کل 9 مر حلوں میں منعقد ہونے والا ہندوستان کی تاریخ کا
طویل ترین مدتی انتخاب اب منزل کے قریب پہونچ گیا ہے۔ آخری مرحلہ 12 مئی کو
منعقد ہورہا ہے۔ اس مرحلے میں تین ریاستوں کی 41 نشستوں پر انتخاب ہونا ہے
جس میں اتر پردیش کی 18 نشستیں بنگال کی 17 نشستیں اور بہار کی 6 نشستیں
شامل ہیں۔ اس آخری مرحلے کی 41 سیٹوں میں وارانسی بھی شامل ہے جو شروع سے
ہی کنیا کماری سے لیکر کشمیر تک اور آسام سے لیکر گجرات تک کی عوام کی توجہ
کا مرکز بنا ہوا ہے عالمی مبصرین کے یہاں بھی مندروں کا شہر بنارس چرچے میں
ہے۔ قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں اس حلقہ انتخاب کو لے کر جس طرح
ہنگامہ آرائی کی جارہی ہے اسے دیکھ کر یہ لگتا ہے پورے ملک کا انتخاب ایک
طرف ہے اور دوسری طرف وارانسی تنہا ان سب کے مد مقابل ہے۔ وارنسی حلقہ
انتخاب کے تئیں یہ ہنگامہ اس لئے ہورہا ہے کہ یہاں سے نسل کشی کے مجرم بی
جے پی کے وزارت عظمی کے امیدوار نریندر مودی اپنی قسمت آزمائی کررہے ہیں ان
کے علاوہ اوربھی یہاں سے پانچ امیدوار ہیں۔ کانگریس سے اجے رائے، عآپ کے
لیڈر اروند کیجروال، ایس پی سے کیلاش چورسیا، بی ایس پی سے وجے پرکاش
اورAITMC سے اندراتیواری۔ انتخابی منظر نامے میں صرف اول الذکر تینوں
امیدوار شامل ہیں جن میں سے ہر ایک کو اپنی جیت کا دعوی ہے۔
مندروں کا شہر کہا جانے والا یہ حلقہ انتخاب 1991 سے لیکر 2009 تک بی جے پی
کے قبضے میں چلا آ رہا ہے۔ البتہ 2004 اس سے خارج ہے جب کانگریسی امیدوار
ڈاکٹر راجیش نے جیت درج کرائی تھی۔ بی جے پی اس حلقے کو اپنے ریزرو سیٹوں
میں سرفہرست مانتی ہے اور اسی لئے مر لی منوہر جوشی جیسے قد آور لیڈرکو
پارٹی ہائی کمان نے یہاں سے الیکشن لڑنے کے لئے ٹکٹ دینیکیبجائے مودی کو
میدان میں اتارا تاکہ مودی کی جیت میں کوئی رکاوٹ نہ رہے اور باآسانی سے
ایک ایم پی سے پی ایم تک کاسفر ایک ساتھ وہ طے کرلیں ۔لیکن اروند کیجروال
نے آرایس ایس اور بی جے پی کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ۔یہاں سے پرچہ
نامزدگی داخل کرکے مودی کو ایسا چیلنج دیا کہ وہ شخص جو کل تک اپنی نگاہوں
میں پی ایم کا خواب سجائے ہواتھا اسے اب یہ فکر ستانے لگی کہ وزیر اعظم تو
دور کی بات ہے اب ممبر پارلیمنٹ کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوپائے گا۔
اس علاقے میں مسلمانوں کے ہر دل عزیز لیڈر مختار انصاری نے سیکولر ووٹوں کے
اتحاد پیش نظر الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کرکے مودی خیمہ میں کھلبلی مچادی
اور ایسا لگا کہ مندروں کی سیاست کرنے والے نریندرمودی پر مندروں کا یہ شہر
تنگ ہوگیا ہے۔ لیکن کانگریس امیدوار اجیرائے نے معاملہ خراب کردیا ہے۔
