نو منتخب امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق حلف
امارت اٹھانے کے بعد پہلی بار جب راولپنڈی کے تاریخی میدان لیاقت باغ کے
گیٹ پر پہنچے تو اسلامی جمعیت طلبہ ٗ شباب ملی اور جماعت اسلامی کے کارکنان
نے ان کاجس والہانہ انداز اور پرُ جوش طریقے سے استقبال کیا ۔یہ جذباتی اور
منفرد منظر دیکھ کر سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد (مرحوم
)یاد آ گئے تھے۔تاہم ؛ہم بیٹے کس کے ؟ ٗقاضی کے؛ اور ؛ہم ساتھ چلیں گے ٗ
قاضی کے ؛ نعروں کی جگہ اب ؛مرد مومن ٗمرد حق ۔سراج الحق ٗ سراج الحق ؛کے
نعرے گونج رہے تھے۔سراج الحق جب سٹیج پر پہنچے تو ایک با رپھر لیاقت باغ
میں موجود ہزاروں مرد وں ٗخواتین اور بچوں نے بھی کھڑے ہو کر اور نہایت ہی
پرُ جوش انداز میں ان کا استقبال کیا ۔یہ جماعت اسلامی راولپنڈی کے اجتماع
عام کا متاثر کن اور خوبصورت منظر تھا ۔ جس میں نو منتخب امیر جماعت اسلامی
پاکستان سراج الحق مہمان خصوصی تھے۔لیاقت باغ کے وسیع میدان میں جماعت
اسلامی نے اپنے روایتی نظم و نسق اور تنظیمی اسلوب کا شاندار مظاہرہ کرتے
ہوئے سٹیج اور پنڈال کو نہایت ہی خوبصورتی سے نہ صرف یہ کہ تیار کیا تھا
بلکہ خیر مقدمی بینروں سے سجایا بھی گیا تھا۔یہ سارا کام امیر جماعت اسلامی
ضلع راولپنڈی سجاد احمد عباسی کی قیادت اوررہنمائی میں ان کی ٹیم نے بڑی
محنت سے کیا تھا ۔خاص طور پر ضلعی جنرل سیکرٹری اور ناظم اجتماع راجہ محمد
جواد ٗ نائب امیر شمس الرحمان سواتی ٗسید ارشد فاروق ٗ ملک محمد یعقوب ٗ
شیخ مسعود ٗظفر بھٹی اور انتظامی کمیٹیوں نے دن رات ایک کرکے اپنے ذمے کے
کاموں کو بحسن وخوبی سر انجام دیا تھا۔ حسن انتظام ایک ایک چیز سے جھلکتا
تھا۔ لیاقت باغ کے صدر دروازے سے لے کر سٹیج تک اور سامنے پنڈال میں مردوں
کے علاوہ عقب میں تشریف فرما خواتین اور بچے کسی شورٗ ہنگامے اور دھینگا
مشتی کے بغیر اپنے قائدین اور مقررین کو سننے کے لیے ہمہ تن گوش تھے۔میڈیا
کے دوستوں کے لیے پریس گیلری اور سوشل میڈیا کے لیے الگ سے نشستوں کا
اہتمام کیا گیا تھا۔ جماعت اسلامی کے کارکن مخصوص وردی میں سیکیورٹی کی ذمہ
داریاں بھی خود ہی سنبھا لے ہوئے تھے۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض ناظم اجتماع
اور ضلعی جنرل سیکرٹری راجہ محمد جواد نے ادا کیے۔پروگرام کے دوران
الیکٹرانک ٗ پرنٹ اور سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد میں ریفریشمنٹ
کے لئے خصوصی پیکٹ تقسیم کیے گئے تھے۔ اس موقع پر سٹیج سے ایک ایسے ہونہار
طالب علم کا تعارف کرایا گیا کہ جس نے کیمبرج یونیورسٹی کا آٹھ سو سالہ
ریکارڈ توڑا ہے۔ 9 سالہ رائے حارث منظوراپنے والد محترم کے ساتھ امیر جماعت
اسلامی سراج الحق اور دیگر قائدین کے ساتھ سٹیج پر موجود تھے ۔شرکا نے پر
ُجوش طریقے سے تالیاں بجا کر ننھے طالب علم کا استقبال کیا۔بتایا گیا کہ
خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور سینئر وزیر سراج الحق کے علاوہ
قومی یا صوبائی سطح پر کسی بھی حکومت یاانکے کسی نمائندہ نے پاکستان کا نام
روشن کرنے والے ہونہار طالب علم کی حوصلہ افزائی تک نہیں کی ہے۔افسوس کہ
تعلیم کا فروغ اور ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں
شامل ہی نہیں ہے۔ ان کی ساری سر گرمیاں سستی شہرت اور فوٹو سیشن کے گر د ہی
گھومتی نظر آتی ہیں۔
