پاکستانی حکمرانی کانٹوں بھرا تاج ہے، ثالثی کا راگ الاپناایک مجبوری

 ’’بیرونی ممالک کی ثالثی کی چال ‘‘ کو ’’شملہ سمجھوتہ‘‘ کے ذریعہ بے دست وپا کیا گیا۔

پاکستان میں ہر حکمراں ہندوستان کا مخالف بن کر رہے توسمجھئے کہ اس حکمراں کا اقتدار محفوظ اور پائیدار ہے۔اگر ہندوستان کی طرف دوستی کا ہا تھ بڑھایا تو وہاں جمہوری حکمران یا فوجی حکمراں چاہے جتنا بھی سیاسی طور پر مضبوط ہو اس کی حکمرانی پھر چند دنوں کیلئے ہے۔اور یہ ایک سچائی ہے کہ ہندوپاک کے درمیان دوستی امریکہ کو کسی بھی صورت میں منظور نہیں۔پاکستان کی فوج میں کچھ لوگ ہیں جو امریکی منشاء کے مطابق کام کرتے ہیں۔ان میں جو زیادہ وفادار ہوتا ہے۔ اس کو پاکستان کی حکمرانی سے نوازہ جاتا ہے۔یہ وفادار لوگ وہ ہی کام کرتے ہیں۔جو امریکی قیادت کوپسند ہو۔وہاں کس وقت اقتدار کس کے ہاتھوں میں چلا جائے کچھ کہانہیں جاسکتا ۔پاکستان کا اقتدار جائز ہاتھوں میں جائے یا ناجائز ہاتھوں میں اس سے کوئی سروکار نہیں۔جس شخص کی امریکی قیادست سرپرستی کرے توپھر ناجائز کو بھی جائز ہی سمجھ لیاجائے۔ جس پاکستانی حکمراں کو امریکہ کی حمایت حاصل ہوگئی ۔ تو جان لیجئے کہ وہ حکمراں ہندوستان سے دوستی نہیں کرسکے گا۔امریکی انتظامیہ ہندوپاک کے بیچ صرف رسمی دوستی چاہتی ہے۔عملی دوستی اس کو پسند نہیں۔ جو اس نہج پر پہنچنے کی کوشیش کرے گا۔تو پھر اس کوگدی سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ہندوستان اپنی طرف سے دوستی کی لاکھ کوشیش کرلے مگر انجام ناکامی کی صورت میں ہی ظہور پذیر ہوگا۔بڑے ملکوں کی یہ حکمت عملی ہے کہ دوپڑوسی باہم کبھی اچھے دوست نہ بنیں۔دوپڑوسیوں کے درمیان دوستی کو روکنے کیلئے اور اس میں دراڑ ڈالنے کیلئے ان کے پاس خطرناک پالیسیاں ہیں۔جس سے وہ ملکوں کو کمزور کرتے ہیں ملکوں کو کمزور کس طرح کیا جائے اس کیلئے ان پاس فارمولہ بھی ہے۔جس کے تحت وہ جمہوریت پسندملکوں کے ایک ایک حصے میں آزادی و خدمختاری کا راگ الاپتے ہیں ۔ ان ملکوں میں آباد لوگوں کو’’آزادی و خدمختاری ‘‘ کیلئے اکسایا جاتا ہے۔پھروہ اپنی اس خطرناک پالیسی کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔

حریت پسند بناتے ہیں۔ پھران کی حمایت اوران کی مالی مدد کی جاتی ہے۔اس لئے وہ حریت پسند ان کے بڑے ملکوں کے آل کار بن جاتے ہیں۔ان کے اشارے پر کام کرتے ہیں ۔ان حریت پسندوں کو کٹّر مذہب پرست بناکر پیش کیا جاتا ہے۔جہاں جیسی ضرورت پڑتی ہے ان کو اس حساب سے ڈھالا جاتا ہے۔ان کے مذہب کے حساب سے ان میں مکارانہ ایمانی جذبہ بھرا جاتا ہے۔پھر ان سے دھشت گردی کے واقعات منسوب کئے جاتے ہیں۔بم دھماکے کہیں بھی ہوں گے۔ان کٹّر مذہب پرستوں کو تخلیقی کیسٹوں سے دیکھایا جاتا ہے ۔ جس میں ان مذہب پرست تنظیموں سے کیسٹوں سے دھماکوں وحملوں کی تصدیق کرائی جاتی ہے ۔ اس خطرناک کھیل میں دوسرے مذاہب کے ساتھ مذہب اسلام کی غلط طور پر تشہیر کی جاتی ہے۔ ایک طرف مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کیا جاتا ہے۔تو دوسری طرف مسلمانوں کو بدکردار، دھشت گر بنا کر ان کو دنیائے عوام کے سامنے پیش کرکے رکھا جاتا ہے۔عوام حقائق سے کوسووں دور ہوتے ہیں۔ ان کو اصلیت کا علم نہیں ہوتا۔ وہ عقائد کے محور میں گرفتا ر ہوجاتے ہیں۔ہر اسلامی حلیہ شخص کو وہ مجاہد سمجھ لیتے ہیں۔یہ ایک حکمت عملی ہے۔بڑے ممالک یہ ہی چاہتے ہیں۔ کہ جو تصویر وہ بنا کر پیش کررہے ہیں۔دنیائے عوام ، عالم اسلام اس کو ہی باآسانی حقیقت جان لے ، جس فریب کی وہ تشہیر کررہے ہیں۔اس فریب کو سچائی سمجھ کر قبول کرلے۔وہ خود کش حملوں کو فدائین حملہ بناکر پیش کرتے ہیں۔ وہ اس کو غلط نہیں جائز ٹہراتے ہیں۔ حالانکہ خوش کش حملے ہو یا فدائین حملے اس کی مذہبِ اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔ دونوں ہی حرام فعل ہیں۔اس کی انجام دہی کے بعدہر انسان سیدھا جہنم رسید ہوتا ہے۔ لیکن مغربی میڈیا میں تراشے جانے والے واقعات کو اسلامی حلیہ لوگوں کے ذریعہ سے ہی خودکش وفدائین حملہ کرکے حرام موت کو گلے لگانے والوں کو جنت میں دخول کا راستہ دیکھایا جاتا ہے ۔ حالانکہ مذہب ِاسلام میں خود کشی ایک حرام فعل ہے۔ یہ ہی وہ بنیادی نقطہ ہے۔جس نے بڑے ممالک کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔یہ خود کشی یا فدائین حملوں پر آمادہ لوگ عوامی تشہیر میں بڑے ملکوں کو اپنا سب سے بڑا حریف بنا کر پیش کرتے ہیں۔اس کے خلاف صف آراء ہونے کا وادیلہ کرتے ہیں۔مگر ان کے نام کے قصیدے بھی پڑھتے ہیں۔مگر اب عام مسلمان بھی ان کے اس طرح کے ہتھکنڈوں سے اچھی طرح واقف ہوچکا ہے۔ہندوپاک کے درمیاں ایک ’’نیا ملک آزاد کشمیر‘‘ کے نام پر بنانے کیلئے نعرہ لگانے والے لوگ جن کو بڑے ممالک سے بھر پور مدد ملتی ہے۔وہ ویسے تو خدا پر یقین رکھتے ہیں۔مگر ثالثی کیلئے وہ اپنے خدا ہی کی بات کرتے ہیں۔کہاں ہے ایمان ِ کامل ،بھولے بھالے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔خدا وند ۔ ان کی اور ان کے آقاؤں کی مکاریوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ان مکار لوگوں نے اپنے دنیا وی مفاد کی خاطراور اپنے دنیاوی آقا ؤں کی خوشنودی کی خاطر ایک لاکھ کشمیریوں کو ناحق قتل کرایا ہے۔ان کے خون سے پوری سرزمین کشمیر کو لال کردیا گیا۔ یہ بزدل اور ڈرپوک لوگوں سے سیکورٹی فورس پر حملے کراتے ہیں۔جس سے یہ لوگ ڈیوٹی پر تعینات فورس کو اشتعال دلاتے ہیں۔ اور اس کے بعد چھپ جاتے ہیں۔ اور بھاگ جاتے ہیں، چاقو کی نوک پر غریب لوگوں کے گھروں میں پناہ لیتے ہیں۔پھر اس کا انجام اشتعال شدہ سیکورٹی فوج سے عام لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ان کی ان بے ہودہ حرکتوں کا خمیازہ بے قصور لوگ ناگہانی برداشت کرتے ہیں۔