ان دنوں اسلام آباد پولیس کچھ زیادہ ہی متحرک نظر آ رہی
ہے۔دارلحکومت میں ایک طرف دہشت گردی ، قتل عام ، ڈاکہ زنی جیسے واقعات بڑھ
چکے ہیں دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے 11مئی کو دی جانے والے بھرپور
عوامی احتجاج کی کال ہے جس نے پولیس کی نیندیں حرام کر دی ہیں اسی لیے
حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے پنجاب پولیس سے کمانڈوز کو اسلام آباد لایا گیا
ہے ۔ 11 مئی کے متوقع عوامی ا حتجاج کو مد نظر رکھتے ہوئے پنجاب کے علاوہ
آزاد کشمیر سے بھی پولیس کی نفری کو لایا گیا ہے ۔ان دنوں پولیس کے جوان
رات گئے تمام سیکٹرز میں گشت کرتے ہیں ۔تین ، تین جوانوں پر مشتمل ٹیمیں
سادہ لباس میں گشت کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر گاڑیوں کو روک کر تفصیلی
چیکنگ کرتے ہیں ۔ اسلام آباد کے سینئر مجسٹریٹس کی ہدایت پرتمام افراد کی
نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہوئے مشکوک افراد کو حوالات میں لایا جا رہا ہے ۔پوش
سیکٹرز میں تو پولیس کی زیادہ نہیں چلتی لیکن عام ریڑھی بانوں ،سائیکل پر
کھانے پینے کی اشیاء بیچنے والوں سمیت موٹر سائیکل سواروں کی شامت آئی ہوئی
ہے ۔تھانے کے ایک ذمہ دار پولیس اہلکار کے مطابق وہ اب ان حالات سے تنگ آ
چکے ہیں ،نیند پوری نہیں ہو رہی، دن رات کام کرنے کے باوجود حکام بالا کو
صبح شام جی سر ، جی سر کہہ کر ہمارے دماغوں پر برا اثر پڑ رہا ہے ، حکام
غلط ،صحیح جو بھی کہہ رہے ہوں وہ انہیں بہر حال ماننا پڑتا ہے کیونکہ یہی
انکی ڈیوٹی ہے ۔ہم غریب وکمزور کو انصاف دلانے میں مکمل ناکام جبکہ اوپر سے
ایک کال آنے پر نامی گرامی مجرموں کو چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ذمہ دار
پولیس اہلکار کے مطابق اسے اب ایسا لگتا ہے کہ وہ محکمہ پولیس کا نہیں ،
محکمے کے ان درجنو ں اعلیٰ حکام کا ایک ہی وقت میں ذاتی ملازم ہو، اس لیے
اب ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی وقت حالات سے تنگ آ کر خود کو ہی گولی مار دے گا
۔
تین سال قبل 27جنوری 2011کو دو پاکستانی شہریوں کو دن دیہاڑے قتل کرنے کے
باوجود سزاسے بچ جانے والے امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کی یاد کراچی ایئرپورٹ
سے اسلحے سمیت گرفتارہونیوالے ایف بی آئی ایجنٹ کی ضمانت پر رہا ہونے سے
تازہ ہوئی ، پولیس حکام نے جوئیل کاکس/یوگیون کے ریلیز آرڈر تھانے میں
پہنچنے سے قبل ہی اسے رہا کر دیا اور امریکی شہری کو تھانہ آرٹلری کے عقبی
دروازے سے گاڑی میں بٹھا کر روانہ کر دیا اس پرقومی میڈیا نے ایک ہنگامہ سا
کھڑا کر دیا ہے کیونکہ امریکی سفارت خانے کے کہنے پر ایف بی آئی ایجنٹ کو
تھانہ ایئرپورٹ کے بجائے آرٹلری میدان پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا تھاجبکہ
امریکی ایجنٹ جوئیل کاکس/یوگیون کی رہائی کے لیے چیف سیکرٹری اور ہوم سیکر
ٹری خود تھانے گئے اور پولیس حکام کو کیس ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات
کرنے کی ہدایت کی جس پر پولیس نے سیشن کورٹ ملیر میں ریکارڈ پیش کیا کہ
جوئیل کاکس کسی بھی مقدمے میں پولیس کو مطلوب نہیں ہے۔ جوئیل کاکس کا
معاملہ وقتی طور پر رفع دفع ہو چکا۔ میڈیا نے ایسے ایشوز پر جو شور کرنا ہے
وہ تو چلتا رہے گا لیکن حکومت اور انتظامیہ نے صرف غیر ملکی آقاؤں کی سننی
ہے کہ ان کی جمہوریت کا کنٹرول تودر حقیقت وہیں سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں
کھرا سچ کہنے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے والوں کو فوری طور پر
غدار قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں امریکی سرگرمیوں میں اضافہ آج سے نہیں
پچھلے کئی سالوں سے ہو رہا ہے۔امریکہ اپنی مرضی سے مختلف سرگرمیاں کرنے میں
مصروف ہے چند سالوں میں ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جس میں امریکی اور دیگر
مغربی ممالک کے سفارتی اور دیگر افراد پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی سے
متعلق کاروائیوں میں مصروف نظر آئے ہیں۔ بلیک واٹرنامی ادارے کی سرگرمیاں
پاکستان میں پہلے دن سے مشکوک رہی ہیں اگر چہ امریکی سفارت خانے اور