تلاوت قرآن مجید اور نعت رسول ﷺ کے بعد امیر ضلع راولپنڈی سجاد احمد عباسی
نے خیر مقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے شرکا اور منتظمین کا شکریہ ادا کیا
۔ادارہ معارف اسلامی منصورہ لاہور کے ڈائریکٹر حافظ محمد ادریس نے فکر آخرت
کے موضوع پر پُر مغزاور بصیرت افروز درس قر آن دیا۔سابق ایم پی اے حنیف
محمد چوہدری نے معروف صحافی حامد میر پر حملے کی مذمت اور اس واقعہ کی
اعلیٰ سطح پر تحقیقات کے مطالبے پر مبنی قرارداد پیش کی ۔قائد کشمیر سید
علی گیلانی کے نمائندہ اور تحریک حریت کشمیر کے رہنما غلام محمدصفی نے
اسلامی تحریکوں کی پیش رفت کے عنوان سے مدلل اور فکر انگیز اظہار خیال
کیا۔سابق امیدوار حلقہ این اے 56 رضا احمد شاہ نے راولپنڈی کے عوام کو
درپیش صحت اور صفائی کے مسائل کے بارے میں قرارداد پیش کی ۔نائب امیر جماعت
اسلامی پنجاب میاں محمد اسلم نے پُر جوش انداز میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
آج غریب روٹی کے لیے ترس رہے ہیں اور خود کشیاں کر رہے ہیں۔حکمرانوں کی
ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔جماعت اسلامی کے علاوہ تمام جماعتیں کرپشن میں ڈوبی
ہوئی ہیں ۔گزشتہ تین دہائیوں میں جماعت اسلامی کے 120 سے زائد افراد قومی و
صوبائی اسمبلی اورسینٹ کے علاوہ دیگر اعلی عہدوں پرآئے ہیں ۔الحمد اﷲ کسی
ایک کے دامن پر بھی کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہے۔ سیلاب اور زلزلوں کے موقع
پر لوگ جماعت اسلامی پر اعتماد کرتے ہیں ۔ملکی قیادت کے لیے جب اعتماد کریں
گے تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ عوام کے
پاس پہنچنے کے تمام ذرائع استعمال کریں گے۔لوگوں کی امیدوں کا مرکز بنیں گے
ٗ تو پھر انقلاب اور تبدیلی آئے گی۔ امیر جماعت اسلامی صوبہ پنجاب ڈاکٹر
سید وسیم اختر نے ہم کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں کے موضوع پر خطاب کرتے
ہوئے کہا کہ عوام مہنگائی ٗ بے روز گاری اور انرجی کے بحران کے ہاتھوں سخت
تنگ ہیں۔ ہماری نجات اﷲ کے دین کی طرف لوٹ آ نے میں ہے۔ افسوس کہ نظریہ
پاکستان کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ اسمبلیوں میں پہنچنے والے لوگ
اسلامی نظام کے نفاذ کے حوالے سے کوئی کام نہیں کرتے۔ کرپٹ عناصر مختلف
حیلوں بہانوں سے اور مک مکا کرکے چھوٹ جاتے ہیں۔ ناقص تفتیش اور گواہوں کی
عدم دستیابی کی وجہ سے یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف جیسے لوگوں کے
خلاف مقدمات بھی ختم ہو جائیں گے۔ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ مغرب جو دنیا
کا قائد اور ٹھیکیدار بنا بیٹھا ہے۔اب تو مغرب میں بھی سرمایہ دارانہ نظام
کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔دنیا اﷲ کے دیئے ہوئے نظام سے دور ہے اور اسی
لیے ان نعمتوں سے بھی محروم ہے جو کہ اﷲ کے دین کے نفاذ کے ساتھ مشروط ہیں
۔بعد ازاں نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمان سواتی نے حکومت
کی نجکاری پالیسی کیخلاف قرارداد پیش کی جبکہ راجہ محمد جواد نے اپنی
قرارداد میں لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا ۔اجتماع کی کار روائی کے
دوران وقفے وقفے سے ایک خوبصورت ترانہ ٗ پُر سوز آواز میں کانوں میں رس
گھولتا رہا۔
تبدیلی کے تین نشان
اﷲ ٗ محمد اور قرآن
ان کی رحمت کے سائے میں
جیوے ٗ جیوے پاکستان
