لفظ اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں

لفظ اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں ـــ ــــــــ۔۔۔اب نہ انکی کوئی وقعت ہے نہ قدرو قیمت۔ ایس۔ایم۔ایس اور فیس بک کے اس دور نے اقوالِ زریں ،ارشادات، فرمودات،qoutatios اور sayings کو اس قدر ارزاں اور معمولی کردیا ہے کہ ان میں اور چنگ چی میں کوئی فرق نہیں رہا۔ انکا status اب رولز رائس یا مرسڈیز کا نہیں رہا۔ بلکہ ہر گلی کے نکڑ پر آپ کی ملاقات ایسے دانشور سے ہو جاتی ہے ۔۔۔جو آپ کو اگلی گلی کے نکڑ تک چھوڑنے کے لئے تیار ہوتا ہے خواہ وہ بند ہی کیوں نہ ہو۔

یہ کہنا ذرا زیادتی ہوگی کہ ان qoutatios اور ارشادات میں کوئی اعلـی خیال نہیں پائے جاتے مگر کچھ ایسا ضرور ہے کہ یہ ایک کلک کے ساتھ وارد ہوتے ہیں اور دوسرے کلک کے ساتھ غائب

یعنی اثر انداز ہونے کے لئے ان فرمودات کے پاس سیکنڈز کا بھی دسواں حصہ ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے پسِ پردہ محرک ان پر غور و فکر کرنا یا خدانخواستہ عمل کرنا تو با لکل نہیں ہوتا۔ کیونکہ لکھنے والا تو مہاتما ہوتا ہی ہے پڑھنے والا اس سے بھی زیادہ گیانی ہوتا ہے ، اور اثر ہونے سے پہلے یا تو اسے مسترد کر دیتا ہے یا پھر اس سے بھی اچھوتا خیال ڈھونڈ لیتا یا تخلیق کرلیتا ہے ۔ یعنی ارشادات کی نشوونما کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے -

اقوال کا یہ زرّیں پودا inbox کی پتھریلی سرزمین پر بے ثمر ہی رہ جاتا ہے ۔ بھلے نوجوانوں اور بسا اوقات بوڑھے نوجوانوں سے بھی یہ سوال کرنے کی جسارت کرنے کو جی چاہتا ہے کہ جناب! کیا کبھی کسی مذہبی معلوماتی smsتبادلے سے آپ کو اپنی عاقبت سنوارنے کا بھی خیال آیا ہے یا آپ نے اس صدقہء جاریہ کو پھیلانا ہی کافی جانا ہے ؟ اخلاقی پستی اور معاشرتی نا ہمواریوں کی نشاندہی کے کارِ عظیم کے علاوہ کبھی عملی طور پر رشوت اور سفارش سے منہ موڑا ہے؟ صبر اور برداشت جن کا پرچار ان پیغامات میں سب سے زیادہ کیا جاتا ہے ان پیغامات پر کی جانے والی بحث در بحث پر ہی انکا اطلاق سب سے کم نظر آتا ہے۔

اس خود ساختہ اور بعض اوقات مستعار لئے ہوئے دانشورانہ پن کی خاص بات اپنی رائے پر ڈٹے رہنا ہے خواہ اسکے لئے دوستانہ اور خوشگوار تعلقات کدورت اور رنجش میں ہی کیوں نہ بدل جائیں

لفظوں کی اس بے وقعتی میں ہم سب حصہ دار ہیں ۔وہ متاعِ بے بہا جس نے انسانوں اور حیوانوں میں فرق کیا آج ٹیکنالوجی کے بہاؤ میں بے طرح ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور ہمارا کوئی کلک، لائک، شیئر اسے بچا نہ پائے گا کہ ہمیں انکی روح تک رسائی ہی حاصل نہیں ۔۔۔۔ اب تو ــ’ بات سمجھ میں آگئی ‘ بھی مشکوک ہے۔

Aneela Shakeel
About the Author: Aneela Shakeel Read More Articles by Aneela Shakeel: 10 Articles with 20060 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.