جہاں تک اس خطہ میں امن کی بات ہے تو بڑے ممالک اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ہر امن کی ابھرنے والی بات کو یہاں کچل دیا جاتا ہے۔جو پاکستان کو حکمراں اس راہ پر چل پڑے تو پھر اس کی اقتدار سے بے دخلی یا پھر اس کا کسی بھی سازشی حملہ میں سرقلم، یا سزائے موت ، یا پھر کوئی بھیانک سزاکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پاکستان کے اقتدار پر زیادہ دنوں وہی قابض رہ سکتا ہے۔ جو ہندوستان سے دوستی کے ارادہ کو بھی ترک کردے۔جس جس نے بھی اپنے پڑوسی سے ہمدردی دیکھائی ہے۔ اس کو بھیانک موت سے روبرو ہونا پڑا ہے۔ پاکستان کا کوئی حکمراں فوجی جنرل ہو یا جمہوری ہو جو بھی ہندوستان سے دوستی کرنے کی گستاخی کرے گا۔ اس کو جنرل ضیاالحق کی طرح ہوائی حادثہ کا شکارہونا پڑے گا۔پاکستان کے ہر حکمران کو وہ فوجی یا جمہوری طور سے منتخب حکمراں ۔ اس کو ان ہی ہدایات پر کام کرنا ہے۔ جو بڑے ممالک کی مفاد ہوں گی۔ان حدود سے تجاوز کرے گا تو اپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے گا۔مگر کچھ لوگ جو قلم کشائی و لب کشائی میں مہارت رکھتے ہیں۔ جن کو حقائق کا معارکہ عبور کرنے کی صلاحیت نہیں۔ ان میں سچائی تک پہنچے کا دل و دماغ نہیں۔ان کی جانکاری کیلئے ضروی ہے کہ وہ جان لیں۔ پاکستان کی حکمرانی کاتاج کانٹوں بھر ا ہوتا ہے۔جوحریت پسند لوگ و پاکستانی حکمران ثالثی کا راگ الاپتے ہیں۔ ان کی مجبوریا ں بھی ہوتی ہیں۔ ان کی طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی ہے۔پاکستان کے جمہوری حکمران ذوالفقار علی بھٹوکو شملہ سمجھوتہ کرنے کی سزا ۔ سزائے موت سے ملی ، فوجی حکمراں جنرل ضیاء الحق نے ہندوستا نی عوام سے دوستی کی اہمیت کو سمجھا تو ان کو صفہء حستی سے مٹادیا گیا۔مرحوم بے نظیر بھٹو صاحبہ نے جب ہندوستان سے رشتہ خوشگوار بنانے کی بات کی تو ان کو سرعام گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔جمہوری طور پر اکثریت سے منتخب حکمران نواز شریف نے اٹل بہاری سے ددستی کا ہاتھ ملایا تو ان کا مستحکم اقتدار چھین کر ان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دکھیل دیا گیا۔ پاکستان کے ناجائز حکمراں ، امریکہ کے دست ِشفقت میں رہنے والے جنرل پرویز مشرف کو اٹل بہاری باجپائی نے آگرہ میں اپنا خصوصی مہمان بنا کر بلایا۔ان کو اٹل جی بہت سمجھایا اورانہیں صلاح دی کہ وہ دشمنی کو بالائے طاق رکھیں، ہندوپاک کے عوام کو اہمیت دیں۔جب ان کے درمیان دوستی کاعہدوپیمان ہونے لگا تو ان کو آگرہ کی خوش گوار فضا ء میں بات چیت ترک کرنے اور آگرہ کو چھوڑنے کی ہدایت ملی۔بہر حال بات طویل ہے۔ اب نواز شریف حقائق سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ فی الوقت مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کیلئے بنائی گئی تحریک ’القاعدہ‘ اور بڑے ممالک کے مفاد کی تکمیل کیلئے تیار کردہ طالبان کو مسلمان بنانے کوشیش میں لگے ہیں۔