ان دنوں سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی بھاری بھرکم رقم
کا معاملہ سر اٹھائے ہوا ہے۔ جمعہ کے روز سوئٹزر لینڈ کے بینکوں سے
پاکستانیوں کے ڈالر واپس لانے کا اعلان کرتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری برائے
خزانہ واقتصادی امور رانا محمد افضل خان نے کہا کہ ”سوئٹزر لینڈ کے گیارہ
بینکوں میںپاکستانی شہریوں کی جانب سے غیر قانونی طور پر رکھے گئے 200 ارب
ڈالر واپس لانے کے سلسلے میں سوئٹزرلینڈ کی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہےں۔
کابینہ کی جانب سے پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان موجودہ ٹیکس معاہدے پر
نظرِ ثانی کی منظوری دی جاچکی ہے۔ اس معاہدے پر دوبارہ غور کرنے کے اقدام
سے ان پاکستانیوں کی نشاندہی ہوگی، جن کی سوئس بینکوں میں غیر قانونی طور
پر رقوم رکھی ہوئی ہیں۔ پاکستانی وفد نام اور اکاﺅنٹ نمبر لینے اور
سوئٹزرلینڈ اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان ٹیکس معاہدے میں ترامیم کے
لیے اگست میں دورہ کرے گا۔ دنیا بھر کے لوگ ٹیکس سے رقم چھپاکر سوئٹزرلینڈ
اور دوسرے ملکوں کے بینکوں میں جمع کراتے ہیں، دنیا بھر کے بینکوں میں یہ
رقم 32ٹریلین ڈالر ہے، جس میں سے صرف سوئس بینکوں میں سات ٹریلین
ڈالر(7000ارب ڈالر) ہے۔ سوئس ونیر کے مطابق ان میں سے 200 ارب ڈالر
پاکستانیوں کا ہے۔ جبکہ دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ نے 63 سیاستدانوں،
بیوروکریٹس اور وکلاءکی بیرون ملک موجود 300 بلین ڈالر رقم وطن واپس لانے
کے لیے دائر درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے 19مئی کے لیے نوٹسز جاری
کیے ہیں۔ درخواست گزار بیرسٹر جاوید اقبال جعفری نے موقف اختیار کیا کہ ملک
کے 63 ممتاز سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور وکلاءنے ملکی دولت لوٹ کر منی
لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کی، جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے
نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر یہ دولت ملک میں واپس لائی جائے تو پاکستان
کو کسی بیرونی قرضے کی ضرورت نہ پڑے اور اس رقم سے ملک کے قرضے اتار کر
قومی معیشت کو ترقی دی جا سکتی ہے۔ اس بات کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ
پاکستان کی اہم شخصیات کے اربوں ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں، جو
غیرقانونی طریقے سے منتقل کیے گئے۔ اس وقت ملک شدید مالی بحران کا شکار ہے،
جس کی وجہ سے ملک میں سرکاری سطح پر کی جانے والی لوٹ مار ہے۔ اس قدر بھاری
پیمانے پر کی جانے والی منی لانڈرنگ کا ازالہ عوام کی جیب پر بوجھ ڈال کر
نہیں کیا جا سکتا۔واضح رہے کہ 1991ءتک پاکستان کو فارن کرنسی اکاﺅنٹ رکھنے
کی اجازت نہیں تھی، لیکن نواز شریف حکومت نے 1992ءمیں اکنامک لبرالائزیشن
اسکیم کے تحت پہلی مرتبہ فارن کرنسی اکاﺅنٹ کھلوانے کی اجازت دی تھی، جس کے
بعد اہم افراد نے پاکستان سے کالادھن سوئس بینکوں میں رکھوانا شروع کر دیا۔
