی آنیاں جانیاں ہی دیکھ رہے ہیں ۔گیس کی قلت ،بجلی غائب،بھاری بل لوڈ شیڈیگ کی وجہ سے شہر شہر پانی کی قلت ،بیروزگاری اور شدید مہنگائی اوپر سے بجٹ میں نت نئے ٹیکسوں کا متوقع بوجھ،اگر براہ راست اثر پڑے گا تو وہ طبقہ بے چارے عوام کا ہی ہوگا ۔جس ملک میں آلو کی قیمت ستر روپے سے نیچے نہیں لائی جاسکتی وہاں باقی شعبوں کا کیا حال ہوگا ۔ عوامی امنگوں کی ترجمان سمجھی جانے والی قومی اسمبلی میں جہاں ایک عوامی نمائندے کا محض اس لئے مائیک بند کردیا جائے کہ وہ فوج اور آئی ایس آئی کے حق میں بات نہ کرسکے تو پھر عمران خان کا واویلا بے جاء نہیں ہے-

Hanif Lodhi
About the Author: Hanif Lodhi Read More Articles by Hanif Lodhi: 51 Articles with 51214 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.