از خود نواز شریف ، مذہب اسلام کو دھشت گرد میں تبدیل کرنے کیلئے بنائی تحریک طالبان(اسلام دشمن و بیرونی ممالک کی خفیہ تحریک ) کو مسلمان بنانے اور اس کو بات چیت کے عمل میں شرکت پرآمادہ کرنے کی مہم میں مصروف ہیں۔ان کا غلط استعمال ہونے سے روکنے کیلئے ، خود کش و فدائین حملے کی بے ہودہ حرکت سے باز رکھنے کیلئے ، بیرونی ممالک کو بے نقاب کرنے کیلئے کام کررہے ہیں۔ ۔تو ان کو بزدل اور اور نا اہل قرارد یا جارہا ہے۔ ’اندرا۔بھٹو ‘ نے بڑے ممالک کی بے جا مداخلت کو روکنے کیلئے شملہ سمجھوتہ کرکے ایک معاہد ہ سربراہان میٹنگ میں طے کردیا تھا کہ ہندوپاک مسئلوں کا حل باہمی طور پر ہوگا۔ ثالثی کے ذریعہ نہیں۔ اس فیصلہ کی کاپی بڑے ممالک اور یو این او کو دے دی گئی ہے۔ جس سے ہندوپاک مذید ٹکڑوں میں تقسیم ہونے سے بچا ہوا ہے۔بڑے ممالک کا مال کھائے ہوئے مکار حریت پسند لوگ جب سے ہی امن کے رقیب بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔شملہ سمجھوتے کے معاہدے کو بے اثر بنانے القاعدہ طالبان کی شکل میں جو یہودی مشن تیار کیا گیا تھا۔وہ بھی اس کی وجہ سے ناکام ہوگیا۔پاکستان کا جمہوری حکمراں ثالثی کی بات اپنی طرف سے نہیں بلکہ دباؤ میں کرتا ہے۔پاکستانی فوج میں بہت سارے مفاد پرست مشرف بیٹھے ہیں۔جو کسی بھی وقت بڑے ممالک کے اشارے پر ان کے مفاد کیلئے کام کرنے کیلئے بے چین بے قرار بیٹھے ہیں۔فی الوقت پاکستانی کی جمہوری حکمرانی کانٹوں سے بھری پڑی ہے۔اور ثالثی کا راگ الاپنا ان کی مجبوری بن گیا ہے۔اب کسی نے حامد میر بننے کی جسارت کی تو اس پر بندوقین تان لی جاتی ہیں۔اپنی جان کا دفاع کرنے کیلئے اگر ثالثی کی بات جارہی ہے ۔تو اس کو سمجھنا چاہئے۔ثالثی بننے کی خواہش رکھنے والے ممالک و ان کے حکمران۔ پاکستان و ہندوستان کے بد ترین دشمن ہیں۔جو ثالثی کا واویلہ کررہے ہیں۔وہ بکے ہوئے لوگ ہیں۔ وہ مُرتد ہیں۔ ہندوپاک عوام کے سنگین دشمن ہیں۔ ایمان والا تو اﷲ تعالیٰ کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ یہ دنیا وی خدا کے آگے ہاتھ پھیلا کر اسلام کو ، مسلمانوں کو اس خطہ کو تباہ کرنے میں لگے ہیں۔یہ ذلت و رسوائی کو قبول کرلیتے ہیں۔ جو حریت پسند ثالثی کی بات سے منحرف ہوتا ہے۔ تو پھر وہ میر واعظ مولوی فاروق اور عبدالغنی لون کی طرح اس کو دنیا سے رخصت کردیا جاتا ہے۔ثالثی کی وکالت کرنے والے کا ثالثی سے منحرف ہونے کا جرم اتنا سنگین ہے۔ کہ پھر اس کا دنیا میں زندہ رہنا ہی محال ہے۔اب کوئی میر واعظ مولوی فاروق، سید علی شاہ گیلانی، یا سین ملک ، پاکستان کے جمہوری یا فوجی شخصیات ثالثی سے منحرف ہوکر دیکھائیں۔حقیقت اس کی خود بہ خود واضح ہوجائے گی۔ثالثی کی باتیں کرنے والے یہ لوگ بہ خوشی اور مجبوری میں بطور ایجنٹ کے کام کرتے ہیں۔جس کا محنتانہ ان کو ملتا ہے۔