دنیا بھر میں کسی سیاسی حکومت میں اُس مملکت کی فوج کی
مداخلت کا تصور صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ایسا کبھی اور کہیں
بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ کہ پاکستان کے علاوہ کسی اور مملکت کی فوج نے
اپنی ریاست میں سیاسی مداخلت نہ کی ہو۔امریکہ جیسے ملکمیں 1960ء کی دہائی
میں جب امریکہ اور سودیت یونین کے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے تو سودیت یونین
نے کیوبا میں میزائل نصب کرادئیے ، جس سے امریکہ کی سلامتی کو سنگین خطرات
درپیش ہوگئے ، اس مسئلے نے امریکہ کی سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان بحران
پیدا کردیااور شدید تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی۔امریکی صدر کینڈی مسئلے کا
پُرامن حل چاہتے تھے جبکہ امریکی فوج کے جرنیل انھیں کیوبا پر ایٹمی حملہ
کا مشورہ دیتے رہے لیکن صدر کینڈی کے انکار کی وجہ سے وہ امریکی فوج میں
انتہائی غیر مقبول بن گئے یہاں تک کہ صدر کینڈی کو روسینژاد امریکی نوجوان
اوسوالڈ نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔امریکہ میں فوج ، سی آئی اے اور دیگر
خفیہ ادارے اتنے طاقتور ہیں کہ صدر اوباما اپنے وعدے کے مطابق بد نام زمانہ
گوانتا موبے کا نسانیت سوز قید خانہ بھی نہیں بند کراسکے۔
دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں فوجی مداخلت کے اسباب کہاں سے پیدا
ہوئے؟۔تحریک پاکستان کے وقت تاج ِ برطانیہ کی وفادار فوج ، عوام کی حفاظت
کے بجائے تاج برطانیہ کے دفاع کے لئے تخلیق کردہ اور تربیت یافتہ تھی،
چنانچہ فوج میں آقا اور غلام کی مناسبت سے تربیت بھی ایسی نوع کی گئی تھی
،1947ء میں جب بٹورا ہ ہوا تو پاکستان کے پاس کوئی خفیہ ایجنسی تک نہیں تھی
بلکہ ایک انٹیلی جنس اسکول تھا ، جس کے سربراہ نے بعد میں آئی ایس آئی کی
بنیاد رکھی۔1947ء کے صرف دس بعد جنرل ایوب نے1958ء میں ملک کا پہلا مارشل
لاء ایجاد کردیا ، بلاشبہ ملک سیاسی عدم استحکام کا کا شکار تھا ، اور
سیاسی عدم استحکام پاکستان کا جزو لانیفک بن چکاہے اور بد قسمتی سے ابھی تک
ایساموقع قوم کو میسر نہیں آیا کہ" ملک نازک دور سے اب نکل چکا ہے"۔سیاسی
عدم استحکام کی بنا پر ہی جنرل ایوب ، جنرل ضیا ء الحق اور جنرل مشرف نے
اپنی اپنی مسلم لیگیں" ایجاد" کیں ، جنرل یحیی نے1970ء میں انتخابات کرائے
لیکن خود ہی اس کے نتائج تسلیم نہیں کئے اور اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو
اقتدار منتقل نہیں کیا ۔یہ ناقابل تردید ہے کہ فوج نے پاکستان کے اقتدار کے
تخت پر سیاسی جماعتوں سے زیادہ حکمرانی کی حالاں کہ پاکستان کی تخلیق میں
عسکری فوج کا کوئی کردار نہیں تھا ، لیکن عمومی طور پر پاکستان کی زمینی
سرحدوں کے ساتھ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت پاک فوج کے کندھوں پر رکھے جانے کی
روش برقرار رکھی گئی ،جیسے لاکھوں انسانوں کی جانوں کی قربانی میں تاج
برطانیہ کی وفادار فوج نے بھی قائداعظم کا ساتھ دیا ہو۔دراصل ہمیشہ سیاسی
