بے اعتدالیاں

بلاجواز تنقید:
اپنے وزیر بجلی بہت ناراض ہیں٬ لوڈشیڈنگ پر تنقید کرنے والوں کو وہ اول روز سے ہی مدلل جواب دیتے رہے ہیں مگر ناقدین کے مسلسل دباؤ کی وجہ سے معاملات پرویز مشرف معاف کیجئے پرویز اشرف کے ہاتھوں سے نکل کر اندرونی و بیرونی سرمایہ کاروں کے ہاتھ میں چلے گئے۔ سرمایہ کاروں نے اس تنقید کا یوں برا منایا کہ ردعمل کے طور پر سرمایہ کاری سے مکر گئے۔ یوں جن رینٹل پاورز کا قوم سے دسمبر تک کا وعدہ کیا گیا تھا وہ فا نہیں ہوسکا۔ اب اس وعدے کو پورا کرنے کیلئے شاید چھ ماہ اور لگ جائیں چھ ماہ کا بھی وعدہ ہے جس کا پورا ہونا ضروری نہیں۔

ناقدین اگر صبر سے کام لیتے تھوڑی سی لوڈشیڈنگ برداشت کرلیتے حکومتی اقدامات کا انتظار کرتے تو یقیناً سرمایہ کار ان کے رویوں سے مایوس نہ ہوتے اور دسمبر تک ہم بجلی کی نعمت سے مالا مال ہو جاتے.... ویسے آپس کی بات ہے یہ پہلا موقع ہے جب صرف تنقید سے چڑ کر سرمایہ کار بھاگ گئے۔ یہ سرمایہ کار لگتا ہے عزم اور خوداعتمادی کی دولت سے محروم ہیں جو پیشگی تنقید سے مایوس ہوگئے ورنہ اپنے حکمران تو مسلسل تنقید سنتے اور اسے نہایت کھلے دل سے برداشت کرتے ہیں حتیٰ کہ بالکل غلط اقدام پر بھی نہایت یکسوئی سے کاربند رہتے ہیں۔ کبھی اپنی غلطی کوتاہی تسلیم نہیں کرتے۔ حکومت نے جو کام کرنا ہوتا ہے تنقید کی کبھی پروا نہیں کرتی۔ اب بھی رینٹل پاور لگانے میں عوامی شور شرابہ کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ ممکن ہے تکنیکی مسائل ہوں اگر حکمران تنقید سننے اور اس پر عمل کرنے والے ہوتے تو اور بھی بے شمار معاملات عوامی امنگوں کے ترجمان ہوتے اور جتنی کچھ بجلی موجود ہے اس کے برابر تقسیم ہی کردیتے۔

فرمودات مولانا....!
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ اگر حکومت نے نفاذ شریعت کیلئے اقدامات نہ کئے تو ہم حکومت سے الگ ہو جائیں گے۔ انہوں نے کیری لوگر بل کو بھی امریکی غلامی کی دستاویز قرار دیا۔

مولانا اپنی اتحادی حکومت کو ہمیشہ حق کی یاد دلاتے رہتے ہیں ان کی غلطیوں پر متنبہ کرتے اور اسے اصل اور درست رستے کی نشاندہی اور تلقین کرتے رہتے ہیں اور جب نصیحتوں کی حد ہو جائے تو پھر حکومت سے علیحدگی یا استعفیٰ وغیرہ کی دھمکی دیتے ہیں۔ ان دھمکیوں اور ڈیڈ لائنوں کے نتیجے نہیں معلوم انہیں کچھ حاصل بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ ان کی مراعات وغیرہ میں بھی اضافہ ہوتا ہے یا نہیں لیکن اتنا معلوم ہے کہ مولانا بھی حکومتوں کی طرح بہت پرعزم اور مستقل مزاج واقع ہوئے ہیں دھمکیاں جتنی مرضی دیتے رہیں جلد علیحدگی اختیار نہیں کرتے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اقتدار سے الگ ہوتے ہی نہیں تو بے جا نہ ہوگا۔

