پاک سعودی ایٹمی تعاون کا شر انگیز پروپیگنڈہ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

سعودی عرب میں چند دن قبل ہونے والی ’’شمشیر عبداﷲ ‘‘نامی تاریخی جنگی مشقیں جن میں بحری جہازوں، ہیلی کاپٹروں، ٹینکوں، میزائلوں اور میزائل شکن سسٹم کا بھرپور استعمال کیا گیااورصحرا کی سخت گرمی میں فوجی دستوں نے اپنی پیشہ وارانہ مہارت کا زبردست مظاہرہ کیا‘ اس کی گونج ابھی تک یورپی ممالک، اسرائیل اور بعض دیگر ملکوں میں سنائی دے رہی ہے۔ بلاشبہ یہ سعودی عرب کی تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشقیں تھیں جس میں بیرون ممالک سے آنے والے تمام مہمانوں نے سعودی عرب اور اس کی افواج کی دفاعی صلاحیتیوں کو سراہا ہے۔ ان مشقوں کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام دشمن ممالک میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔نت نئی آوازیں اور پروپیگنڈہ سننے کو مل رہا ہے۔ سعودی عرب کے خلاف ماضی میں پروپیگنڈہ کیاجاتارہا ہے کہ اس نے وطن عزیز پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام میں سرمایہ کاری کی ہے اور وہ اسلام آباد سے کسی بھی وقت ایٹمی ہتھیار حاصل کر سکتا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو نے 2013ء میں اس حوالہ سے ایک شر انگیز رپورٹ بھی نشر کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھاکہ ایران کے ایٹمی قوت بننے کے بعد سعودی عرب ایک ماہ بھی انتظار نہیں کرے گا ۔ رپورٹ میں مذکورہ نشریاتی ادارے کے سفارتی اور دفاعی امور کے مدیر مارک اربن نے نیٹو کے ایک اعلیٰ اہلکار سے گذشتہ برس کے آغاز میں اپنی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس افسر نے ایسی خفیہ رپورٹیں دیکھی تھیں جن کے مطابق پاکستان میں تیار کیے جانے والے جوہری ہتھیار سعودی عرب ڈیلیوری کے لیے تیار ہیں ۔بی بی سی نے اپنے پروگرام میں اسرائیلی فوج کے خفیہ محکمہ کے سربراہ امودیا دلن کی جانب سے سویڈن میں کی گئی پریس کانفرنس کابھی حوالہ دیاجس میں ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے ایٹم بم کیلئے پاکستان کو رقم کی ادائیگی کر دی ہے۔ وہ پاکستان جائیں گے اور جو چاہتے ہیں وہاں سے لے آئیں گے۔

