جدید مشینری کے دور میں کسان روایتی طریقے استعمال کرنے پر مجبور

میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب حکومت کی محکمہ زراعت کی جانب کوئی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے پنجاب بھر میں زرعی دفاتر کھنڈرات کا منظر پیش کررہے ہیں اوراس میں پڑے قیمتی زرعی آلات زنگ آلود ہورہے ہیں کام نہ ہونے کی صورت میں ماتحت عملہ گھروں میں ہاتھوں پہ ہاتھ رکھ کر مفت کی تنخواہیں وصول کررہا ہے زراعت پیشہ سے وابستہ زمینداروں کی اکثریت ان پڑھ ہے جو جدید دور کے زرعی آلات اور ٹیکنالوجی سے مستفید نہ ہے جس کی وجہ سے ملک میں زرعی پیدوار میں کماحقہ اضافہ نہیں ہوپارہا ہے -

پاکستان کا شمار دنیا کے بہترین زرعی ممالک میں ہوتا ہے اس کی ساٹھ سے ستر فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے اور الحمداﷲ پاکستان کے پاس دنیا کا بہترین نہری نظام بھی موجود ہے جس کی وجہ سے نہری زمینوں سے ہر موسم کی فصل کی بہترین پیدوار حاصل کی جاسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کی جانب سے اس اہم شعبہ کی طرف کوئی توجہ نہ دینے کی وجہ سے زراعت ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہے جو لوگ زراعت سے وابستہ ہیں ان میں اکثریت ایسی ہے جو نفع و نقصان کی پرواہ کیے بغیر اپنے آباو اجداد کے پیشہ کو اپنائے ہوئے ہیں موجودہ مہنگائی کے دور میں جب زمیندار ایک سال کی محنت کے بعد حساب کرتا ہے تو ماسوائے سال کا غلہ جمع کرنے کے کوئی چیز نظر نہیں آرہی ہوتی اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف یہ تصور کی جارہی ہے کہ حکومت کی طرف سے اس اہم شعبہ کی سرپرستی نہ ہونے کے برابر ہوکر رہ گئی ہے ماضی میں کسان اپنے کھیتو ں میں صرف جانوروں کا گوبر بطور کھا د استعمال کرتے تھے اور فصل میں پیدا ہونے والے جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کے لیے کسان کاپور اگھرانہ اپنے ہاتھوں سے صفائی کرتا اور ان جڑی بوٹیوں کو بطور جانوروں کاچارہ استعمال کیا جاتا سال بھر کی محنت سے زمیندار کا بڑی مشکل سے اپنے سال کا غلہ جمع ہوسکتا تھا اور زراعت کے بل بوتے پر پالے جانے والے جانور وں لائیوسٹاک کو ضرورت کے مطابق فروخت کرکے اپنے گھریلو اخراجات برداشت کیے جاتے تھے اب چونکہ سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت زرعی شعبہ میں بہت زیادہ تبدیلیاں آچکی ہیں جس سے پیدوار میں بے شمار اضافہ ممکن ہے لیکن گاؤں میں رہنے والے زمیندار اس بارے آگا ہ نہیں ہیں اور نہ ہی محکمہ کی جانب سے کسانوں کو نئی سہولیات سے متعارف کیا جارہا ہے جس کی وجہ بناء پر وہ فائد ہ حاصل نہیں کرپارہے ہیں جس سے ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ نوجوانوں نے اپنی توجہ زراعت کی جانب متوجہ کرنے کی بجائے پرائیویٹ و سرکاری ملازمت کے حصول کی جانب مبذول کرلی انہوں نے اپنے اباؤ اجداد کی زمینوں اور خاندانوں کو چھوڑ کر شہر میں آبا دہونے کو ترجیح دینا شروع کر دی اس سے سونا پیدا کرنے والی زرعی زمین بنجر نظرآنا شروع ہوگئی ہے چھوٹے سطح پر کاشتکار ی کرنے والے زمیندار ایک طرف بازار سے مہنگے