ایک وقت تھا کہ موبائل نام کی کوئی چیز اس دنیا میں نہیں
تھی۔ تب لوگ انتہائی سکون کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ نہ ذہنی کوفت تھی اور
نہ ہی سر کا درد تھا۔ آج کل لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں لگے
ہوئے ہیں ۔ جس قدر وہ تیز بھاگ رہے ہیں اس قدر پریشانیاں بھی بڑھتی جارہی
ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جدید ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کر لی ہے۔
کبھی گراہم بیل کا فون بجتا ہوا سنائی دیتا تھا تب بھی لوگ بڑی حیرت سے اسے
دیکھتے اور سادہ سے تبصرے کرتے تھے۔ مگر اس جدید دور نے گراہم بیل کی ایجاد
سے بڑھ کر ایجادات کرڈالیں ہیں۔ موبائل فون بنایا، پھر اس میں مختلف قسم کے
نت نئے پرزے ڈال دیے جس سے انٹرنیٹ چلنے لگا، نیٹ کی رفتار کم تھی تو تھری
جی اور فورجی کی نیلامی کا سننے میں آیا اور پھر وہ بھی ہوگئی اور اب اس کا
جزوی طور پر باقاعدہ استعمال بھی شروع کردیا گیا ہے۔
موبائل فون دیکھنے میں ایک چھوٹی سی مشین ہے لیکن اس چھوٹی سی مشین نے
ہماری زندگیوں کے طور طریقے اور خیالات بدل کر رکھ دیے ہیں۔ معاشروں کے
معاشرے موبائل کے استعمال کی بدولت نہ جانے کہاں سے کہاں جاچکے ہیں۔ اس
موبائل کی افادیت تو بہت ہے مگر بات نقصان کی ہوتو اس سے کئی گھر اجڑ چکے
ہیں، کئی محلے بربادی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، کتنی ہی زندگیاں اس کا کھلواڑ
بن کر سسک سسک کر دنیا فانی سے کوچ کرگئی ہیں۔
جہاں انسان نے اتنی ترقی کی ہے کہ اپنے اپنے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے میں
انتہائی اہم کردار کیا ہے وہیں اس نام نہاد موبائل نے بھی معاشرے کی خرابی
میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جو کام ہمارے ٹیلی فون کر رہے تھے وہ کام موبائل
بھی کررہا تھا تاہم اس میں فری کالز اور سستے ترین پیکجوں نے ہمارے
نوجوانوں کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔
مگر اب تو پیکجز کی بات ایک ماضی بن چکی ہے یہاں توسوشل میڈیا کو سمیٹ کر
بھی اس موبائل میں ڈال دیا گیا ہے۔ وہ فیس بک ہو یا ٹوئٹر، وائبر ہو یا
واٹس اپ ناجانے کیا کچھ اس میں موجود ہے اور اوپر سے تھری جی اور فور جی کے
سستے ترین پیکجز کے بعد شایدہمارے نوجوانوں کا مستقبل کچھ ایسی صورت اختیار
کرجائے گا کہ ہمارے والدین کو معلوم تک نہیں ہوگا ان کی اولادیں کیا کر رہی
ہیں اور کس دنیا میں ہیں۔ وہ تو رات کو اپنے بچوں کو شب بخیر کہہ کر آرام
کی نیند سو جاتے ہیں کہ ان کے بچے آرام کر رہے ہیں تاہم ان کو معلوم نہیں
ہوتا کہ ان کی اولادیں موبائل پر سستا ترین انٹرنیٹ چلا کر اپنی مرضی کی
سرچنگ کر رہی ہیں، اپنی مرضی کے دوستوں سے گپ شپ کر رہی ہیں۔
ذرا غور کریں! رات گئے تک انٹرنیٹ کو استعمال کرنے والے یہ نوجوان صبح کو