پاکستان اور سعودی عرب میں جوہری تعاون کے الزامات نئے نہیں ہیں۔ یہ 1990 کی دہائی سے گردش کر رہے ہیں اور اس معاملے میں سعودی عرب پر پاکستانی میزائل اور جوہری لیبارٹریوں کے لیے رقم مہیا کرنے کی باتیں کی جاتی رہی ہیں‘ تاہم پاکستان نے ایسی رپورٹوں کی ہمیشہ سختی سے تردیدکی اور انہیں بے بنیاد، شرانگیز اور فرضی قراردیا ہے۔ بی بی سی کی مذکورہ رپورٹ کے فوری بعد اس وقت کے ترجمان دفتر خارجہ اعزازچوہدری نے سختی سے اس کی تردید کی اور کہاکہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ملک ہے۔ اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم نتہائی مضبوط اور عالمی جوہری ادارے آئی اے ای اے کے حفاظتی معیار کے مطابق ہے۔ مغربی ممالک کے بے بنیادپروپیگنڈہ کے ردعمل میں پاکستان کی طرف سے تمامتر وضاحتوں کے باوجود انہیں جب کبھی موقع ملتا ہے وہ اس حوالہ سے شرانگیزپروپیگنڈہ سے باز نہیں آتے۔ تین دن قبل اسلام آباد میں ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ اور ہتھیاروں پر کنٹرول سے متعلق بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں امریکی و برطانوی ماہرین نے ایک بار پھر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالہ سے چارج شیٹ پڑھ ڈالی۔ سنٹر فار پاکستان اینڈ گلف اسٹڈیز کے زیر اہتما م کروائے جانے والے سیمینار میں امریکہ کے سابق نائب وزیر دفاع برائے ایشیا پیسفک مسٹر مارک فٹز پیٹرک نے اپنے خطاب کے دوران سخت الزام تراشی کی اور کہاکہ پاکستان سعودی عرب کو ایٹمی ٹیکنالوجی اور ایٹمی میزائل فراہم کر سکتا ہے کیونکہ سعودی عرب ایرانی ایٹمی طاقت کے مقابلہ میں توازن چاہتا ہے۔ امریکہ پاکستان کیساتھ بھی سویلین ایٹمی سمجھوتہ کر سکتا ہے لیکن اس کیلئے پاکستان کو شرائط پوری کرنا ہوں گی‘ ان میں اوّلین شرط پاکستان سے دوسرے ملکوں کو ایٹمی ٹیکنالوجی کی منتقلی کو روکنا ہے۔ پاکستان نے ڈاکٹر اے کیو خان کو ایٹمی پروگرام سے الگ کر دیا ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنے میزائلوں کی رینج کو بھارت تک محدود اور ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد کو محدود کرنا ہو گا۔چیئرمین سینیٹ سید نیئر حسین بخاری کی زیر صدارت ہونیو الے اس سیمینار میں جوہری عدم پھیلاؤ کے پاکستانی اورعالمی ماہرین نے پاکستان کے جوہری پروگرام کے تحفظ و سلامتی کیلئے اْٹھائے گئے اقدامات پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیخلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ ختم،پر امن جوہری تعاون کا آغاز اوراسے نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی )میں شامل کیا جائے۔مقررین کی جانب سے واضح طور پر اس بات پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا کہ جوہری عدم پھیلاؤ ، تخفیف و تحدید اسلحہ کے مقاصد کے حصول کیلئے مسئلہ کشمیر وفلسطین کا دیرپا حل نکالنا ضروری ہے۔سینیٹر مشاہد حسین سید نے سیمینار کے دوران مدلل گفتگو کی اور کہاکہ بھارت نے پاکستان کو جوہری تجربات اور ایٹمی قوت بننے پر مجبور کیا وگرنہ پاکستان جنوبی ایشیاء کو جوہری ہتھیاروں سے پاک خطہ چاہتا تھا، بھارت توانائی کا صرف5فیصد جوہری ذرائع سے حاصل کرتا ہے لہٰذا امریکہ‘بھارت سول جوہری معاہدے کا مقصد سٹریٹیجک ہے پر امن نہیں جبکہ حقیقی مقصد جنوبی ایشیا میں چین اور پاکستان کیخلاف بھارت کو کھڑا اور افغانستان میں بھارتی اثر ورسوخ میں اضافہ کرنا ہے‘ لہٰذا مغرب کو دوہرا معیار ترک کرکے پاکستان کو سول جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی دینی چاہیے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ماہرین کی جانب سے سیمینار میں امریکہ بھارت جوہری معاہدہ اور کشمیر و فلسطین مسائل حل کرنے کے حوالہ سے کہی گئی باتیں بالکل درست ہیں۔ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ عالمی تنازعات کا حل نہ ہونا ہے۔جہاں تک پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کو ایٹمی ہتھیار فراہم کرنے کی بات ہے تو یہ ان دونوں ملکوں کے خلاف جاری پرانی پروپیگنڈہ مہم کا حصہ ہے جس میں سعودی عرب کی تاریخ ساز جنگی مشقوں کے بعد ایک بار پھر تیزی آئی ہے۔عالمی ذرائع ابلاغ کی بعض رپورٹوں میں کہاجارہا ہے کہ سعودی عرب کی اعلی قیادت نے مشقوں کے دوران جدیدنوعیت کے بیلسٹک میزائلوں کی نمائش کا فیصلہ کیا تاکہ ایران کو متنبہ کیا جا سکے اور اگر سعودی حکومت نیوکلیئر وار ہیڈز حاصل کر لیتی ہے تو اس کے بعد ریاض کے میزائل مشرق وسطی میں طاقت کا توازن بدل کر رکھ دیں گے۔اسی طرح یہ دعوے بھی کئے جارہے ہیں کہ پاکستانی فوج کے سربراہ کی نگرانی میں متعدد نیوکلیئر وار ہیڈز پاکستان سے سعودی عرب منتقل کئے گئے ہیں اوریہ منتقلی دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدے کے تحت عمل میں آئی ہے۔یہ رپورٹیں اور دعوے انتہائی گمراہ گن ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ سعودی جنگی مشقوں پر اسرائیل بھی زبردست تلملاہٹ کا شکار ہے اور اسرائیلی سکیورٹی اداروں میں’’ شمشیر عبداﷲ‘‘ جنگی مشقوں پر کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ ’’دپیکا‘‘ نامی ویب پورٹل نے ان مشقوں سے متعلق اپنی لمبی چوڑی رپورٹ میں پوری دنیاکو سعودی عرب کے خلاف اکسانے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ یہ جنگی مشقیں مشرق وسطیٰ میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے کی ایک کوشش ہے۔ اسرائیل کی طرح یورپی ذرائع ابلاغ میں بھی اس حوالہ سے طوفان کھڑا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے بروقت پاکستان اور سعودی عرب کے خلاف ایٹمی تعاون کے حوالہ سے کئے جانے والے پروپیگنڈہ کا رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کو نیوکلئیر ٹیکنالوجی کی برآمد کے الزامات بے بنیادو گمراہ کن ہیں۔افسوسناک امر ہے کہ بغیر ثبوتوں کے سیمیناروں میں اس طرح کی باتیں کر دی جاتی ہیں۔یہ تمام چیزیں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا حصہ ہیں۔عالمی جوہری ادارے نے ہمیشہ پاکستان کے نیو کلیئر سیفٹی اور سکیورٹی اقدامات کو سراہا اوراعتماد کااظہار کیاہے۔ دفتر خاجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کی یہ باتیں بالکل درست ہیں۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلا ف ستر کی دہائی سے زہر یلا پروپیگنڈہ جاری ہے۔ کبھی اسے اسلامی بم کہاجاتا ہے تو کبھی بھارت و اسرائیل کی طرف سے اسے تباہی سے دوچار کرنے کی مشترکہ سازشیں کی جاتی ہیں۔یہ بات صاف طور پر واضح ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف امریکہ ، یورپ، بھارت اور اسرائیلی حکومتوں میں پائی جانے والی نفرت کسی طور کم نہیں ہو سکتی۔ ان دنوں چونکہ پاکستان اور سعودی عرب تعلقات مزید مستحکم ہو رہے ہیں تو شرانگیز پروپیگنڈے کر کے اسے کمزور کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ متحد ہوکر ان سازشوں کو ناکام بنایاجائے اور پاکستان و سعودی عرب کے مابین دفاعی و معاشی تعلقات کو مزید مضبوط و مستحکم کیاجائے ۔

Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 126499 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.