مفادپرستی اوراین الوقتی کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے قوم
کے فرد کی حیثیت سے کچھ اصول وضوابط ہوتے ہیں،معاشرے کا ایک رکن ہوتے ہوئے
انسان پر کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہے اور اس کے کچھ فرائض ہوتے ہیں،یہ عجیب
وغریب لگتا ہے کہ کوئی ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی سمت بدل لے یاچھوٹے چھوٹے
مفادات اور وقتی فائدے کیلئے خود کو نیلامی کیلئے پیش کرے اور اپنے ہاتھ سے
اپنا اشتہار بنوا کر چوراہوں پر لگا دے کہ میں چندٹکوں پر بُک گیاہوا اور
میرے کوئی اصول نہیں ہے اور نہ میرے نزدیک کسی ملک وقومی معاملے کی کوئی
اہمیت ہے اور ضمیروفروشی ہی میرا پیشہ ہے اور میں ایک ٹکے ٹکے پر بکنے والی
شے ہوں انسان نام کی میرے اندر کو ئی خصلت موجود نہیں ہے۔وقتی مفاد اور
سستی شہرت کے حصول کیلئے میں کسی کو بھی اپنا باپ کہہ سکتا ہوں اس کیلئے بے
شک کوئی گدھا ہی کیوں نا ہو میری آنکھوں پر لالچ اور خود غرضی کی پٹی بندھی
ہوتی ہے نہ میں اہل بصیرت ہوں اور نہ اہل عقل ہوں کرسی اقتدار پر کوئی ڈاکو
ہو یا چور ہو ملکی آئین توڑنے والا ہو یا ملکی مفادات کیخلاف غداری کرنے
والا ہو مجھے بس جی حضوری کرنی ہے اور اس کی خوشامداور چاپلوسی ہی میرا
مقصد حیات ہے۔ایسے ہی لوگوں کی طرف سے بے حیاتی،بے شرمی اور بے غیرتی کے
مظاہرے اس وقت بہتات کے ساتھ دیکھنے کوملے جب ایک عوام کی منتخب کردہ
جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اور پاکستان کا آئین روندکر ایک ڈکٹیٹرملک
وقوم کی تقدیر کا مالک بن گیا،خود غرض،چاپلوسی،خوشامدی،این الوقت اور وقتی
مفاد اور چھوٹے چھوٹے فائدوں کیلئے بکنے والوں نے اپنی نیلامی کے اشتہارات
اہم شاہراوں اور چوراہوں پر مشرف لورز،مشرف حمایت تحریک افواج پاکستان
حمایت تحریک،پرویزمشرف فاؤنڈیشن،مشرف لورزکونسل،مشرف لورزفورم کے ناموں پر
آویزاں کئے اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی تصویر وں کو ایک باوردی ڈکٹیٹرکی
تصویروں کے نیچے سجایاگیااخبارات میں اخباری کارکنوں کی منت سماجت کرکے
خبریں چھپائی گئیں،پرویزمشرف کی شان میں قصیدہ گوئی کی گئی،نوازشریف اور
بینظیر بھٹو کی کبھی نہ وطن واپسی پر بلند وبانگ نعرے لگائے گئے اور دونوں
جمہوری قوتوں کو ملک دشمن،قوم دشمن اور جمہورریت دشمن قراردیا گیاملک وقوم
کیلئے پرویزمشرف کو نجات دہندہ قرا ر دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی،کبھی
اسے قائداعظم کے ساتھ تشبیہ دی گئی اور کبھی اسے انقلابی رہنماکا خطاب دینے
کی جسارت کی گئی۔الغرض ان ٹٹ پونجیوں نے پرویزمشرف کی شان میں جو کچھ کہہ
سکتے تھے کہا اوراسے ملک و قوم کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کھلی اجازت دی
گئی،لال مسجد سے وانا اور سوات تک قتل وغارت گری کا لامتناہی سلسلہ شروع
کرنے سمیت بلوچستان کے مظلوم عوام پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑنے کے لائسنس
دئیے گئے،اوکاڑہ کے غریب ہاریوں اور کاشتکاروں کے کیخلاف جبروظلم کیلئے اس
کی پذیرائی کی گئی،عدالتوں کو پاؤں تلے روند دیا گیا غربت کی تعریف بدل دی
گئی کہ جو کبھی کھانا کھالیتاچاہیے وہ اپنا جسم بیچ کرہی کیوں نہ کھاتے وہ
غریب نہیں ہے،زیادتی کا شکار عورتوں کو کاروبار کرنے کا طعنہ بھی ان ہی ابن
الوقت لوگوں کے رہبرنے دیا۔پرویز مشرف کو سرآنکھوں پر بٹھانے والے اور اس
کے گیت گانے والے اور قصیدہ گوئی کرنے والوں میں سے کوئی بھی آج نظر نہیں
