پاکستان کے قیام کوآج 67سال گزرچکے ہیں ان 67سالوں میں
قیام پاکستان کے مقاصد اورجوخواب دیکھے تھے وہ پورے نہیں ہوئے ہیں اور نہ
ہی قوموں کی دنیا میں بطورقوم اپنی شناخت کروانے میں کامیاب ہوئے ہیں
پاکستان کی زندگی کا ہرگزرتا دن اپنے پیچھے ان گنت مسائل اورمشکلات چھوڑتا
چلاگیا ہے ہمارا ماضی تلخیوں اورشرمناک تاریخی غلطیوں اورواقعات سے عبارت
ہے ہم بطورپاکستانی شہری اپنے ماضی پرفخرکی بجائے شرمندہ ہوتے ہیں نئی نسل
اورنوجوان طبقات کیلئے پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسا سبق نہیں ہے کہ اس
کوبنیاد بناکرنئی نسل اورنوجوان طبقات اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرسکیں
بلکہ نئی نسل اورنوجوان طبقات کومنصوبہ بندی کے تحت معاشرے کامتحرک اورفعال
رکن نہیں بننے دیاگیا ہے نوجوانوں کی ذہانت کوضائع کرنے اوران کی سوچوں
کومفلوج کرنے کیلئے تمام ترحربے استعمال کئے گئے ہیں نوجوانوں کاکتاب سے
رشتہ توڑ کراسے کرکٹ کے سحرمیں مبتلا کردیا گیا ہے کرکٹ کے سحرکونوجوانوں
کے اذہان میں بسانے کیلئے اربوں ڈالرکی سرمایہ کی جارہی ہے کرکٹ کے
کھلاڑیوں کوضرورت سے زیادہ میڈیا کوریج دی جاتی ہے اوران کواس قدرمعاوضے
دئیے جاتے ہیں تا کہ ان کی زندگی اورلائف سٹائل نوجوان طبقات کا آئیڈیل بن
جائے اورنوجوان سیاسی لیڈر،ڈاکٹر، انجینئریاسائنسدان بننے کی بجائے کھلاڑی
بننے کوترجیح دیں کوئی کرکٹر چھکاچوکا لگادیتاہے تواس کی جھولی کروڑوں
ڈالروں سے بھردی جاتی ہے تاکہ نوجوان کے اندریہ بات غیرمحسوس طریقے سے
پیداکی جائے کہ کھلاڑی بن کردولت، شہرت اورعزت جلدی اورآسان کمائی جاسکتی
ہے فلموں ،ڈراموں کے ذریعے بھی نوجوانوں کوسیاست اوراعلیٰ مقاصد سے ہٹانے
کی منظم سازش کی جارہی ہے آج کانوجوان سیاست سے نفرت کرتا ہے مذہبی رحجان
سے عاری ہے سیاسی جگادروں اورملکی وسائل پرقابض قوتوں کوآج نوجوانوں سے
کوئی خوف نہیں ہے لیکن پھربھی وسائل پرقابض قوتیں وہ کوشش جاری رکھے ہوئے
ہیں کہ نوجوان آگے بڑھنے کے قابل نہ رہیں اورنہ وہ آگے بڑھیں سیاست اورملکی
نظم ونسق چلانا صرف انہیں کاہی حق ہے طلباء یونین پرپابندی ،حصول تعلیم کے
راستے محدود کردیئے ہیں تعلیم اس قدر مہنگی کردی گئی ہے کہ عام نوجوان
اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ہے اسمبلیوں میں آنے
کیلئے پہلے بی اے کی شرائط عائد کی گئی اورانتخابی اخراجات کواس قدربڑھادیا
کہ عام آدمی الیکشن لڑنے کا خیال بھی دل میں نہیں لاسکتا ہے آج کے نوجوان
کے پاس کہنے کوکچھ بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ بہت کچھ کہتا ہے نوجوان بڑے
فلسفانہ طریقے سے کرکٹ اورکھلاڑیوں پرتبصرے کرتے ہوئے ملتے ہیں ،فلموں
اورفلمی لوگوں پربحثیں ہوتی ہیں لیکن وہ اپنے گھر ،اپنے شہراپنے اردگرد
اورملکی مسائل کے حوالے سے قطعی لاتعلق ہیں اوربعض ڈگری ہولڈریا چندمعلومات
رکھنے والے نوجوان اس طرح بات چیت کرتے ہیں کہ جیسے بڑے عالم فاضل ہولیکن
اس قدر بے سروپا اورایسے خیالات کااظہارکرتے ہیں کہ جن کاکوئی سرپیرنہیں
ہوتا ہے اوراپنی بات خواہ مخواہ منوانے پرتلے ہوئے ہوتے ہیں یہ صورتحال ان
کی معصومیت پردلالت کرتی ہے کیونکہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں اوران کے اندر
ایک شعلہ جوالہ ہوتا ہے لیکن وہ حالات کی ستم گری کے باعث اپنی بات کومعقول
اورباوقاربنانے کیلئے مطالعہ نہیں کرپاتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی
ایسے ذرائع ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی راہنمائی کرے کہ وہ کیا پڑھیں اورکیا نہ
پڑھیں اسی ہی صورتحال کے بعدمیں ان کا رحجان بن جاتی ہے وہ کچھ پڑھے
اورجانے بغیر ہی خود کواہل علم باخبر اورباشعورثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں
اوربات بات میں ٹانگ اڑانا ان کی عادت ثانیہ بن کررہ جاتی ہے اوربدقسمتی سے
ٹی وی پروگرام ،اخبارات میں چھپنے والا زیادہ ترمواد تنقید،گالم گلوچ
اورمنصوعی ہوتا ہے علمی اورفکری حوالے سے بہت کم مواد ٹی وی پروگراموں
اوراخبارات میں ملتا ہے نوجوانوں کا مذہبی، سیاسی اورسماجی استحصال سوچے
سمجھے منصوبے کے تحت جاری ہے سیاسی ومذہبی جماعتیں نوجوانوں کی تعلیم
وتربیت کی بجائے انہیں ایندھن کے طورپراستعمال کرتی ہیں جس سے نوجوان طبقات
کی ذہنی صلاحیتیں مزید سلب ہوتی ہیں نوجوان سچائی کی تلاش کے بجائے عقیدتوں
اورجذباتی لگاؤ کاشکارہوکراپنا آپ لٹاتے رہتے ہیں حالانکہ دنیا کی تاریخ
اٹھاکردیکھیں توکامیاب قوم کی کامیابیوں میں اس قوم کے نوجوانوں کاکردار
اہم اورکلیدی نظرآتا ہے اورنوجوانوں میں ہی وہ قوت اورجذبہ کارفرماہوتا ہے
کہ وہ مقاصد کے حصول کیلئے بڑی سے بڑی مشکلات اوردشواریوں کوروندتے ہوئے
اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں 67سال گزرنے کے باوجود بھی پاکستان ایک مضبوط
اورطاقتورملک اس لئے نہ بن سکا کہ سامراجی قوتوں کے آلہ کاروں نے ہمارے
نوجوانوں کی قوتوں کوراہ منزل سے ہٹا کرضائع کردیا اوروہ مسلسل نوجوانوں کے
اعلیٰ اذہان کوپستی میں بدلنے کیلئے کوشاں ہیں اب یہ نوجوانو ں پرذمہ داری
عائد ہوتی ہے کہ وہ سامراجی ایجنٹوں اوراستحصالی قوتوں کے بچھائے ہوئے جال
سے نکلیں اور غیرت حمیت خود میں پیداکریں اورخود کوتیارکریں کہ انہوں نے
قیام پاکستان کے مقاصد کی منزل حاصل کرنا ہے اورپاکستان کوسیاسی جگادروں
سامراجی دلالوں اوراستحصالی قوت سے آزاد کرانا ہے اورقومی آزادی کی جنگ جیت
کرپاکستان اورقوم کوایک آبرومندانہ فتح مندانجام تک پہنچاکرکامیاب قوموں کی
صف میں باوقارطریقے سے کھڑا کرناہے اوریہ کارہانے نمایاں صرف اورصرف نوجوان
نسل ہی انجام دے سکتی ہے انہیں اپنے ہونے کاثبوت دینا ہے اوراپنی ذمہ
داریوں کااحساس کرنا ہے اوریہ تب ہی ممکن ہوگا جب نوجوان نسل فرسودہ رسومات
اورروایتوں اورنظام سے بغاوت کرتے ہوئے خود کوعلم وآگہی کے ہتھیاروں سے
مسلح کریں گے کیونکہ کوئی بھی جنگ اس وقت تک نہیں جیتی جاسکتی ہے جب تک اس
جنگ کے سپاہی نظریات کے ہتھیاروں سے مسلح نہ ہوآج ہم اپنی نظریاتی جنگ
ہارچکے ہیں اور ہماری نظریاتی سرحدیں ٹوٹ پھوٹ کاشکارہیں جس کے باعث آج
نوجوان طبقات علمی اورفکری انحطاط کاشکار ہوکراپنی نظریاتی سرحدوں کواپنے
ہی پاؤں تلے روند رہے ہیں لیکن انہیں اس بات کابھی احساس نہیں ہے کیوں کہ
اغیارنے سب سے پہلے توان کایہی احساس چھینا ہے نوجوان طبقات کواپنی اصل کی
طرف آنا ہوگا اورانہیں سچائی کی تلاش کرنا ہوگی اوراپنی تقدیرکے فیصلوں
کواپنے ہاتھ میں لینا ہوگا وگرنہ بے روزگاری ہمارا مقدررہے گی بے یقینی ،
بے چینی ، فساد، خودکش دھماکے اورلڑائیاں ختم نہیں ہونگی استحصال جاری رہے
گا سیاست امیروں کے گھرکی لونڈی رہے گی اورحکومت کرنے کاحق بھی صرف
چندخاندانوں کی میراث بن کررہ جائے گا آج بلاول زرداری توکل حسن نوازہوگا
کبھی کسی محنت کش کابیٹا ایم پی اے بننے کاخواب بھی نہیں دیکھ سکے گا ہمیں
خواب خرگوش سے جاگنا ہوگا اسی میں ہماری بقا ہے اگرنوجوانوں نے اپنے قدم نہ
بڑھائے اوراپنی سوچوں پرچڑھے جذبات اورمصنوعی خیالات کے جالے نہ ہٹائے
توپھراگلے67سال بھی میں ہمیں ماضی کے جیسے نتائج بھگتنا پڑیں گے اورہماری
پستیوں اورکمزوریوں پردولت کے پجاری سیاست کریں گے اورہماری لاشوں پرسے
گزرکراقتدار کے ایوانوں میں جائیں گے اورہمارے ہی خون پیسنے کی کمائی
اورہماری ایک ایک نس سے خون نچوڑ کراپنے بنک بیلنس بڑھائیں گے اوراپنے بچوں
کی عیاشیوں کیلئے سامان عیش وعشرت خریدیں اوربڑے بڑے محل تعمیرکریں گے جن
کی ایک ایک انیٹ میں ہماری نسلوں کا خون جما ہوگا۔ |