پاکستان نے سرکاری سطح پر بلیک واٹر کی پاکستان میں موجودگی کو تسلیم نہیں
کیا لیکن امریکی سفارت خانے نے دوسال پہلے تسلیم کیا کہ انہوں نے 200 گھر
اسلام آباد میں کرایے پر لے رکھے ہیں اورموجودہ سفارت خانہ میں بھی توسیع
اس حد تک کر دی ہے امریکہ کے پاس کسی بھی دوسرے ملک میں سب سے بڑا سفارت
خانہ اسلام آباد میں ہے۔اسلام آباد ٹریفک پولیس نے 6 ستمبر 2009 کو تیز
رفتاری کی بنیاد پر ان افراد کا چالان بھی کیا تھا۔ ایک اور واقعہ میں چار
امریکی افراد کو کالے شیشوں کی جیپ میں آٹومیٹک ہتھیاروں سمیت ایک ناکے پر
روکا گیا تھاتو انہوں نے اپنا تعارف بلیک واٹر کے تعلق سے کروایا۔ ایسے
درجنوں واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بلیک واٹر (زی)
پاکستان کے چھ بڑے شہروں میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق
بلیک واٹر(زی) کے اہلکار امریکی سی آئی اے کے اہلکاروں کی جگہ پاکستان اور
افغانستان میں موجودہ خفیہ اڈوں پر ڈرون طیاروں پر ہیل فائر میزائل اور
پانچ سو پونڈ وزنی لیز گائیڈڈ میزائل لگانے کا کام کرتے رہے ہیں۔ غیر ملکی
ایجنٹوں خاص کر امریکہ کے پاکستان میں کردار کے حوالے سے پاک فوج کے سابق
جنرل نے انکشاف کیا تھا کہ امریکہ اسلام آباد میں جاسوسی کا ایک بڑا مرکز
قائم کر رہا ہے۔سابق جنرل نے دو سال پہلے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اسلام آباد
تخریبی سرگرمیوں کا بڑا مرکز بن جائے گا۔ ا س خدشے سے پہلے بھی مئی 2009ء
کو پشاور کے ایک ہوٹل سے ایک مشکوک امریکی کو پکڑا گیا۔ یہ افغانستان کے
چکر لگاتا تھا اور اس کے پاس صوبہ سرحد کے نقشے موجود تھے۔ امریکی قونصل
خانے نے اس سے رابطہ کیا ہے اور اسے تعاون فراہم کیا جارہا ہے۔ اگلے دن اسے
یہ کہہ کر رہا کر دیا گیا کہ اس پر کوئی الزام نہیں۔14 اکتوبر 2009 کو
پاکستان کے ضلع چارسدہ میں ایک امریکی پکڑا گیا جس نے پاکستانی حلیہ بنایا
ہوا تھا اور شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی اس کے پاس کاغذات اور علاقے میں ہونے
کی کوئی وجہ موجود نہیں تھی۔27 اکتوبر 2009 کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین
میں چار امریکی افراد کو افغانی بہروپ میں پکڑا گیا انہوں نے افغانی حلیہ
بنایا ہوا تھا۔ یہ اسلام آباد کی اہم عمارتوں کی تصاویر بنا رہے تھے۔ ان سے
ناجائز اسلحہ برآمد ہوا اور ان کی گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں بھی جعلی تھیں۔
پولیس انہیں گرفتار کرنے کیا تھوڑی دیر بعد ہی امریکی سفارت خانے کے
عہدیدار اور پولیس کے اعلی حکام انہیں لینے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور
وزارت داخلہ کے اعلی حکام کی مداخلت پر انہیں رہا کر دیا گیا۔اس سے پہلے
انٹر نیشنل اینیلیسٹ نیٹ ورک کی رپورٹ، جو ایشین ایج نے چھاپی تھی، کے
مطابق اس بات کے ٹھوس اور واضح ثبوت ہیں کہ امریکہ پاکستان کے ایٹمی
پروگرام کی نگرانی کر رہا ہے اور امریکی سفارت کار اور حکام کہوٹہ میں
جاسوسی کر رہے ہیں۔ ان غیر ملکی ایجنٹوں کی سرگرمیوں پر حکومت اور ہماری
اسپیشل فورسز کیا کاروائی کر رہی ہیں یہ تو وہی بہتر جانتی ہیں ہمیں تو یہ
محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان کے نظا م کا مکمل کنٹرول ملک کے اندر سے نہیں
باہر سے ہو رہا ہے کیونکہ جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کو 12 فیصد عوام نے
منتخب کیا ہے اب وہ اپنے کاربار کو وسیع کرنے اور اپنوں کو ایڈجسٹ کرنے میں
مصروف ہیں ۔اسلام آباد پولیس کر ہی کیا سکتی ہے ،ایک فون ریکارڈ کی تفصیلات
حاصل کرنے یا انٹر نیٹ اکاونٹ کی معلومات کیلئے یہ دیگر اداروں کی محتاج ہے
اس لیے اس کے کم وسائل و مشکلات سے ہم آگاہ ہیں۔ یہ حال وفاقی دارالحکومت
کی اس ماڈل پولیس کا ہے تو صوبائی پولیس کے احوال کا اندازہ لگانا زیادہ
مشکل نہیں۔ جعلی طریقے سے ملک پر حکومت کرنے والے ہمارے ان حکمرانوں نے غیر
ملکی آقاؤں کی خوشامد کرنا ہے کیونکہ ملک کی معیشت کا کنٹرول بھی اْن ہی کے
پاس ہے ہم صرف کٹھ پتلی ہیں اور کٹھ پتلیوں غیر جاندار ہونے کی وجہ سے
اشاروں پرہی کام کیا کرتی ہیں ۔ |