وفاقی وزارت داخلہ کی طرف سے سابق وفاقی وزیر
اطلاعات اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کو بتایا گیا ہے کہ ان
کی جان کو خطرہ ہے اور دو روز میں ان پر جان لیوا حملہ ہوسکتا ہے اس لئے
خود ان کے حق میں بہتر ہے کہ وہ اگلے چند روز کے لئے اپنی سرگرمیاں بند
کردیں ،تاہم وزارت داخلہ نے انہیں زبان بندی کی وارننگ نہیں دی ہے وہ کھل
کر بول سکتے ہیں باتیں کر سکتے ہیں میاں برادران پر جس طرح چاہیں تنقید کر
سکتے ہیں اور نجی ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر جس انداز میں چاہیں اپنا فلسفہ
بگھار سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی نت نئی سیاسی پیش گوئیاں بھی
کرسکتے ہیں جن کو عوام انتہائی دلچسپی سے دیکھ اور سن سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ شیخ رشید کا دشمن کون ہے ،وہ خود کہتے ہیں کہ ان کا کوئی
دشمن ہی نہیں ہے یوں بھی شیخ دوستیاں کرتے ہیں دشمنیاں نہیں پالتے۔ان کی
دوستیاں بھی مشہور ہیں اور دوستیاں ہی مشہور ہیں ،موصوف انتہائی بے ضرر ہیں
وہ فوج کی چاہت کا دم تو بھرتے ہیں لیکن یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ ان کے
کہنے پر کبھی فوج نہیں آئی نہ ہی آئے گی ۔وہ خود کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ
ان سے کوئی بھی نیا آنے والا مشورہ لے ،وہ حکو مت گراسکتے ہیں نہ ہی حکومت
بنا سکتے ہیں ۔جس شخص نے ابھی تک شادی ہی نہیں کی وہ اور کیا کچھ کرسکتا ہے
،ہاں وہ ہر حکومت کے ناقد ضرور ہیں اور تنقید کھل کر کرتے ہیں زبان کا بھی
موقع محل دیکھے اور بغیر دیکھے استعمال کرتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ زبان تخت تک
بھی لے جاسکتی ہے اور تختہ دار تک بھی اور تختہ دار کا سلسلہ حکومت نے اہل
یورپ کے دباؤ پر روک رکھا ہے کسی کو تختہ دار پر نہیں چڑھایا جارہا ہے۔
وہاں سے ڈالر آنا بند ہونے کا خدشہ ہے ،جہاں تک تخت کی بات ہے تو ایک نجومی
کا کہنا ہے کہ ایک دن آئے گا کہ شیخ رشید اس ملک کا وزیر اعظم ہوگا ،وہ دن
کب آئے گا ابھی تک اس کا ہمیں پتہ ہے نہ ہی شیخ رشید کو ۔عوام کی رائین میں
شیخ رشید کو خطرہ ان کی زبان سے ہوسکتا ہے اور کسی بندے بشر سے نہیں ،نہ ہی
طالبان سے نہ ہی ظالمان سے اور نہ ہی فیل بان سے جن کا اونٹ اقتدار کے خیمے
میں ایسا گھسا ہے کہ لگتا ہے کہ کسی بھی وقت چھپر پھاڑ کر باہر نکل آئے گا
کیونکہ خیمے کے اندر کا ماحول اس کے لئے اچھا نہیں ہے اور خیمے کے باہر بھی
اس کے دشمنوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو ایک سال کے بعد ہی اسے باہر نکال کر
خود خیمے میں گھسنا چاہتے ہیں ۔رکاوٹیں احتجاج کی ر اہ میں ڈالی جا ئیں یا
انتخاب کی راہ میں دونوں ہی اچھی نہیں ہوتیں اور ان کا نتیجہ ہمیشہ ہی غلط
نکلتا ہے ۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران شیخ رشید نے کہا ہے کہ دو تہائی
مینڈیٹ کی حامل موجودہ حکومت کو اسمبلی کے اندر سے کوئی خطرہ نہیں، حکومت
کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ ان کے اپنے پروردہ ہیں، حکومتی ٹیم نالائق وزرا
پر مشتمل ہے، انہوں نے کہا کہ بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لئے حکومت کی جانب
سے جس قدر پھرتی دکھائی جارہی ہے وہ حقیقی نہیں۔ یہ تمام کام گیارہ مئی کے
احتجاج کی وجہ سے کئے جارہے ہیں۔ آج حکومت کو یاد آگیا ہے کہ سوئس بینکوں
میں پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالرز پڑے ہیں۔شیخ رشید نے کہا کہ تحریک انصاف
کا احتجاج روکنے کے لئے اسلام آباد میں لگائے گئے کنٹینرز میں عوام کا
کروڑوں روپے کا سامان موجود ہے۔ حکومت سارے راستے بند کردے، وہ اور عمران
خان ضرور پہنچیں گے۔ ان کی لوگوں سے سیاسی مخالفت ضرورہے مگرکسی سے کوئی
دشمنی نہیں ، اگر انھیں کچھ ہوا تو اس کی ذمہ دار وفاق اور پنجاب حکومت
ہوگی۔واضح رہے کہ وزارت داخلہ نے شیخ رشید کو متنبہ کیا ہے کہ ان کی جان کو
شدید خطرات لاحق ہیں اور ان پر آئندہ دوروز میں حملہ کیا جا سکتا ہے۔ اس
لئے بہتر ہے کہ وہ آئندہ چند روز اپنی غیر ضروری نقل و حرکت کم کردیں۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ ان کی لوگوں سے سیاسی
مخالفت ضرورہے مگرکسی سے کوئی دشمنی نہیں، اگر انھیں کچھ ہوا تو اس کی ذمہ
دار وفاق اور صوبائی حکومت ہوگی۔
اب شیخ رشید نے اطلاع دینے والی حکومت ہی کو اگر کچھ ہوا تو اس کا ذمہ دار
قرار دے دیا ہے اگر حکومت آگاہ نہ کرتی تو تب بھی وہ مضرم قرار ٹحہرتی اگر
بتادیا ہے تو تب بھی اس کی شامت ،کیا کرے ۔۔۔۔ نہ بتائے لوگوں کو یونہیں
مرنے دے۔۔۔نہیں ایسا تو نہیں ہوسکتا ۔۔مرنے کے لئے عوام کیا کم ہیں جو خواص
کو بھی مرنے کے لئے کھلا چھوڑ دے آخر آج کا شیخ رشید لاکھ مخالف سہی کل ان
کا ساتھی بھی تو بن سکتا ہے ایک اچھے بولنے والے کی ہر پارٹی کو ہر وت اشد
ضرورت رہتی ہے ۔جس طرح راول پنڈی کے موسم کا اعتبار نہیں اسی طرح راولپنڈی
کی سیاست کا بھی کوئی اعتبار نہیں ،نہ جانے کب پلٹا کھا جائے یا کب کوئی
پانسہ پلٹ دے ۔۔۔۔ |