کیسے اپنی تعلیم کو پورا کرسکتے ہیں۔ اب تو یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ
موبائل کی وبا نے ہماری نوجوان نسل کو ناکارہ بنانے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑی۔ کل تک جس نوجوان سیاست دانوں نے موبائل کو ایجاد کیا تھا کہ اس سے
ہمارے لئے آسانیاں پیدا ہوں گی آج وہیں ایجاد ہماری نوجوان نسل کے وقت کو
ضائع کر کے بگاڑنے کا سبب بنی ہوئی ہے۔ اب تو صورتحال یہاں تک گھمبیر ہوچکی
ہے کہ بچے تک موبائل استعمال کرنے لگے ہیں اور والدین ان کو موبائل استعمال
کرتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ ان کا بچہ موبائل چلانا سیکھ رہا ہے۔ مگر وہ
یہ نہیں سوچتے کہ جب ان کا بچہ موبائل کے ساتھ وقت گزارے گا تو وہ پڑھے گا
کب اور جب پڑھنے میں کمزوری ہوگی تو پھر اچھے رزلٹ کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
دوسری جانب اس موبائل کے نقصان میں خواتین بھی شامل ہیں۔ خاتون خانہ ایک
طرف کچن میں کام کر رہی ہوتی ہیں تو دوسری طرف اپنی کسی عزیزہ سے بات چیت
ہورہی ہوتی ہے۔ کچھ تو خواتین عام حالات میں ٹی وی ڈرامے اور دیگر کاموں
میں مشغول رہتی ہیں اور جیسے ہی کھانے کا وقت ہوتا وہ موبائل کو کان سے لگا
لیتی ہیں۔ ایسی خواتین کھانے کے دوران کسی اہم بات کو سننے کے لئے جب کسی
جگہ بیٹھ جاتی ہیں تو ان کو کھانا یاد تک نہیں رہتا چونکہ وہ کسی اہم نکتے
پر گفت و شنید کر رہی ہوتی ہیں لہذا ان کو ہنڈیا یاد ہی نہیں رہتی کہ وہ
تیز آنچ پر چوہلے پر رکھی ہے اور جب یاد آتی ہے تب ہنڈیا پک کر کالی ہوچکی
ہوتی ہے۔
جبکہ دفاتر و دیگر اہم کاموں میں مصروف طبقہ بھی موبائل کے غلط استعمال کے
باعث اپنے فرائض سے غفلت برتتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے دفاتر میں کام کی
رفتار انتہائی کم اور سست ہوتی جارہی ہے اور اگر ہمارے دفاتر میں کام کی
رفتار کم ہوگئی تو ہماری تجارت پر بہت اثر پڑے گا۔
یہاں پر ایک بات زیر غور ہے کہ موبائل کو ایک حد تک اور مکمل پابندی کے
ساتھ استعمال کیا جائے تو اس کے فوائد بہت ہیں۔ اس لئے ضروری ہے موبائل
کمپنیوں کے پیکجز پر نظر رکھنے کی بجائے اپنی صحت، اپنے وقت اور اپنے
اخلاقیات پر نظر رکھی جائے۔ بچوں پر کڑی نظر رکھی جائے کہ وہ کیا کر رہے
ہیں اگر وہ موبائل رکھتے ہیں تو اس کا استعمال کس انداز میں کرتے ہیں۔ جب
ہم اپنے بچوں پر چیک اینڈ بیلنس کا سلسلہ جاری رکھیں گے تب تک ہمارے بچے
اور ہمارا معاشرہ ہمارے لئے شرمندگی کا باعث نہیں بنے گا۔ ورنہ کتنے ہی
ایسے بچے ہیں جن کی پیدائش پر والدین افسوس کرتے نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ وہ
ان کی تربیت پر توجہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے ان کو وہ دن دیکھنے کو ملتا
ہے۔ اﷲ ہمیں ایسے دن دیکھنے سے محفوظ رکھے۔ آمین |