مختار انصاری کی حمایت کیجروال کی بجائے اجے رائے کوملنے سے مقابلہ سہ رخی
ہوگیا ہے مزید برآں یہ کہ مسلم جماعتیں بھی دو حصے میں تقسیم ہوگئی ہیں۔
جمعیتہ علما ہند( م) کانگریس کوسپورٹ کر رہی ہے جبکہ جماعت اسلامی کیجروال
کی حمایت میں ہے۔ تینوں پارٹیوں کے بڑے لیڈران وہاں اپنا پڑاؤ ڈالے ہوئے
ہیں اور اپنی پارٹی کے لئے زور وشور سے مہم چلارہے ہیں۔ وارانسی کی یہ
لڑائی سہ طرفہ ہوگء ہے ۔اس لئے یہ کہنا اب بہت مشکل ہوگیا ہے کہ کون جیت
رہا ہے اور کون ہار رہا ہے۔ کانگریسی امیدوار کے آنے سے پہلے شکست کے خوف
سے لزرہ براندام مودی کو اب جیت کی امید ہوگئی ہے۔
آئیے حالات کا جائزہ لینے کے لئے ایک نگاہ ڈالتے ہیں گذشتہ انتخاب پر۔ 2009
کے لوک سبھا الیکشن میں یہاں تقریبا 15 لاکھ ووٹرس تھے جن میں 2,03,122
مرلی منوہر جوشی کو ملا تھا جو کل ووٹ کا 30.52 فیصد تھا۔ مختار انصاری کو
1,85,911 ووٹ ملا تھا جو کل ووٹ کا 27.94 فی صد تھا۔1,23,874 سماجوادی سے
امیدوار اجے رائے کو ملاتھا جو کل ووٹ کا18.61 تھا۔ کانگریسی امیدوار صرف
38,666حاصل کرسکے جو کل ووٹ کا 9 فیصد تھا۔ گذشتہ انتخاب کے اس اعداد
وشمارکی روشنی میں بی جے پی کا 30 فیصد ووٹ جو مرلی منوہر جوشی کو ملا تھا
وہ اب بھی بغیر کسی کمی کے مودی کو ملے گا۔ کیوں کہ تشدد پرست ہندووں کی
بڑی تعداد یہاں پائی جاتی ہے ۔بھا جپا امیدواروں کا یہاں سے مسلسل جیتنا اس
کی واضح دلیل ہے۔ اب اس کے مد مقابل امیدوار کیجروال اور اجے رائے کے لئے
ضروری ہے کہ ان میں سے کوئی ایک تن تنہا اس سے زیادہ ووٹ لائیں لیکن یہ
ممکن نہیں لگ رہاہے کیوں کہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم ہورہی ہے اس کے علاوہ
ایس پی اور بی ایس پی کا بھی اپنا ووٹ بینک ہے۔ ان سنگین حالات میں وہاں کی
ہندومسلم سیکولر عوام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ متحد ہوکر وہ اپنا
ووٹ کجروال اور کانگریس میں سے کسی کو ایک دیں۔ رہا سوال یہ کہ ان دونوں
میں قابل ترجیج کون ہے اور کس کو ووٹ کیاجائے تو اس کا فیصلہ عاپ اور
کانگریس کو خود مل کر حل کرلینا چاہئے کہ انہیں مودی کو ہرانا ہے یا فتح سے
ہم کنار کرنا ہے۔ اتنا طے ہے اگر یہ دونوں پارٹیاں آپس میں سمجھوتہ نہیں
کرتی ہیں تو پھر مودی کی فتح کے راستے آسان ہوجائیں گے اور آپسی انا کی
خاطر ان دونوں کا خواب چکنا چور ہوجائے گا ۔مذہبی رہنماؤں کی بھی ذمہ داری
ہے کہ وہ متحد ہوکر کسی ایک کی حمایت کا اعلان کریں۔ عام ووٹرس کے لئے بھی
ضروری ہے کہ وہ اتحاد کی راہ پر گامزن ہوکر کسی ایک ووٹ کرکے سیکولرزم سے
محبت کا ثبوت پیش کریں۔ تاکہ فرقہ پرستی اور نسل کشی کے مجرم کے پی ایم بنے
کا خواب جس طرح چکنا چور ہوتا دکھائی دے رہا ہے اسے طرح ایم پی بننے کا
خواب بھی ادھورا رہ جائے۔ |