ان کے نزدیک جمہوریت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔یہ ملکوں کوتوڑنے کیلئے ایک مشن کے تحت رائے شماری کا پرچم اٹھائے پھرتے ہیں۔بات امن کی کرتے ہیں۔ مگرہندوپاک کے مذید ٹکڑنے کرنے وکرانے کیلئے اس خطہ میں نئے ملکوں کے وجود کو تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔کشمیر کو آزادی کو پنجرہ بنانے کیلئے چالیں چلی جارہی ہیں۔اس میں تمام کشمیریوں کو قید کرنے پھر اس آزادی نما پنجرے کے جھنڈے کو یواین اے کے ہیڈ کواٹر پر لٹکاکر کشمیریوں کو چار دیواریوں میں قید کرنے کی کوشیش تیز تر ہے۔جس سے کشمیریوں کی کشادہ آزادی چھین لی جائے۔یہ ناپاک کوشیش افسوس حریت کے نام پر ہی کی جاتی ہے۔ثالثی اس کا ایک مہلک ہتھیار ہے۔ثالثی ۔ امن کانام نہیں۔اتحاد و یکجہتی کا نام نہیں۔بلکہ بٹوارے کا نام ہے۔ خون ریزی کو نام ہے۔تباہی کا نام ہے۔ثالثی کے ذریعہ متحد ہندوستان کو ہندوپاک میں تقسیم کیا گیا۔ثالثی کے نام بنگا دیش کا وجود ہوا۔حالانکہ ہندوپاک کے ذہین حکمرانوں نے ’’بیرونی ممالک کی ثالثی کی چال ‘‘ کو شملہ سمجھوتے کے ذریعہ بے دست وپا کردیا۔ کسی دن ہندوپاک کے ذہین حکمراں مل کر بیٹھ جائیں۔ تو مسائل کا حل ہونا آسان ہے۔بیرونی ممالک ان دونوں(ہندوپاک) ملکوں کو مل بیٹھنے کی اجازت کہاں دیتے ہیں۔دونوں کے ملکوں کے حکمرانوں پر ایک دباؤ رہتاہے۔ہندوپاک کے درمیاں امن کیلئے’’اٹل ۔نواز بات چیت‘‘ کو ناکام بنانے کیلئے نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرایا گیا۔ان کی جگہ پرویز مشرف کو لایاگیا۔پھرہندوستان پر دباؤ بنایاگیا کہ مشرف سے امن کیلئے بات چیت کی جائے۔اٹل جی نے اپنی شاطرانہ سیاست مشرف سے دوستی کا آغاز کیا توایک دباؤ کے تحت ان کو بھی بیرنگ آگرہ سے واپس بلالیا گیا۔یقینا پاکستانی حکمرانی کانٹوں بھرا تاج ہے۔اور ثالثی کا راگ الاپنا ان کیلئے ایک مجبوری گیا۔اب پاکستانی حکمرانوں کے ثالثی کی مجبوری دے نیکالنے کی ضرورت ہے۔بڑے ممالک ترقی پذیرملکوں میں سیاسی عدم استحکا م دیکھتے ہیں۔تو وہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان ملکوں کو توڑنے کی ہر زاویہ سے کوشیش کرتے ہیں۔جس میں ثالثی کی بات اہم ہوتی ہے۔جو کوئی فرد ، تنظیم و جماعت فی الوقت اس خطہ میں ثالثی کی بات کررہی ہے۔وہ اس خطہ اور خطہ کے عوام ، حتیٰ کہ مسلم قوم اور اپنے قبیلے کا کا وفادار ہے ہی نہیں۔ بلکہ یہ غدار ، دغا باز ، فریبی اور مکار ہے۔اوریہ یہاں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگاکہ ایسی تنظیم و ایسے اشخاص یہودیٰ کے خاندان سے ہیں۔ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ایسے لوگوں سے خبر دار رہنا ہی اسلام دوستی و حب الوطنی کی علامت ہے۔(ختم شد)

Ayaz Mehmood
About the Author: Ayaz Mehmood Read More Articles by Ayaz Mehmood: 98 Articles with 79785 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.