بھارت سے دوستی کی خواہش .....دل کے بہلاوے
یا خام خیالی
کہتے ہیں کہ دوستی کا ہاتھ اگر دوستی کے جذبے کے تحت بڑھایا جائے اور اخلاص
و نیک نیتی کے ساتھ تھاما جائے تو یہ کوشش درمیان کے فاصلوں کو کم کرنے٬
پرانی رنجشیں دور کرنے اور دلوں کی دوریاں مٹانے کا ذریعہ بن سکتی ہے لیکن
اس کیلئے ضروری ہے کہ دوستی کی یہ کوشش دونوں فریقوں کی جانب سے یکساں اور
برابری کی بنیاد پر ہو جبکہ اس کے بر خلاف اگر یہی کوشش ایک فریق کو کمزور
سمجھ کر اسے دھوکہ اور فریب دینے اور نقصان پہنچانے کیلئے استعمال کی جائے
تو کبھی بھی باہمی اعتماد و بھروسے کی فضا پیدا نہیں ہوسکتی اور نہ ہی
دوستی اور محبت کا جذبہ پروان چڑھ سکتا ہے پاک بھارت تعلقات اور دوستی کے
حوالے سے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا کردار ہمیشہ مثبت تعمیری اور
مصالحانہ رہا اور پاکستان نے ہمیشہ ایک پر امن پڑوسی ہونے کا کردار ادا کیا
لیکن اس کے برخلاف بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیا
پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کیں اور پاکستان کے نرم و مصالحانہ
رویئے کو کمزوری سے تعبیر کیا حقیقت یہ ہے کہ بھارت نہ تو کبھی پاکستان کا
دوست تھا اور نہ ہی ہوگا اور بھارت سے اچھے تعلقات اور دوستی کی خواہش دل
کے بہلاوے اور خام خیالی کے سوا اور کچھ نہیں۔
بھارت کی اس تمام تر پاکستان دشمن کوششوں کے باوجود بھی پاکستان کی ہمیشہ
یہ کوشش اور خواہش رہی کہ بھارت کے ساتھ ایک اچھے ہمسایہ ملک جیسے تعلقات
رکھے جائیں لیکن طاقت اور رعونت کے زعم میں مبتلا بھارت نے کبھی پاکستان کے
جذبہ خیر سگالی کو کوئی اہمیت نہیں دی ہمیشہ پاکستان کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو
جھٹکا اور اگر کبھی مصافحے کی نوبت بھی آئی تو بھارتی وزیر اعظم کے بوجھل
دل اور سپاٹ چہرے کے ساتھ بڑھا ہوا ہاتھ وہ پوری کہانی بیان کر گیا جو
صدیوں پر محیط ہے اور جنوبی ایشیاء کی سرزمین اس کہانی کے سارے کرداروں اور
سارے منظروں سے اچھی طرح واقف ہے دراصل یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے
پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی تمام ترکوششیں نقش بر آب ثابت ہوئیں لیکن اس
تلخ حقیقت کے باوجود بھی ہر دور میں ہمارے حکمران بھارت سے بہتر تعلقات کے
خواہاں رہے اور یہ یک طرفہ کوششیں آج بھی جاری ہیں۔
جبکہ دوسری طرف بھارت پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور اپنے جارحانہ
عزائم کی تکمیل میں تیزی سے مصروف ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ بھارت کے
جنگی جنون میں اضافہ ہورہا ہے گزشتہ دنوں پاکستانی سرحد کے قریب اپنے تمام
مگ 29 لڑاکا طیاروں کی تعیناتی کا فیصلہ اور اس کی حالیہ جنگی تیاریاں اور
اقدامات اس کا عملی ثبوت ہیں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بھارت کے دو
سکواڈرن لڑاکا طیارے اودھم پور ائیربیس پہنچ چکے ہیں جبکہ تیسرا سکواڈرن
گجرات سے اودھم پور روانہ ہو چکا ہے اودھم پور ائیربیس کے افسر کمانڈنگ
ائیر کموڈور ایس ایچ اروڑہ کے بقول اس فیصلے کا مقصد بھارتی فضائیہ کو