قیادت اور سیاسی جماعتوں کی کمزوری نے فوج کو اقتدار پر قبضے کیلئے اکسایا
، قائد اعظم کی وفات کے بعد لیاقت علی خان کی شہادت نے مملکت میں قومی
سیاسی قیادت کا بہت بڑا بحران پیدا کردیا جو ہنوز پُر نہیں ہوسکا ہے۔
پاک فوج کے ساتھ پاکستان عوام کی جذباتی والہانہ وابستگی کی بنیاد وجہ پاک
، بھارت جنگیں ہیں جس نے پاکستانی عوام کو فوج کے انتہائی قریب کردیا۔خاص
طور پر1965ء کی جنگ میں غیر معمولی فتح کے بعد پاکستانی عوام اپنے متعدد
مسائل کے حل کیلئے فوج کی جانب دیکھنے پر مجبور ہوئی ، حالاں کہ 1971ء کی
جنگ میں پاکستان کو مشرقی محاذ پر ہولناک شکست ہوئی کہ اُس کا ایک بازو بھی
کٹا اور نظریہ پاکستان بھی دریائے بنگال میں بُر د ہوا ، نیز سیاچن اور
کارگل کے محاذ پر بھی ہزہمت کا سامنا ہوا لیکن میڈیا نے پاک فوج کا
امیج1965ء کی سطح پر بر قرار رکھا اور عوام کے سامنے پاک فوج کا تصور ایک
ناقابل تسخیر فاتح کی صورت میں ہی رہا۔یہی وجہ تھی کہ ملک کی بیشتر سیاسی
جماعتوں نے فوج کی آشیر باد سے اقتدار حاصل کیا ، یہاں تک کہ بین الاقوامی
جنگ کا محاذ بھی پاکستان میں جنرل ضیا ء الحق کے دور آمریت میں کھول دیا
گیا اور مسلمانوں کو اسلام کے نام پر امریکہ کے ہاتھوں فروخت کرکے پرائے
گھر میں آگ لگا دی جس کی چنگاریوں سے اب پاکستان کا آشیانہ بھی جھلس رہا
ہے۔
معاشرتی زندگی میں حکومتی اداروں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن
کس ملک میں کس قسم کی مملکت ہونی چاہیے اور حکومت و عوام کے درمیان کا تعلق
کیا ہونا چاہیے اس قسم کے سوالات کے جوابات کم و بیش مغربی ممالک نے حل
کردئیے ہیں لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے حل
طلب ہیں۔اگر اکتوبر1958ء میں اسکندر مرزا حکومت برطرف کرکے مارشل لاء نہ
لگاتے تو ان کے ساتھ صرف تین ہفتے بعد ایسا ہی واقعہ درپیش نہ ہوتا اور
جنرل ایوب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ ساتھ صدر پاکستان کبھی نہ
بنتے۔سقوط دحاکہ سے لیکر بھٹو کے سیاسی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننے اور پھر
اس کے بعد ان کے چہتے جنرل ضیا الحق کا طویل گیارہ سالہ دور اور نواز شریف
کے چہتے جنرل پرویز مشرف کا 12اکتوبرکواقتدار پر قابض ہونا ، یہ سب سیاسی
عدم استحکام کی سبب ہی ممکن ہوا۔
ہمیں ماضی سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ پہلی بار جمہوری حکومت نے اپنی مدت
معیاد مکمل کرکے جیسے تیسے اگلی جمہوری حکومت کو اقتدار پُر امن طریقے سے
منتقل کیا ۔اب ہمیں ہوش کے ناخن لیتے ہوئے نوزائیدہ جمہوری حکومت کی مضبوطی
کیلئے کوشش کرنی چاہیے لیکن دوسری جانب شیخ صاحب اور خان صاحب نے وہی اطوار
دوبارہ اختیار کر لئے ہیں جس کا خمیازہ ہمیشہ عوام بھگتی آئی ہے۔بلاشبہ پاک
فوج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے ، آئی ایس آئی دنیا کی نمبر ون
خفیہ ایجنسی ہے ، افواج ِ پاکستان کے تمام ادارے محبِ وطن اور دشمنوں کے
