ہاؤس آفیسرز کا مسئلہ ۔۔۔بھینس کے آگے بین

ینگ ڈاکٹرزایسوسی ایشن راولپنڈی نے کافی عرصہ پہلے مری روڈ پر پنجاب حکومت اور محکمہ صحت پنجاب کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا ،اس میں کچھ نوجوان ڈاکٹرزنے اپنا احتجاج ریکارڈ کر وانے کے لیے ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا تھا۔ وہ کہیں سے ایک بھینس لے آئے اور بیچ مری روڈ کے اُس کے سامنے بین بجانے کی ایکٹنگ شروع کر دی ،کسی نے وجہ پو چھی توکہنے لگے ہم کافی عرصے سے حکومت کی مریض کش اور ڈاکٹرز مخالف پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں،لیکن کہیں کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ،یوں لگ رہا ہے بھینس کے آگے بین بجارہے ہیں۔ پنجاب کے کچھ سرکاری ہسپتالوں میں ہاؤس آفیسرز کے کمی کے موضوع پر آج کالم لکھنے بیٹھا تو مجھے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا وہ انوکھا احتجاج یاد آ گیا، چونکہ ینگ ڈاکٹرز کے احتجاج کی طرح یہ کالم بھی پنجاب حکومت، محکمہ صحت ، ڈاکٹرز اور مریضوں سے متعلق ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس کالم کا بھی اُس احتجاج کی طرح کسی پر کوئی اثر نہیں ہو گا ،اس لیے مجھے لگتا ہے کہ میں بھی شائد بھینس کے آگے بین بجا رہا ہوں ۔پرائیویٹ میڈیکل کالجزاور باہر سے ایم بی بی ایس کرکے آنے والے ڈاکٹرز پرپنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں ہاؤس جاب کی پابندی والے جس فیصلے کی وجہ سے ہاؤس آفیسرز کی کمی کا یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے، اس فیصلے سے کچھ پہلے بھی میں نے اس موضوع پر ایک کالم لکھا تھا اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر ایساکوئی نوٹیفیکیشن آ گیا تو فوری طور پر کئی سرکاری ٹیچنگ ہسپتالوں میں ہاؤس آفیسرز بہت کم ہو جائیں گے، جس سے میریضوں کی دیکھ بھال میں شدید مشکلات پیدا ہوں گی ۔ لیکن یہاں مریضوں کی پرواہ کسے ہے،یہاں تو ارباب اختیار کو اپنی مرضی کے فیصلے ٹھونسنے کی عادت ہے اور ہمیشہ سے ہے ۔ میں نے روزنامہ پاکستان اسلام آباد میں چھپنے والے اس کالم میں لکھا تھا کہ پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ غیر دانشمندانہ ہے ،اس پر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں عربی کے ٹیچر عبد الجبار صاحب نے بہت خوبصورت تبصرہ کیا تھا ، انہوں نے لکھا تھا کہ آپ یہاں دانشمندانہ فیصلوں کی توقع کرتے ہی کیوں ہیں ؟ واقعی پاکستان میں دانشمندانہ فیصلے کم ہی ہوتے ہیں ، اکثر فیصلے سیاسی اور ذاتی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیے جاتے ہیں ۔ پنجاب میں صحت جیسے اہم شعبہ کو ایک مشیر صحت چلا رہے ہیں جو خودپیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں ،اس سے بڑا غیر دانشمندانہ فیصلہ صحت کے حوالے سے اور کیا ہو گا،راولپنڈی میڈیکل کالج کے ایک پروگرام میں موصوف خود کہہ چکے ہیں کہ مجھے اس شعبہ اور اس کے مسائل کا خاص علم نہیں کیونکہ میں ایک انجینئر ہوں ۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے ساتھ اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ڈاکٹرز ضرور وابستہ ہیں جن میں سے کسی کو بھی مشیر صحت مقرر کیا جا سکتا تھا، لیکن ان میں سے شائد کسی کا بھی بھائی وفاقی وزیر نہیں۔