داموں کھا داور بیج خریدنے پر مجبور ہیں اور دوسری جانب ان کو علم نہیں ہے کہ ان کی فصلوں کو تباہ و برباد کرنے والے جڑی بوٹیوں اور کیڑے مکوڑوں سے کس طرح نجات حاصل ہوسکتی ہے اور نہ ہی موسمی حالات سے باخبر رہنے کے لیے وہ کماحقہ آگاہی حاصل کرپارہے ہیں حکومتی سرپرستی اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کھاد کا ڈیلر فی بوری دو سے تین روپے مہنگی فروخت کررہا ہے فصل کی بوائی سے کٹائی اور اسکی صفائی تک کیلئے حکومت کی جانب سے کوئی ریٹ مقرر ہیں جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹریکٹر مالکان چھوٹے زمینداروں سے من مانے ریٹ وصول کررہے ہیں محکمہ زراعت (توسیع) کی کارکردگی کے حوالے سے ضلع راولپنڈی کی دیہی تحصیل کلرسیداں کاذکر کیاجائے تو یہاں صورت حال یہ ہے کہ ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفس میں ٹریکٹر ڈرائیور کی آسامی منظور نہ ہونے کے باعث ٹریکٹر گزشتہ تین برسوں سے آفس میں پڑا بے کار ہونے لگا ہے۔ کیڑے مار ادویات اور کھاد جو 1980 سے قبل دفتر سے باآسانی دستیاب ہوجایاکرتی تھیں اب یہ سہولت منظور شدہ ڈیلرز کو منتقل کر دی گئی ہے۔ گیارہ یونین کونسلوں میں سے چار یونین کونسلوں میں محکمہ زراعت کی ذیلی شاخیں موجود ہیں جبکہ چھ یونین کونسلوں میں زراعت کی سہولت کی عدم دستیابی کے باعث کاشتکاروں کو مشوروں کے حصول کیلئے کلر سیداں کے مرکزی دفتر کا رخ کرنا پڑتا ہے اور وہاں بھی کسانوں کو مطمن نہیں کیا جاتاہے۔کلر سیداں میں زراعت انسپکٹر کی ایک،فیلڈ اسسٹنٹ کی دو،بیلدار اور نائب قاصد کی ایک ایک آسامی بھی گزشتہ کئی برسوں سے خالی چلی آ رہی ہے۔یونین کونسل چوآ خالصہ،بشندوٹ،غزن آباد اور کنوہا میں محکمہ زراعت کی ذیلی شاخیں موجود ہیں جہاں فیلڈ اسسٹنٹ اور ایک عدد بیلدار مقامی کاشتکاروں کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں جبکہ دیگر چھ یونین کونسلوں میں محکمہ زراعت کی سہولت موجود نہیں ہے ان حالات میں محکمہ زراعت صوبائی حکومت پر ایک بوجھ بن کر رہ گیا ہے فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے افسران اور ماتحت عملہ صرف وقتی خانہ پوری کیے لیے دفاتر اور فیلڈ میں جاتا ہے جبکہ زمیندار ان سے بیج کھاد اور جڑ ی بوٹیاں تلف کرنے کیلئے ادویات کا تضاضہ کرتے ہیں تو ان کو کورا جواب دیا جاتا ہے کہ محکمہ کے پاس کوئی فنڈز موجود نہیں کہ کسانوں کو سہولیات فراہم کی جاسکیں اب چونکہ پنجاب بھر میں گندم کی فصل تیار ہے لیکن حکومت نے تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر کوئی خریداری مرکز قائم نہیں کیے ہیں جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے کاروباری حضرات چھوٹے کسانوں سے کم ریٹ میں دانہ خریدر ہے ہیں حکومت کو چاہیے کہ وہ زراعت کی جانب خصوصی توجہ دے تاکہ ملکی سطح پر زرمبادلہ کی صورت میں اہم کردار اداکرنے والا شعبہ تنزلی کا شکار ہونے کی بجائے ترقی کی جانب گامزن ہوسکے۔

Abdul Khateeb
About the Author: Abdul Khateeb Read More Articles by Abdul Khateeb: 20 Articles with 15569 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.