فوج تو خود مظلوم ہے

لطیفہ جو میں لکھنا چاہتا ہوں انتہائی فحش اور غیر پارلیمانی ہے لیکن لکھے بغیر چارہ نہیں۔اس لئے اس لطیفے کو میں ممکن حد تک پارلیمانی بنا کے لکھنے کی کوشش کروں گا۔جو لوگ اصلی لطیفے سے واقف ہیں وہ پورا حظ اٹھائیں گے لیکن وعدہ ہے کہ صالح اور باسٹھ ٹریسٹھ پہ پورا اترنے والے میرے قارئین بھی مایوس نہیں ہوں گے۔ ستر سال کے ایک بابا جی خربوزوں کے کھیت کے پاس سے گزر رہے تھے کہ ایک جھاڑ سے انہوں نے دبی دبی ہنسی اور مسرت آمیز کلکاریوں کی آواز سنی۔بابا جی کے لئے چلنا مشکل تھا لیکن تجسس انہیں اس جھاڑ تک لے گیا۔جھانک کے دیکھا تو اندر ایک جوان لڑکا اور لڑکی خربوزے کھا رہے تھے۔بابا جی نے دیکھتے ہی دونوں کو پہچان لیا اور کہنے لگے اچھا تو یہ بات ہے۔تم یہاں چھپ کے چوری کے خربوزے کھا رہے ہو میں گاؤں جا کے مالک کو بھی بتاتا ہوں اور تم دونوں کے ماں باپ کو بھی شکایت لگاتا ہوں۔یہ سننا تھا کہ لڑکے لڑکی کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی اور انہیں نظر آنے لگا کہ چوری کے خربوزے کھانے کے چکر میں وہ کاری قرار دئیے جا سکتے ہیں۔لڑکی سمجھ دار تھی۔ اس نے بابا جی سے کہا کہ شکایت لگانے والی کیا بات ہے ۔میں خربوزے آپ کی خدمت میں بھی پیش کرتی ہوں ۔کھائیں اور موج اڑائیں۔بابا جی نے پہلے تو انکار کیا لیکن پھر راضی ہو گئے۔ لڑکی نے خربوزوں کی قاشیں کاٹ کے بابا جی کو پیش کیں۔بد قسمتی سے پہلا خربوزہ ہی کافی بد مزہ اور سخت تھا۔ بابا جی کے دانت تو تھے نہیں انہوں نے تھوڑی دیراس قاش پہ منہ مارا۔جب وہ خربوزے کا کچھ نہ بگاڑ سکے تو کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے ! نہیں میں شکائت ہی لگاؤں گا۔

ایک زمانے میں بھارت میں یہ چلن عام تھا کہ کسی کے ہاں اکٹھے تین بچے پیدا ہوتے تو بھارتی اس کا الزام آئی ایس آئی پہ دھرا کرتے۔کوئی آندھی کوئی طوفان کوئی زلزلہ آتا تو بنیا اس کا الزام آئی ایس آئی پہ لگا دیا کرتا۔ آجکل وطنِ عزیز میں یہی چلن ہے۔کہیں کسی کوکوئی تاوان کے لئے اغواء کر لے،کوئی پرانی دشمنی میں کسی کو قتل کر دے ،کوئی سیاسی پارٹی اپنے ہی کسی ناراض ونگ کے کارکنوں کے ہاتھوں زچ ہو رہی ہو۔کوئی پارٹی دھرنا دے رہی ہو،کسی نے جلسہ کرنا ہو کسی کو انتخابی اصلا حات درکار ہوں۔کوئی گیس بجلی پانی کی لوڈ شیڈنگ سے تنگ ہو۔کسی نے کسی غیر ملکی آقا سے پیسے پکڑے ہوں ۔سبھی آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ اور الزام فوج اور آئی ایس آئی پہ دھر دیتے ہیں۔ جب پاکستانی عوام اپنے جذبات اور خیالات سے ان کے دانت کھٹے کر دیتی ہے تو کہتے ہیں ٹھیک ہے پھر ہم شکایت لگائیں گے۔کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

اس ملک میں انسانی حقوق کی سر بلندی کا بڑا غلغلہ ہے۔سیاست دانوں کے حقوق ہیں اور سیاسی پارٹیوں کے بھی۔چوروں کے حقوق ہیں اور ڈاکوؤں کے بھی۔بھتہ خوروں کے حقوق ہیں اور ملک دشمنوں کے بھی۔اگر نہیں ہیں تو عوام کے نہیں اور عوام کی محافظ پولیس رینجرز اور فوج کے کوئی حقوق نہیں۔ ان ایجینسیوں کے حقوق نہیں جو اپنی زندگی ملک کی حفاظت کے لئے قربان کر دیتی ہیں۔جن کے بچے مہینوں ان کی شکل دیکھنے کو ترستے ہیں۔ جنہیں ان کے کام کا نہ پرائیڈ آف پرفارمنس ملتا ہے نہ ہی میڈیا پہ ان کی کوئی خبر آتی ہے۔چار بندے شہید کروا کے ایک دہشت گرد پکڑا جاتا ہے تو وہ پولیس کی تفتیش میں بری ہو جاتا ہے۔پولیس سے وہ عدالت چلا جائے تو عدالت عدم ثبوت کی بناء پہ اسے بری کر دیتی ہے ۔عدالت مہربانی کر کے اسے سزا دے دے تو انسانی حقوق کے علمبردار اور یورپی یونین والے آ جاتے ہیں اور ان سزاؤں پہ عمل درآمد کی مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں۔کچھ بھی نہ ہو تو دہشت گرد حکمرانوں کو ان کے بچے اغواء کرنے کی دھمکی دے کے سزاؤں پہ عملدرآمد رکوا دیتے ہیں۔ہم کمال لوگ ہیں ہم نے باؤلے کتے کھلے چھوڑ رکھے ہیں اور پتھروں کو زمین میں گاڑ دیا ہے۔

طاہر القادری اور عمران جلسے جلوس کر رہے ہیں لیکن یار لوگ دوربینیں لے کے اس میں بھی فوج اور آئی ایس آئی کا ہاتھ تلاش کر رہے ہیں۔ ملک کا وزیر اعظم خود کہتا ہے کہ احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن احتجاج کرنے کوئی نہیں دیتا۔ ہر معاملے میں یاروں کو فوج کا اور آئی ایس آئی کا ہاتھ نظر آتا ہے۔فوج تو اس لحاظ سے خود مظلوم ہے کہ اس کا ترجمان ایک حد سے زیادہ ترجمانی بھی نہیں کر سکتا۔ملکی آئین کہتا ہے کہ فوج کے خلاف نفرت پھیلانا جرم ہے لیکن سر عام فوج اور اس کے اداروں کی بھد اڑائی جاتی ہے۔حکومت مجرموں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے اور اپنے اداروں کا تحفظ نہیں کرتی۔فوج آئینی راہ اپناتی ہے تو فیصلہ سازادارہ معاملے کو طول دینے کے لئے وزارتِ قانون کی رائے مانگ لیتا ہے۔دوسری طرف طالبان اپنی کاروائیاں کرنے میں آزاد ہیں جبکہ فوج کے ہاتھ حکومت نے مذاکرات کی رسی سے باندھ رکھے ہیں۔آئے روز کہیں نہ کہیں فوج پہ حملہ ہوتا ہے اور اس کے آفیسرز اور جوان جامِ شہادت نوش کرتے ہیں۔فوج کا مورال گر رہا ہے لیکن حکومت کوئی فیصلہ ہی نہیں کر پاتی۔

عوام فوج کے آگے ڈھال نہ بنتے تو حکومتی شہہ پہ غیر ملکی رقوم پہ پلنے والا ادارہ فوج اور آئی ایس آئی کو روند کے گذر جاتا۔فوج جنرل کیانی کے دور سے اپنے آپ کو ملکی سیاست کے گند سے بطور پالیسی آزاد کر چکی۔فوج کی پالیسیاں آئے روز نہیں بدلا کرتیں۔جنرل راحیل پیشہ ور سپاہی ہیں اور انہیں بھی ملک سے اتنا ہی پیار ہے جتنا کسی محبِ وطن کو اپنے ملک سے ہو سکتا ہے۔انصاف کریں ،عدل کا نظام قائم کریں۔مجرم کو سزا دیں اور مظلوم کی داد رسی کریں ۔شکوک و شبہات سے حکومت بھی نکلے اور اس قوم کے دانشور بھی۔خربوزے کی قاشوں پہ منہ مارنے کے بعد شکایت لگانا بنتا نہیں۔یہ کیا کہ جب اپنی نا اہلی اور بد نیتی کا ملبہ اپنے اوپر گرنے لگے تو آپ طوفان اٹھا دیں کہ" نہیں میں تے شکایت ہی لاواں گا"

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268653 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More