یہ ایک عجیب عروضی حقیقت ہے کہ آنکھیں اور ٹانگیں
ہم وزن واقع ہوئی ہیں۔دونوں کا وزن ـ ـ فاعلنـــــ ہے۔دونوں میں حروف بھی
ایک جیسے یا قریب قریب ہیں:جیسا کہ ا،ن،ی؛ک،گ،ھ۔دونوں میں جو چیزسب سے
زیادہ حیرت گم کرنے والی ہے وہ ــ نـ ــــکا ایسا انداز ہے کہ جیسے کوئی
شکاری اپنے شکار کو تاکتا ہے، یا کسی کا انتظار ہو رہا ہو، یا کوئی نادرچیز
ملنے والی ہو۔
آ اور ٹا سے ایسے لگتے ہیں جیسے کوئی پہرے دار کھڑے ہوں ،یا کوئی کیل کانٹے
سے لیس ہو کر کسی سے اپنا بدلہ لینے کی قسم کھائے بیٹھا ہو، یا کوئی اپنے
قرض دار کی راہ دیکھ رہا ہو۔مذید یہ کہ اگر ہم آ اور ٹا کو اکٹھا کر دیں تو
لفظ آٹا تخلیق ہوتا ہے۔ آ ٹا رنگت میں سفید ہوتا ہے ،اور سفید رنگ ہر کسی
کو پسند آتا ہے سوائے بالوں میں۔ گورا رنگ تو مشرق میں قیامت کی نشانی سے
کم نہیں ہے کیونکہ گورے رنگ پے مرنے کو ہر کسی کا دل کرتا ہے اور مرنا ہی
تو قیامت ہے۔گورا رنگ تباہی و بربادی لاتا ہے دل کی دنیا میں اور یہی کام
قیامت سرانجام دیتی ہے۔آٹا بھوک مٹاتا ہے،یہی کام حسن بھی کرتا ہے۔ یہ ایک
حقیقت ہے کہ حسن اکژوبیشتر گورے رنگ میں ہی جلوہ افروز ہوتا ہے۔اگرچہ بلیک
بیوٹی سے بھی کسی کو انکار نہیں ہے۔اب ہم آنکھیں اور ٹانگیں کے آخری حصے پر
غور کرتے ہیں:ی اور ں کی آمیزش سے بننے والا یہ صوتیہ ایسے لگتا ہے جیسے
کوئی چوپایہ کھڑا ہو،یا چوپائے کی پچھلی ٹانگیں دیکھی جا رہی ہوں۔
آنکھوں اور ٹانگوں کے درمیان کوئی مقناطیسی تعلق محسوس ہوتا ہے کیونکہ
آنکھیں خود بخود ٹانگوں کی طرف کھینچ جاتی ہیں۔مشرق اور مغرب کی بہت سی
اختلافی باتوں میں سے ایک آنکھوں اور ٹانگوں کی اس مقناطیسیت کا فرق بھی
ہے۔مغرب کی آنکھوں کا آئرن ٹانگوں کی مقناطیسیت کا شکار ہو ہو کر اپنی ہستی
فنا کر چکا ہے جبکہ ٹانگوں کی مقناطیسیت اپنا لوہا منوا چکی ہے۔مغرب میں
آنکھیں خود ہی سر نگوں ہو چکی ہیں جبکہ ٹانگیں بدستور دندناتی پھر رہی
ہیں۔مغربی مناظر دیکھ کے ایسا لگتا ہے جیسے ٹانگیں مہذب دہشت گردی کر رہی
ہوں اور آنکھیں سراپا شرافت کی نمائندگی کر رہی ہوں۔
مشرق میں ابھی یہ معاملہ مغرب سے الٹ ہے: یہاں لگتا ہے کہ آنکھوں کا لوہا،
ٹانگوں کے مقناطیس کو للکار رہا ہو لیکن ٹانگوں کا مقناطیس اپنے آپ کو کسی
مناسب وقت کے انتظار میں چھپائے جا رہا ہو۔یہاں ابھی سماجی، معاشی،
سیاسی،اخلاقی اور مذہبی اقدار نے ٹانگوں کو من مانی کرنے کی اجازت نہیں
دی۔اب مغرب کی دیکھا دیکھی ٹانگوں نے اپنا آپ دیکھانے کی کوششیں ضرور شروع
کر دی ہیں۔ٹائٹ پاجاماز نے اپنے پاؤں جمانے شروع کر دیئے ہیں۔یہ ڈرتا ڈرتا
گھر سے نکلتا ہے:اپنی حفاظت کے لیے اپنے اوپر لمبا سا قمیض ضرور اوڑھے ہوئے
ہوتا ہے۔اتنے ڈر کے باوجود ہر طرف دیکھا جا سکتا ہے۔اس بات کی قوی امید ہے
کہ کچھ وقت کے بعد اس کا سارا ڈر اور جھاکا اتر چکا ہو گا اور پھر اسے اپنی
حفاظت کے لیے لمبے پاجامے کی مجبوری ختم ہو جائے گی۔یہ وہ وقت ہو گا جب
ٹانگوں کا مقناطیس ، ا ٓنکھوں کے لوہے کے مدِمقابل آچکا ہو گا۔کچھ عرصہ
برابر کا جوڑ چلے گا اور پھر فتح مقناطیس ہی کی ہو گی جیسا کہ مغرب میں ہو
بھی چکی ہے۔
آنکھوں کی اس عبرتناک شکست کے بعد مشرق میں بھی ٹانگوں کو اپنے مکمل اظہار
کی مکمل آزادی ہو گی۔مغرب کی طرح،یہاں بھی ٹانگیں دندناتی پھریں گی اور آ
نکھیں اپنے آپ کو جھکائے رکھنا اپنا اخلاقی فریضہ سمجھیں گی۔ |