آتا ہے وہ دوبارہ اپنے بلوں میں واپس چلے گئے ہیں یانئے روپ میں آج پھر وہ
اشتہار بازی کررہے ہیں لیکن آج ان کے اشتہاروں پر ویزمشرف کی تصویریں نہیں
ہیں آج ان کے اشتہاروں پر بے نظیر بھٹو،آصف علی زرداری اور بلاول کی تصویر
یں سجی ہیں اور خود وہ پھربڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی تصویروں کو بلاول ،آصف
علی زرداری اور بے نظیر بھٹو شہید کی تصویر کے نیچے سجائے ہوئے ہیں معلوم
نہیں یہ لوگ کہا ں سے آتے ہیں اور پھر کہاں چلے جاتے ہیں،پرویزمشرف کے آٹھ
سالہ دور حکومت میں بلاول توبڑی آب تاب کے ساتھ موجود تھے لیکن ان کے لورز
کا کہیں نام ونشان نہیں تھا،آصف علی زرادی صاحب بھی اپنے 11سال جیلوں میں
پورے کررہے ہیں تھے لیکن اس وقت ان کی تصویریں چوراہوں میں لگانے والے
نایاب تھے۔محترمہ بینظیر بھٹو جو آمریت کے خلاف جنگ لڑرہی تھی اور اسی محاذ
پر لڑتے لڑتے شہادت فرماگئی ان کے عقیدت مند اور جانثاراں بھی پاکستان میں
غائب تھے۔نوازشریف لورزاورنواز شریف فورس اور شہباز شریف فورس کے چیئرمین
بھی کہیں نظر نہیں آتے تھے جب جلاوطنی میں دونوں رہنماؤں کو آمریت کے خلاف
لڑنے کیلئے فورسز کی ضرورت تھی اور اب جب انہیں تمام تر فورسز دستیاب ہیں
معلوم نہیں یہ شہبازشریف فورس کے جانباز کہاں سے برآمد ہوگئے ہیں۔
سیاسی گماشتوں کی ایک اورقسم بھی ہے جوفاروڈبلاکوں کی نظرمیں ہمیں نظرآتی
ہے اورجوچڑھتے سورج کودیکھ کراپنا رخ بدل لیتے ہیں،پارٹیاں بدل لیتے ہیں
اورہمیشہ اقتدار سے لطیف اندوزہوتے ہیں ،ایک دن وہ نوازشریف کونکما
سیاستدان قراردے رہے ہوتے ہیں اوردوسرے دن وہی موصوف نوازشریف کوقائداعظم
ثانی کہہ رہے ہوتے ہیں آج کل ٹی وی پرایک خاتون بڑی تواثرکے ساتھ اپنا
اظہارخیال کرتی ہوئی پائی جاتی ہے جو دور آمریت میں وزارت کے مزے اڑا رہی
تھی اورپرویزمشرف کواپناباس اورقائداعظم قراردے رہی تھی آج وہی خاتون اپنی
نئی پارٹی کی پوزیشنوں کا دفاع کرتے ہوئے ہلکان ہورہی ہوتی ہے خاتون کے
بارے میں بعض لوگوں کا گمان ہے کہ وہ بڑی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے حالانکہ اس
کی گفتگو اورخیالات اس سے آگے نظرنہیں آتے ہیں کہ وہ صرف اورصرف مفادکاحصول
مدنظررکھے ہوئے ہے ،ایسی بے شمارخواتین وحضرات ملک پاکستان میں بکثرت پائے
جاتے ہیں اورطاقتوراوربرسراقتدارگروپ اورپارٹیوں میں اپنی جگہیں بدلتے ہوئے
ملتے ہیں یہ لوگ کہاں سے آتے ہیں اورانہیں کون درآمد کرتا ہے یہ سوال تاحال
حل طلب ہے لیکن ایک بات جوسامنے آئی ہے وہ نظریاتی سیاست کافقدان ہے
اورسیاسی پارٹیوں میں سیاسی تربیت اورغیرنظریاتی ماحول ہے جواسے لوگوں
کیلئے نقب کاکام کرتا ہے اگرایسے لوگوں کاراستہ روکنا ہے اورعوام اورپارٹی
کارکن اگرایسے سیاسی گماشتوں سے اپنی پارٹیوں کوبچانا چاہتے ہیں اورعوام سے
ہونیوالے فراڈ کاخاتمہ چاہتے ہیں ،توپارٹیوں میں نظریاتی خلاکوپرکرنا ہوگا
اورسیاسی پارٹیوں میں سیاسی نصاب پڑھانے اورکارکنوں میں ایک خاص نظریاتی
تربیت کا نظام قائم کرنا ہوگا تاکہ ابن الوقت اورمفادپرست سیاسی گماشتے کسی
بھی راستے سے پارٹیوں میں داخل نہ ہونے پائیں اورنقب زنی کاسلسلہ ختم
ہواورایسے سیاسی راہنما اورسیاسی قیادت وجود میں آئے جوملک وقوم کے مسائل
سے آگاہ ہواورسیاسی اصولوں کی کاربندہواورملک اورسیاسی استحکام کی طرف بڑھ
سکے وگرنہ سیاسی گماشتوں کی پیداوارمیں اضافہ ہوگا اورپھرسیاسی قیادت بھی
سیاسی گماشتوں پر ہی مشتمل ہوگی۔ |