مغربی سرحدوں پر ہمہ وقت تیاری کی حالت میں رکھنا ہے تاکہ کسی بھی حملے کی
صورت میں اس کا فوری جواب دیا جاسکے دوسری جانب بھارت نے روسی کمپنی کے
ساتھ 60 مگ 29 طیاروں کو اپ گریڈ کرنے کا معاہدہ بھی کیا ہے جبکہ فضا میں
ایندھن بھرنے والے دو اواکس تین طیارے چھ سی 130 طیارے 80 ہیلی کاپٹر اور
جدید ریڈار بھی بھارتی فضائیہ میں شامل کئے جا رہے ہیں۔
پاکستان کے خلاف بھارتی جارحانہ عزائم تو افغانستان میں پاکستانی سرحد پر
موجود بھارتی سفارت خانوں اور بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں اس کے پیسہ و
تربیت یافتہ افراد کی تخریبی کارروائیوں سے بھی عیاں ہیں جبکہ ممبئی حملوں
کے حوالے سے دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف شر انگیز منفی پراپیگنڈہ بھی اس
کا منہ بولتا ثبوت ہے اور بھارت اس وقت تک پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ
نہیں جب تک پاکستان اس کی شرائط مان کر حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کے
خلاف کارروائی نہیں کرتا بھارتی حکمران اپنے جنگی جنون اور جنگجویانہ عزائم
کی تکمیل کیلئے اسلحہ کے ڈھیر لگا رہے ہیں امریکہ اور روس دونوں سے اسلحہ
کی خریداری کے علاوہ اندرون ملک اسلحہ کے کارخانے دھڑا دھڑ فوجی ساز و
سامان تیار کر رہے ہیں جبکہ امریکہ سے سول نیوکلیر تعاون معاہدے کے بعد
بھارتی سائنس دانوں نے نئے ایٹمی تجربات کی راہ ہموار کرنے کیلئے یہ شوشہ
بھی چھوڑا ہے کہ 1998ء میں کئے گئے ایٹمی تجربات کامیابی سے ہمکنار نہیں
ہوئے اور این پی ٹی پر دستخطوں کیلئے سلامتی کونسل کی حالیہ قرارداد کو
ماننے سے انکار بھی بھارت کے جارحانہ عزائم کی چغلی کھاتا ہے۔
جبکہ یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت نے کبھی بھی پاکستان
کو ایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر تسلیم نہیں کیا اور اس نے ہمیشہ
پاکستان سے تقسیم ہند کا بدلہ لینے کی کوشش کی اس مقصد کیلئے اس نے پاکستان
کو کمزور اور غیرمستحکم کرنے کی سازشوں میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اس بین
حقیقت کے بعد بھی کیا بھارت سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ برابری کی
بنیاد پر دو طرفہ خوشگوار تعلقات کے قیام و استحکام کی خاطر ہمارے ساتھ
مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر کشمیر سمیت تمام بنیادی تنازعات پر ہم سے بات
چیت پر آمادہ ہو گا جبکہ وہ آج بھی کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے
اور اسکی تان اسی بات پر ٹوٹتی ہے کہ جب تک پاکستان کی جانب سے کشمیر میں
دراندازی بند نہیں ہوتی وہ پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں کرسکتا
خود بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا بھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ہم پاکستان
کے ساتھ جامع مذاکرات کی بحالی کی ضمانت نہیں دے سکتے انکے بقول مذاکرات کی
بحالی سے قبل پاکستان ممبئی حملوں کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لائے،