دانت کھٹے کرنے کی اعلی ترین صلاحیت رکھتے ہیں۔ہماری بہادر فوج کے ہر جوان
میں جام شہادت نوش کرنے جذبہ اتم موجود ہے اور پاک فوج قوم کے ہر فرد کی
آنکھوں کا تارا اور سر کا تاج ہے اور قوم ہر قسم کے حالات میں پاک فوج کے
شانہ بہ شانہ کھڑی ہے۔لیکن فوج کے ساتھ ایک میڈیا گروپ کے حوالے سے جس طرح
گلیوں ، سڑکوں میں چھوٹی بڑی ریلیاں نکال کر اظہار یک جہتی کیا جارہا ہے اس
سے چند افراد یا گروپ یا جماعتوں کو تو وقتی طور پر فائدہ مل سکتا ہے لیکن
سیاسی عدم استحکام کا جواز پیدا کرکے پاک فوج کو ایک گروپ کے مقابلے میں
لاکر مقدس عسکری ادارے کا قد چھوٹا کرنے کی مذموم سازش کی جا رہی ہے۔اس عمل
سے پاک فوج کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے ، فوج کے سربراہان کے تصویر والے
بینرز سے یہ تاثر جا رہا ہے کہ فوج بھی کوئی" سیاسی جماعت" ہے.۔فوج سے
اظہار یک جہتی لفظوں کی محتاج نہیں ہے ، جب جب فوج کو قوم کی ضرورت پڑی ہے
، پاکستانی قوم نے اپنے خون کی آبیاری سے پاک فوج کے حوصلوں کو جلا بخشی
ہے۔1965ء کے علاوہ سوات آپریشن میں اگر قوم فوج کے ساتھ نہ ہوتی تو یقینی
طور پر ان جنگوں کا حشر بھی 1971ء کی طرح ہوتا ، جب قوم بٹ جاتی ہے اور اُس
میں گروہی تفریق پیدا ہوجاتی ہے تو جنگیں ہتھیاروں سے نہیں جیتی جاسکتیں۔
آئی ایس آئی مملکت کا انتہائی قابل اعتماد ادارہ ہے ایسے سڑکوں پر لاکر
سیاسی بنانے سے گریز کرنا چاہے، دنیا بھر میں آئی ایس آئی کا بھر پور امیج
ہے ایسے سطحی بنیادوں پر لاکر کسی میڈیا گروپ سے نبر الزما کرانے کی کوشش
دراصل آئی ایس آئی کے کردار کو محدود اور غیر فعال بنانے کی کوشش ہے۔ماضی
میں ایوان صدر میں سیاسی مداخلت کیلئے سیاسی سیل بنایا گیا تھا م اب دوبارہ
اس عمل سے جمہوریت کو ہی نقصان پہنچے گا۔فوج کو سیاسی انداز میں گلیوں ،
سڑکوں پر لاکر کوئی خدمت سر انجام نہیں دی جارہی بلکہ اس عمل سے پاک فوج کے
پیشہ وارانہ کردار و سرگرمیوں پر دنیا بھر میں انگشت اٹھائی جا رہی
ہیں۔ضرورت اس بات کہ فوج کو اپنا کردار ادا کرنے دیں اور سیاسی جماعتیں
اپنا کردار ادا کریں ۔ کسی خاص میڈیا گروپ کے حوالے سے عوامی ردعمل بڑی شدت
سے سامنے آچکا ہے ، معاملات عدالتوں اور موقر اداروں میں جا چکے ہیں ،میڈیا
گروپ بندی کرکے خود اپنے پیروں پر کہلاڑی نہ مارے تو زیادہ بہتر ہوگا۔پاک
فوج کو متنازع بنانے کی روش انتہائی تباہ کن و نقصان دہ ہوگی۔پاک فوج سیاست
سے دور رہنے کا عزم کر چکی ہے۔ کاکول اکیڈمی میں کیڈٹ کی جانب سے حلف
برداری کی تقریب میں ببانگ دہل سب نے پاک فوج کا حلف سُنا ہے کہ پاک فوج کا
کوئی سپاہی سیاسی کردار ادا نہیں کرے گا ۔ تو پھر اس کے بعد یہ کس طرح ممکن
ہے کہ پاک فوج اپنے حلف سے رو گردانی کرے ، لہذا ہمیں سیاسی بلوغت کا
مظاہرہ کرتے ہوئے لولی لنگڑی جمہوریت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش
کرنی چاہیے.۔ ملکی وحدت کو نقصان فروعی جذبوں اور انفرادی فیصلوں سے پڑتا
ہے ، اجتماعیت کے تصور کو اپنا کر ہی قوم کو منزل حق کے راستے پر ڈالا جا
سکتا ہے۔ |