بی ای ای آئی(BEEI) کے سابق صدر اے بی شاہد کے مطابق نواز حکومت کا یہ غلط
فیصلہ تھا، حالانکہ یہ سہولت صرف غیر ملکی تجارت کرنے والوں کو ہی ملنی
چاہیے تھی۔ سابق چیئرمین سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان رضی الرحمن
نے تصدیق کی تھی کہ پاکستانیوں کی سوئس بینکوں میں پڑی رقم اربوں ڈالر میں
ہے اور دو سال قبل ہی ایک رپورٹ کے ذریعے اس بات کا انکشاف ہوگیا تھا کہ
سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالرز کے اکاﺅنٹس ہیں، لیکن ابھی
تک اس کے حوالے سے کوئی حتمی کارروائی نہیں کی جاسکی۔ اقتصادی ماہرین کا
کہنا ہے کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی جانب سے چھپائے گئے تقریباً 200
ارب ڈالر کا بڑا حصہ گزشتہ 15 سال میں ملک سے باہر منتقل ہوا ہے، بدعنوانی
اور ٹیکس چوری اس کالے دھن کا بڑا سبب ہے۔ خیال رہے کہ کالے دھن سے مراد ہر
ایسا پیسہ ہے جو غیر قانونی طریقے سے کمایا جائے۔
تحقیقاتی صحافت کے عالمی کنسوریشم (ICIJ) کی ایک رپورٹ کے مطابق سوئٹزر
لینڈ ایسے لوگوں اور کمپنیوں کے لیے جنت ہے جو ٹیکسوں سے بچنا چاہتے ہیں۔
سوئس بینکس میں اکاونٹ کھولنے کے لیےوہاں جانا ضروری نہیں، صرف خط و کتابت
ہی کافی ہے۔ کرنٹ اور سیونگ اکاﺅنٹس کے علاوہ سوئس بینک نمبر اکاﺅنٹس
کھولنے کے لیے بھی مشہور ہیں۔ ایسے ا کاﺅنٹ میں نام نہیں ہوتا، صرف نمبر یا
کسی پاس ورڈ سے اکاﺅنٹ آپریٹ ہوتا ہے۔ گریٹ کونسل آف جنیوا نے 1713 ءمیں
بینکوں کے لیے رازداری رکھنے کا جو قانون بنایا تھا، وہ سوئٹزرلینڈ میں
تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ نافذ العمل ہے۔ 300 سال پرانے قانون پر عمل درآمد
کی وجہ سے سوئس بینک ہر قسم کے پیسے سے اکاؤنٹ کھول دیتے ہیں اور یہ کسی
اکاﺅنٹ ہولڈر کی تفصیلات کسی کو بتانے کے پابند نہیں ہیں، لیکن سوئس حکومت
ٹیکس چوری کو بڑا جرم تصور کرتی ہے اور اس کے ٹھوس ثبوت فراہم کیے جانے کی
صورت میں اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ سوئس بینکرز ایسوسی
ایشن کے مطابق ورثہ اور طلاق جیسے سول کیسوں، قرضے کی ریکوری اور دیوالیہ
ہونے کے کیس، منی لانڈرنگ، کریمنل تنظیم سے تعلق، چوری اور بلیک میل جیسے
الزامات کے مقدمات کی صورت میں بھی کھاتہ دار کی تفصیلات فراہم کرنا بینک
کی ذمہ داری ہے۔ سوئس قانون کے مطابق سوئس عدالت کی تحقیقات میں جرم دونوں
ملکوں میں قابل سزا ثابت ہو جائے تو ملزم کے اثاثے منجمد کرکے متعلقہ حکومت
کے حوالے کیے جا سکتے ہیں۔ سوئس بینکوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے ہاں گمنام
اکاﺅنٹس نہیں۔ نمبر والے اکاﺅنٹ ہولڈر کو بھی بینک کا کم از کم ایک اہلکار
جانتا ہے۔ سیاستدانوں کے اکاﺅنٹس کھولنے میں بہت احتیاط برتی جاتی ہے اور
مشکوک رقم کی صورت میں انکار کر دیا جاتا ہے۔ سوئس حکومت نے چند سال قبل
سوئس بینکوں تک رسائی کا قانون بنایا تھا۔ یکم اکتوبر 2010 ءکو سوئس
پارلیمنٹ نے تاریخی Return of Illicit Assets Act کی منظوری دی، جس کے تحت
پاکستان سمیت ترقی پزیر ملکوں کو سوئس بینکوں کے خفیہ اکاﺅنٹس تک قانون و