سوال یہ ہے کہ کیا اس پاکستان دشمن بھارتی رویے کی موجودگی میں خطے میں
پائیدار قیام امن کی خاطر بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھا جا سکتا
ہے اور کیا بھارت خود ہمارے ساتھ بے لوث مذاکرات پر آمادہ ہو سکتا ہے؟ جبکہ
وہ تو ہمیں غیرمستحکم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور ماضی
کی طرح آج بھی وہ باقی ماندہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ہنود و یہود
و نصاریٰ کی مذموم منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے۔
اس صورتحال میں جبکہ بھارت موجودہ فضاء کو ہماری سالمیت کیخلاف اپنی مذموم
سازشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے نادر موقع خیال کر رہا ہے، امریکہ
کس خوش فہمی کے تحت پاکستان بھارت دو طرفہ مذاکرات کی بحالی کیلئے اپنا
کردار بروئے کار لانے کی خواہش کا اظہار کر رہا ہے جبکہ بھارت خود ہمارے
ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو تیار نہیں امریکہ نے تو بھارت کو ہمارا
دوست ملک قرار دلانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور یہی کوشش ہمارے
موجودہ حکمرانوں کی بھی ہے، حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی اس منافقانہ پالیسی
کی وجہ سے ہی خطے میں طاقت کا توازن خراب ہوا ہے اور بھارت کو ساٹھ سال کے
بعد امریکہ کا پٹھو بن کر علاقے میں اپنی تھانیداری قائم کرنے اور اپنے
توسیع پسندانہ عزائم کو مزید وسعت دینے کا موقع ملا ہے آج امریکی آشیرباد
جدید ایٹمی اسلحہ اور فوجی تعاون کی بنیاد پر بھارت ہمیں ہڑپ کرنے کی
دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہے اور اپنے تربیت یافتہ دہشت
گردوں کے ذریعے دہشت گردی کا ملبہ ہم پر ڈال کر اقوام عالم میں ہمارا تشخص
ایک دہشت گرد ملک کے طور پر قائم کرنا چاہتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ بھارت ممبئی دھماکوں کے بعد متعدد مرتبہ
پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیکس کے ارادے بھی ظاہر کر چکا ہے اور ایک موقع
پر بھارتی وزیر دفاع پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں، جبکہ
گزشتہ روز سیالکوٹ بارڈر پر بھارتی فوج کی جانب سے پاکستانی فوج پر گولہ
باری بھی کی گئی ہے، ایک طرف جہاں بھارت اپنے جنگی سازوسامان میں اضافہ
کررہا ہے تو دوسری جانب وہ پاکستانی دریاؤں پر 62 ڈیموں کی تعمیر کا آغاز
کر کے آبی دہشت گردی کا مرتکب اور ہماری سونا اگلنے والی زرخیز دھرتی کو
بنجر بنانے اور بے آب و گیاہ چٹیل میدانوں میں تبدیل کرکے ہمیں بھوکا پیاسا
مارنے کی منصوبہ بندی بھی کر چکا ہے، اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ بھارت
پاکستان میں قومی نسلی اور لسانی فسادات اور مذہبی منافرت کو بھی ہوا دے
رہا ہے، گزشتہ دنوں یہ اطلاعات بھی منظر عام پر آچکی ہیں کہ بھارت نے
پاکستان کو توانائی اور آبپاشی کے شعبے میں مفلوج اور پاکستانی کی سرسبز و
شاداب زرخیز زمین کو بنجر ریگستان میں تبدیل کرنے کیلئے کالا باغ ڈیم کی
تعمیر رکوانے کی غرض سے 8ارب ڈالر کی خطیر رقم بھی خرچ کی ہے۔