امیر جماعت اسلامی سراج الحق پُر جوش نعروں اور خیرمقدمی تالیوں کی گونج
میں خطاب کے لیے آئے تو خاصی دیر تک اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان نعرہ
تکبیر ٗ اﷲ اکبر ۔ رہبر و رہنماء ٗ مصطفے ﷺ ٗ مصطفے ﷺ۔پاکستان کا مطلب کیا
؟ ٗ لا الہ الا اﷲ ۔انقلاب ٗانقلاب ٗ اسلامی انقلاب۔ویلکم ٗ ویلکم ٗ۔مرد
مومن ٗ مرد حق ٗ سراج الحق ٗ سراج الحق ۔میری جان ٗ جماعت اسلامی ۔کردار
جماعت اسلامی ٗ سالار جماعت اسلامی ٗقانون بھی ہوگا اسلامی ٗ دستور بھی
ہوگا اسلامی ٗکے فلک شگاف نعرے لگاتے رہے۔ سراج الحق نے راولپنڈی کی جماعت
اسلامی کے عہدیداران اور منتظمین کی محنت اور کاوشوں کو سراہااور کامیاب
اجتماع عام پر مبارکباد دی۔خاص طور پر عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد میں
شرکت کو خوش آئندقرار دیااور کہاکہ بچے تو پھُول ہیں ۔ اﷲ کے رسول ﷺ بچوں
سے بہت پیار کرتے تھے۔ انہوں نے نو سالہ رائے حارث منظور کا تذکرہ بھی کیا
اور کہا کہ اس ننھے پاکستانی طالب علم نے آ ٹھ سو سالہ ریکارڈ توڑا ہے۔اس
میں ان کی والدہ کا اہم حصہ ہے ٗ جس نے حارث کو دودھ پلایا اورساتھ ہی
اخلاق اور علم بھی سکھایا۔ حارث اسلامی سکالر بھی بننا چاہتا ہے۔ سراج الحق
نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے۔ہر طرح کی دولت سے
مالا مال ہے۔چار موسم ہیں۔ فاٹا ٗ گلگت ٗ بلتستان اور کشمیر زبر دست دفاعی
لائن ہیں۔قدرت نے ہر طرح کے خزانوں سے نوازا ہے۔پہاڑ ٗ دریا ٗ کھیت
اورزراعت ہے۔ کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ پھر بھی غربت اور بے روزگاری ہے۔ ہم
عالمی بنک کے مقروض ہیں۔55 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔انسان مریخ پر جا رہا
ہے اور ہمارے پھول جیسے بچے گندگی میں سے رزق تلاش کرتے اور برتن دھوتے
ہیں۔پانچ دریا ہیں۔پھر لوڈ شیڈنگ کیوں ہے؟ ۔صلاحیت ہے تو پھر بے روز گاری
کیوں ہے ؟۔انہوں نے کہا کہ 9 اپریل 2014 ء کو حلف امارت اٹھایا۔لوگوں نے
جماعت اسلامی کو خراج تحسین پیش کیا کہ جما عت ا سلامی حقیقی جمہوری پارٹی
ہے۔ہمیں اﷲ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ہم پاکستان میں خلافت کا نام چاہتے
ہیں۔ہمارے لیے لندن یا واشنگٹن نہیں بلکہ مدینے کی ریاست ماڈل ہے۔میں وہ
نظام دیکھنا چاہتا ہوں کہ جب وقت کا حکمران رات کو لوگوں کے حالات معلوم
کرنے کے لیے دورے کرے۔آئین میں اسلام کو سرکاری مذہب تسلیم کیا گیا ہے تو
پھر بادشاہ حقیقی کا نظام تو ماننا ہوگا۔ہم آئین کی بالادستی اور قانون کی
حکمرانی چاہتے ہیں۔چوکیدارٗمزدور اور پرویز مشرف کے لیے ایک جیسا قانون
ہو۔مشرف کو سیاسی بیماری ہے۔ عدالتوں کی بے بسی پر افسوس ہے۔میں بجلی کا دو
سو کا بل نہ دوں تو میرا میٹر کاٹ دیا جاتا ہے۔غریب اور مالدار کے لیے ایک
قانون چاہتے ہیں۔ہم جب اسلام کانام لیتے ہیں تو ایک طبقہ پر لرزہ طاری ہو
جاتا ہے۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بار بار عوام سے وعدہ کیا
تھا کہ پاکستان کا قانون اسلامی ہوگا۔میں قائد اعظم کے پاکستان کو اسلامی
ریاست بنانے کی جدوجہد کروں گا۔علامہ اقبال ؒ اور سید مودودی ؒ ملک کے فکری
رہنما تھے۔جب بھی طالع آزماؤں نے ملک کو اس کی نظریاتی ڈگر سے ہٹانے کی
کوشش کی تو جماعت اسلامی نے مزاحمت کی ہے۔
سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی فرقوں کی نہیں اسلام اور پاکستان کی
نمائندگی کرتی ہے۔اﷲ کی دھرتی پر اﷲ کا نظام چاہتی ہے ۔ آئین میں اسلامی
دفعات کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔عوام نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہے ۔ اب اس
جدوجہد کو تیز کرنا ہے۔ ملک کو سیکولر بنانے والے احمقوں کی جنت میں رہتے
ہیں۔یہ ملک اسلامی بنے گا۔شہدا نے سیکولرازم کے لیے قربانیاں نہیں دی تھیں
۔ اﷲ کے دین کے لیے قربانیاں دی تھیں۔آج لوگ اﷲ کے دین اور نبیﷺ کی حرمت پر
کٹ مرنے کے لیے تیار ہیں ٗیہی ہماری کامیابی ہے۔ یہاں ووٹروں کویرغمال
بنایا گیا ہے۔سیاسی اور معاشی دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔اﷲ کی بندگی
اور رسول ﷺ کی محبت و اطاعت کے جذبہ سے سرشار مسلمانوں کا مقابلہ کوئی نہیں
کر سکتا۔ ملک کو دولت پرستی ٗفرقہ پرستی اور سرمایہ دارپرستی سے پاک کرنا
ہوگا۔ اگر عوام اُٹھ کھڑ ے ہوں تو پھر ووٹوں کا سیلاب آئے گا۔پانچ فیصد نے
پچانوے فیصد پر قبضہ کر رکھا ہے۔جو کہ عوام کو اپنا غلام سمجھتا ہے۔عوام کے
ساتھ کیڑے مکوڑوں جیساسلوک کرتے ہیں۔انہوں نے انگریز کی خدمت کی اور
جاگیریں حاصل کیں۔بنکوں سے قر ضے لیے ٗبچے باہر پڑ ھتے اور اعلیٰ عہدوں پر
فائز ہیں۔بیوروکریسی اور سیاست پر ان کا قبضہ ہے۔پولیس اور ایجنسیاں بھی
ایسے ہی شرفا ء کو تحفظ دیتی ہیں۔ ایسے لوگوں کا بہت جلد احتساب ہوگا۔جب
ڈالر اوپر چڑھتا ہے توبھی ان کے وارے نیارے اور جب نیچے آتا ہے تو بھی ان
کے وارے نیار ے ہوتے ہیں۔یہ طبقات خود ایک مسئلہ ہیں۔ان سے حرام دولت لینی
چاہیے تا کہ یہ جہنم میں نہ جائیں۔بروفین سے کینسر کا علاج کیا جاتا ہے جب
کہ یہ خود کینسر ہیں ٗ ان کا خاتمہ ضروری ہے۔ غریبوں پر تعلیم ٗانصاف اور
تھانے کے دروازے بند ہیں ۔عوام کو ایک بڑی سیاسی جدو جہد کے لیے آگے آنا ہو
گا۔ ہمارے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جاتا۔
پہلے ملک کے مظلوم عوام کو نجات دلانا ہوگا ۔سراج الحق نے اقلیتوں کا ذکر
کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتیں بھی اسی طرح شہری ہیں۔وسائل پر ان کا بھی حق ہے۔
انہیں ہم غیر مسلم برادری بھی کہہ سکتے ہیں۔ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ
غیر مسلم بھی یہاں خوش ہیں۔انہوں نے خواتین کے بارے میں کہا کہ خواتین
جماعت اسلامی کا ہراول دستہ ہیں۔ہر گھر میں خواتین ہی بچوں کی پرورش اور
کچن سمیت گھر کے سارے کام کرتی ہیں۔خواتین کو اسلام نے جو حقوق دیے ہیں ٗ
ہم ان کو دیں گے۔خواتین گھر کی ملکہ بنیں گی۔خواتین کے لیے آئیڈیل حضرت
عائشہ صدیقہ اور بی بی فاطمہ ہیں۔میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ ملک کو ظلم
سے نجات دلانے کے لیے ہماراساتھ دیں۔ جمہوریت کی جڑیں اس وقت تک مضبوط نہیں
ہو سکتیں ٗ جب تک کہ یہاں آئین اور قانون کو بالا دست نہ کیا جائے ۔تمام
ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں تو کوئی مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔
حامد میر کو زخمی کیا گیا ہے۔اسی لیاقت باغ میں پہلے وزیر اعظم لیاقت علی
خان اور بے نظیر بھٹوکو قتل کیا گیا۔ان کا کوئی قاتل پکڑا نہیں گیا۔ہم ملک
میں امن کے لیے مذاکرات کی حمایت کر رہے ہیں۔مستقل جنگ بندی چاہتے ہیں
۔دلیل کا جوب دلیل سے دیں ٗ گولی سے نہیں۔ آپ لوگ مجھ سے وعدہ کریں کہ آپ
سب نے ظلم ٗ مہنگائی ٗ غربت اور شیطانی نظام کے خلاف جہاد کرنا ہے۔ |