آئینی رسائی اور ایف بی آر حکام و دفتر خارجہ کے اقدامات کے ذریعے ڈبل
ٹیکسیشن گریز کے معاہدہ کی روشنی میں بھی کامیابی کے امکانات روشن ہو سکتے
ہیں۔ سوئس آئین کے آرٹیکل 25 (1) کے تحت خفیہ اکاﺅنٹ کی اطلاعات، اکاﺅنٹ
ہولڈرز کے نام و دستاویزات کے حصول اور ان کے سرکاری طور پر افشاکی راہ میں
کوئی قانونی رکاوٹ بھی نہیں ہو گی، بھارت سوئس حکام سے اس نوعیت کا نہ صرف
معاہدہ کر چکا ہے، بلکہ بھارتی حکومت انڈین بیوروکریٹس، صنعتکاروں، سیاست
دانوں اور سیٹھوں کے تقریباً 1.4 ٹریلین ڈالرکالے دھن کی واپسی کی کوششیں
کر رہی ہے۔حکومت پاکستان غیرقانونی اثاثوں کو واپس لانے کا ایکٹ 2010
(RIAA) سے مدد لینے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے، کیونکہ یہ قانون اجازت
دیتا ہے کہ سوئس حکومت بینکنگ انڈسٹری میں جمع کردہ ناجائز رقوم کے بارے
میں خفیہ معلومات کا تبادلہ کرسکتی ہے، لیکن سوئس قوانین کا فائدہ موجودہ
پاک سوئس ٹیکس معاہدہ میں ترامیم کرکے ہی اٹھایا جاسکتا ہے، کیونکہ موجودہ
دوطرفہ ٹیکس معاہدہ غیرتسلی بخش ہے۔اقتصادی ماہرین کے مطابق ملک کے بیرونی
قرضوں کے مقابلے میں تقریباً 3 گنا زیادہ پیسہ سوئس کھاتوں میں پڑا ہے، اگر
حکومت حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے تو اس کے لیے ضروری ہے پاکستان بھی سوئس
حکومت کے ساتھ بات چیت کو آگے بڑھائے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سوئس بینکوں سے پاکستانی پیسہ لانے کا حکومتی اعلان
بلاشبہ خوش آئند ہے اور اس سمت میں سوئس حکام سے رابطہ، معاہدہ کے حوالے سے
پیش قدمی خلوص نیت اور ملکی معیشت کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ٹھوس قانونی
طریقوں سے ہوئی تو امید کی جا سکتی ہے کہ لوٹی ہوئی رقوم کا یہ شرمناک
ڈرامہ اپنے منطقی انجام تک جلد پہنچ سکتا ہے، اگر 200 ارب ڈالر کی لوٹی
ہوئی رقم مل جائے تو کئی بیمار ادارے اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ایک
طرف عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لیے جاتے رہے، دوسری طرف سوئس بینکوں
میںجمع شدہ رقم کی بازیابی کے ہمہ جہتی دعوﺅں سے آسمان سر پر اٹھا لیا گیا،
مگر رقوم واپس نہیں آئی، اب جب کہ حکومت اس محاذ میں ممکنہ پیشرفت کا عندیہ
دے رہی ہے تو کچھ نہ کچھ ہو کر رہنا چاہیے، ورنہ عوام یہی سمجھیں گے کہ ان
کے دکھوں کا مداوا سوئس بینکوں میں رکھی ہوئی رقوم سے نہیں ہو گا۔ یہ ایک
تلخ حقیقت ہے کہ سوئس بینکوں میں لوٹی ہوئی رقوم پاکستان کے اقتصادی نظام
میں مضمر کرپشن، بد دیانتی، لوٹ کھسوٹ اور کاروباری اور تجارتی معاملات میں
اعلیٰ سطح پر ہونے والی ”ڈیل“ کا شاخسانہ ہے، جس نے ملکی اقتصادی نظام کے
استحکام اور انتظامی و ریاستی اداروں میں موثر چیک اینڈ بیلنس اور مالیاتی
شفافیت کے سارے خواب بکھیر کر رکھ دیے۔ جن سیاست دانوں، سرمایہ داروں اور
بیوروکریٹس نے اتنی دولت وہاں کے بینکوں میں چھپا کر رکھی ہے ،وہ اس بات کی
دلیل ہے کہ قومی وقار، مروت، حیا، قوم پرستانہ جذبات اور ملکی ترقی و عوامی
خوشحالی کے اہداف سے ان طبقات کا کوئی تعلق نہیں، یہ اہل زر اسیر حرص ہیں۔ |