بھارت کے یہ تمام پاکستان دشمن اقدامات دراصل ہماری دفاعی صلاحیتوں کو
چیلنج اور کھلا اعلان جنگ ہیں، حیرت کی بات ہے کہ یہ بھارتی اقدام عین اس
وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ خطے میں مستقل قیام امن کی خاطر پاکستان اور
بھارت کے مابین جامع مذاکرات کی بحالی کیلئے پاکستانی قوم کو بار بار یہ
باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ بھارت پاکستان کا دشمن نہیں، دوست ملک ہے،
ایک طرف امریکہ بھارت کو پاکستان کا دوست ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے تو دوسری
طرف وہ پاک بھارت سرحدوں پر تعینات پاک افواج کو وہاں سے ہٹوا کر قبائلی
علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف استعمال کرکے بھارت کو پاکستان کے خلاف
واک اوور کا ایڈوانٹیج دینے کیلئے بھی کوشاں ہے، امریکہ کی یہ کوشش اور
خواہش دراصل بھارت دوستی اور پاکستانی دشمنی کی واضح مظہر ہے۔
اب جبکہ بھارت نے ہماری سرحد کے قریب مگ 29 لڑاکا طیارے تعینات کر کے واضح
طور پر یہ عندیہ دے دیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف حتمی جنگی تیاریوں میں
مصروف ہے اور چند روز قبل پاک بھارت سرحد پر بھارتی افواج کی جانب سے
پاکستانی چوکی پر فائرنگ اور جھڑپ کے بعد پاکستان کو کسی خوش فہمی کا شکار
نہیں رہنا چاہئے، بھارت کی جانب سے ان اشتعال انگیز کاروائیوں کو جارحیت کے
ارتکاب کا اعلان سمجھ کر ہمیں امریکہ کو باور کرادینا چاہئے کہ وہ ہمیں
بھارت کو دوست سمجھنے کا درس نہ دے، بلکہ ہماری حکومتی سیاسی اور عسکری
قیادتوں کو اس مکار دشمن کی ممکنہ جارحیت کا جواب دینے اور اس کے بڑھتے
ہوئے ہاتھ توڑنے کی مکمل منصوبہ بندی کرنی چاہئے، کیونکہ ہمارا دشمن اپنی
بدخصلتی کے باعث ہماری سالمیت کے خلاف اپنے مکروہ عزائم کو عملی جامہ
پہنانے پر تلا بیٹھا ہے، جس طرح ایک کسان کسی جنگلی سانڈ کو اپنی ہری بھری
فیصلیں اور کھیتی اجاڑنے کا موقع نہیں دیتا بالکل اسی طرح ہم کسی طور بھی
بھارت کو یہ موقع فراہم نہیں کرسکتے کہ وہ اسرائیل امریکہ اور برطانیہ
وغیرہ کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف سازشوں کے جال بننے۔
یاد رکھیئے کہ بچھو کا کام اور اس کی سرشت ہی ڈنگ مارنا ہے اور بھارت وہ
بچھو ہے جس نے جب بھی موقع ملا ہے ہمیں ڈنگ مارا اور نقصان پہنچانے کی کوشش
کی، لہٰذا ایسے زہریلے بچھو کو اپنا دوست اور ہمدرد سمجھنا کوتاہ نظری خود
فریبی اور خام خیالی ہے حقیقت حال کا تقاضہ یہ ہے کہ سیاسی مصلحت آمیزی کے
خول سے باہر نکلا جائے بھارتی دوستی کی آڑ میں پاکستان کے استحکام اور
سالمیت کو نقصان پہنچانے کی سازشوں کو سمجھا جائے اور اس کے تدارک کیلئے
منظم حکمت عملی اختیار کی جائے یاد رکھیئے بھارت کے حضور پیشکشوں معاہدوں
رعایتوں مصافحوں معانقوں ملاقاتوں اور مداراتوں کے نذرانے چڑھانے سے کچھ
حاصل نہیں ہوگا بلکہ اس کے سامراجی ذہن برہمنی سوچ اور ہندو مکارانہ کردار
کو نکیل ڈالنے کیلئے طاقتور توانا پرعزم اور دو ٹوک جرات مندانہ موقف
اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ |