جیو کہانی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہمارے ہاں ایک ٹی وی چینل لگا کرتا تھا ''جیو نیوز''۔ بہت ہی محب وطن چینل ہوا کرتا تھا۔ کبھی ملی وحدت سے سرشار نور جہاں کے نغمے سنایا کرتا، کبھی ''الف بے پہ'' یقین کے ذریعئے علم کی شمعیں جلاتا، کبھی ''چل پڑھا'' کے ذریعئے تعلیم عام کرتا، کبھی ''ذرا سوچیئے'' کے ذریعے شعور دیتا، کبھی ''پاکستان آئیڈل'' دکھا کر مہذب اور ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا درس دیتا، کبھی بھارتی ڈرامے دکھا کر اپنی ثقافت پہ ناز کرنا سکھاتا، کبھی ''آپس کی بات'' بتا کر آگاہی فراہم کرتا، ٹکے ٹکے کی خبر کے ٹکرز چلانا، اور ''پڑھنے لکھنے کے سوا پاکستان کا مطلب کیا؟'' کا کلمہ ایجاد کرنا بھی چینل کے نا قابل فراموش کارناموں میں سے ہے۔ پھر اچانک ایک دن ''جیو نیوز'' نے ایک ''جیو کہانی'' چلائی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ چینل غدار ابن غدار ابن غدار بن گیا اور چینل کی نشریات بھی بند کردی گئیں۔ میرے سمجھ نہی آرہا تھا کہ آخر یہ ''جیو کہانی'' ہے کیا۔ ''جیو کہانی'' معلوم کرنے میں اپنے ایک ''استاد'' کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے ایک اور قصہ سنا ڈالا۔

ایک اور دفعہ کا ذکر ہے ہمارے دو دوست ہوا کرتے تھے ''امریکہ'' اور ''نیٹو'' دونو بچپن سے ہی نہائیت شریف، ایماندار، اور مخلص ہوا کرتے تھے۔ ہر ایک کے دکھ درد میں شامل ہوتے اور مصیبت کے وقت ہر ایک کی ''امداد'' کرتے۔ پھر ہوا کچھ یوں کہ ہمارے ''پڑوسی'' ''گندے بچے'' بن گئے تو ''امریکہ'' اور ''نیٹو'' نے ہم سے کہا آؤ ''گندے بچوں'' سے جنگ کریں۔ پہلے تو ہم نے صاف منع کردیا مگر جب ''امریکہ'' نے ہمیں معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا تو ہم نے حامی بھرلی اور ''امریکہ'' کے آگے لیٹ گئے۔ ہم نے ''امریکہ'' اور ''نیٹو'' کو اپنے گھر رہائیش بھی دی اور کھانا پینا بھی۔ ''امریکہ'' نے ہمیں گھوڑی بنایا اور ''نیٹو'' کو لے کر ہماری پڈی پر چڑھ گیا اور ''گندے بچوں'' کے گھر پتھر مارنے لگا جس سے گندے بچوں کے برتن شیشے اور دیگر سامان ٹوٹنے لگا۔ ''گندے بچوں'' نے جوابی پتھر مارے تو ہمارے گھر کا ساز و سامان بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگا۔ ہم مزے سے دونو جانب کے پتھر بھی کھا رہے تھے، اپنا گھر کباڑ کی دکان بنتے بھی دیکھ رہے تھے اور ''اف'' بھی نہی کر رہے تھے کہ اچانک ''نیٹو'' کا ایک زوردار پتھر ہمارے ''سلالے'' پر آکہ لگ گیا، بس پٌھر کیا تھا ہم اپنے مخلص دوستو سے ناراض ہوگئے اور ان کا کھانا پینا بھی بند کردیا۔

میں نے انکل سے سوال کیا: لیکن انکل ہم تو کافی دیر سے دونو جانب کے پتھر کھارہے تھے اور اپنا گھر بھی ملیا میٹ ہوتے دیکھ رہے تھے پھر اچانک اتنا غصہ کیوں آیا؟

انکل: بیٹا کیوں کہ اس بار پتھر ''حساس حصے'' کو لگا تھا جس سے ہمارا ''وقار'' مجروح ہوگیا تھا۔

اب سمجھ آئی ''جیو کہانی''
رضی اللہ خان
About the Author: رضی اللہ خان Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.