حکومت ان کی دھمکیوں میں آکر مراعات میں اضافہ کرے تو یہ حکومت کی خوشی اگر حکومت بھی مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرے تو مولانا اسی تنخواہ پر کام کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ اس چھوٹی سی خبر میں ایک چھوٹا سا لطیفہ بھی چھپا ہوا ہے کہ مولانا موجودہ حکومت سے نفاذ شریعت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ خدایا یہ بھولپن یہ سادگی۔ مولانا کا امریکی غلامی کے باوجود حکومت میں شامل رہنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔

سلام ٹیچر....!
بہاولپور کے مضافات اُچ شریف کے علاقے میں ایک استاد نے سبق یاد نہ ہونے پر بچے کی اس انداز سے پٹائی کی کہ چوٹ لگنے سے اس کا سر پھٹ گیا۔ بچے کے سر سے خون بہتا دیکھ کر اس کا چھوٹا بھائی رونے لگا۔ استاد صاحب کا غصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا انہوں نے رونے والے بچے کو بھی ٹھڈے وغیرہ مارے جس کی وجہ سے وہ سیڑھیوں پر گر گیا جس سے اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔

کیا کیا جائے کہ ہماری حکومت اور ہمارے اساتذہ انتہا پسندیوں کی راہوں کے مسافر ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ استاد بچے کو نہ صرف ہاتھ تک نہ لگائیں بلکہ وہ زبان سے بھی کوئی ایسا سخت کلمہ ادا نہ کریں جس سے بچوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہو یعنی معمولی ڈانٹ ڈپٹ بھی جرم کے زمرے میں آتی ہے.... دوسری طرف استاد ”مار نہیں پیار“ کے سرکاری حکم کے باوجود نہ صرف زبانی عزت نفس مجروح کرتے ہیں بلکہ سر پھوڑنے اور ٹانگیں توڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسے اساتذہ کی تعداد اگرچہ بہت زیادہ نہیں تاہم ایسے اذہان کے پیچھے کام کرنے والے محرکات کا جائزہ ضرور لینا چاہئے۔ ایسی شدت پسندی کو جاہلانہ حرکت قرار دیا جاسکتا ہے۔ سرکاری ظلم یہ ہے کہ پست ذہن کے لوگوں کو قوم کا معمار بنا دیا جاتا ہے تہذیب کی کمی ہے تنخواہ سے گزارہ نہیں ہوتا تربیت کرنے والا کوئی ہے نہیں ایسے ٹیچر تو ایسے ہی پڑھائیں گے۔

بیک ٹو پویلین!
پاکستان کی کرکٹ ٹیم اپنی قسمت میں لکھی کارکردگی دکھا کر واپس آگئی۔ اگر ٹیم کے کھلاڑیوں کے مقدر میں مزید کروڑوں روپے کے انعامات اور تحائف لکھے ہوتے تو یہ نیوزی لینڈ سے نہ ہارتے.... کھلاڑی خاطر جعم رکھیں 50 اہم ٹورنامنٹ ہارنے کے بعد بھی ایک ٹائٹل جیت جائیں تو پاکستانی حکومت اور قوم کھلاڑیوں پر کروڑوں نچھاور کرتی ہے۔ ادارے بھی گولڈ میڈل اور کیش پرائز دیتے ہیں مگر اعتدال نام کی کوئی چیز ہمارے ہاں نہیں پائی جاتی۔ کامیابی ہوئی تو انعام و اکرام سے لاد دیا ناکامی ہوئی تو مخصوص بے عزتی سے بچنے کیلئے کھلاڑیوں کو چھپ چھپا کر ملک میں آنا پڑتا ہے۔ سزا و جزا کی انتہا کی بجائے میانہ روی بہترین طریقہ ہے۔
Muhammad Anwar Grywal
About the Author: Muhammad Anwar Grywal Read More Articles by Muhammad Anwar Grywal: 3 Articles with 2687 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.