خیر اس موضوع پر پھر کبھی بات ہو گی فی الحال ذکر ہسپتالوں میں ہاؤس آفیسرز کی کمی کا، راولپنڈی میڈیکل کالج سے منسلک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال راجہ بازار میں یہ معاملہ سنگین شکل اختیار کرچکا ہے۔ وہاں موجود دوستوں نے بتایا کہ سو بستروں پر مشتمل میڈیسن ڈیپارٹمنٹ میں مریضوں کی دیکھ بھال کیلئے صرف تین ہاؤس آفیسرزہیں ، سرجری میں چار یا پانچ ، جب کہ گائنی اور نیورو سرجری میں ایک بھی ہاؤس آفیسر نہیں ۔ میڈیسن اور سرجری ڈیپارٹمنٹ میں جو چند ہاؤس آفیسرز ہیں ان کی ہاؤس جاب بھی مئی کے پہلے ہفتے میں ختم ہو رہی ہے، جب کہ تین مئی کو ہونے والے راولپنڈی میڈیکل کالج کے انٹر ویو میں، خبر یہی ہے کہ ایک بھی نیا ہاؤس آفیسر ڈی ایچ کیو نہیں آ رہا ۔ ہاؤس آفیسرز نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کی دیکھ بھال تقریباََ نا ممکن ہے، یہ صورت حال صرف ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہی کی نہیں،اطلاعات یہی ہیں کہ سروسز ہسپتال لاہور سمیت کئی اور سرکاری ہسپتالوں میں بھی یہی حالات ہیں،لیکن اس سب کے باوجود محکمہ صحت اپنی پالیسی پر نظر ثانی کیلئے تیار نہیں،شائد وزیر اعلیٰ کی ناراضگی کا ڈر ہے ۔ راولپنڈی میڈیکل کالج کی انتظامیہ بھی اس صورتحال سے بے خبر نہیں لیکن حقائق کو اوپر تک پہنچانے میں انہیں بھی کوئی دلچسپی نہیں، نہ ہی وہ اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ راولپنڈی میڈیکل کالج میں نئے ہاؤس آفیسرز آنے میں جب کچھ تاخیر ہوئی تو پرنسپل صاحب نے یہ کہتے ہوئے پہلے سے کام کرنے والوں کی مدت نئے ہاؤس آفیسرز کے آنے تک بڑھا دی کہ میں ٹیچنگ ہسپتال بغیر ہاؤس آفیسرز کے کیسے چلاؤں،لیکن ڈی ایچ کیوکئی ماہ سے بغیر ہاؤس آفیسرزکے کیسے چل رہا ہے اس کی کسی کوپرواہ نہیں ۔راولپنڈی میڈیکل کالج کی انتظامیہ اگرہمیشہ کی طرح ڈی ایچ کیوکے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک نہ کرے تواس کی حد تک تو یہ مسئلہ یوں بھی حل کیا جا سکتا ہے کہ راولپنڈی میڈیکل کالج سے منسلک باقی دو ہاسپٹلز میں جو ڈاکٹرز ان پیڈ ہاؤس جاب کر رہے ہیں اُن کو پیڈ سیٹس پر ڈی ایچ کیو بھیج دیا جائے۔ یہ سارے مسائل پیدا نہیں ہوئے،بلکہ غلط فیصلوں کی وجہ سے پیدا کیے گئے ہیں اور ابھی بھی صحیح فیصلہ کر کے ان کوبا آسانی حل کیا جا سکتا ہے ،اگر یہ نو ٹیفیکیشن جا ری کر دیا جائے کہ جوپیڈ سیٹس متعلقہ میڈیکل کالج کے گریجویٹس کو دینے کے بعد بچیں گی وہ پنجاب کے دیگر سرکاری میڈیکل کالجز سے ایم بی بی ایس کرنے والوں کودی جائیں گی، اس کے بعد اگرسیٹس بچتی ہیں توپاکستان کے دیگرسرکاری میڈیکل کالجزکے ڈاکٹرزکاان پر حق ہوگا،اگر پھربھی سیٹس بچ جاتی ہیں تو پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے گریجویٹس اور باہر سے ایم بی بی ایس کرکے آنے والوں کووہ سیٹس دی جائیں گی۔لیکن ان کو ہاؤس جاب دینے سے پہلے ان کاباقاعدہ ٹیسٹ انٹرویو لیا جائے اور مطلوبہ معیار پر پورا اترنے والوں کو ہی پیڈ ہاؤس جاب دی جائے ۔ویسے مجھے امید نہیں کہ میری گزارشات کوئی سنے گا،لگتا یہی ہے کہ آخر میں بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہی ہوگی۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Dr M. Nadeem
About the Author: Dr M. Nadeem Read More Articles by Dr M. Nadeem: 15 Articles with 12249 views A medical specialist working as Assistant Professor of Medicine in a Medical college and also a non professional columnist... View More