حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات
الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت جعفر بن زبر قان ؒ کہتے ہیں ہمیں یہ
بات پہنچی کہ حضرت سلمان فارسی ؓ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے تین آدمیوں پر
ہنسی آتی ہے اور تین چیزوں پر رونا آتا ہے ۔ ایک تو اس آدمی پر ہنسی آتی ہے
جو دنیا کی امیدیں لگا رہا ہے حالانکہ موت اسے تلاش کر رہی ہے ۔ دوسرے اس
آدمی پر جو غفلت میں پڑا ہوا ہے اور اس سے غفلت نہیں برتی جا رہی یعنی
فرشتے اس کا ہر برا عمل لکھ رہے ہیں اور اسے ہر عمل کا بدلہ ملے گا ۔ تیسرے
منہ بھر کر ہنسنے والے پر جسے معلوم نہیں ہے کہ اس نے اپنے رب کو خوش کر
رکھا ہے یا ناراض اور مجھے تین چیزوں پر رونا آتا ہے۔ پہلی چیز محبوب
دوستوں یعنی حضرت محمد ﷺ اور ان کی جماعت کی جدائی دوسری موت کی سختی کے
وقت آخرت کے نظر آنے والے مناظر کی ہولناکی تیسری اﷲ رب العالمین کے سامنے
کھڑا ہونا جبکہ مجھے یہ معلوم نہیں ہو گا کہ میں جہنم میں جاؤں گا کہ جنت
میں ۔
قارئین! وہ تمام ظاہری چیزیں جنہیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں در حقیقت
ایک کھیل تماشہ اور ختم ہو جانے والے مناظر ہیں ۔ لہو و لعب کی ایک اصطلاح
اس حوالے سے قرآنی مضامین اور احادیث میں استعمال کی گئی ہے ۔ یہ انتہائی
بد قسمتی ہے کہ ہم انہی کھیل تماشوں میں اس سنجیدگی کے ساتھ الجھ کر رہ گئے
ہیں کہ اس دنیا اور اپنے وجود کے اصل مقاصد کو فراموش کر بیٹھے ہیں دنیا
میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ یہ وقت در حقیقت معین ہے یعنی ایک خاص
وقت تک ہمیں یہ مہلت دی گئی ہے جس میں ہم نے اپنے ایمان کا امتحان دینا ہے
اور آخر میں جا کر کسوٹی پر ہر اچھا اور برا فعل تولا جائے گا جس کے بعد
ہمیشہ ہمیشہ کیلئے عزت عطا ہو گئی یا اﷲ نہ کرے ذلت نصیب ہو گی ۔ اﷲ تعالیٰ
ہر مسلمان اور ہر انسان کو راہ ہدایت نصیب کرے اور ذلت سے محفوظ رکھے ۔آمین
۔
قارئین ! آئیے اب چلتے ہیں موضوع کی جانب ۔9/11اور 7/7کے واقعات کے بعد یہ
دنیا یک دم بدل گئی تھی ۔پاکستان میں طبلے والی سرکار بلی مارکہ کمانڈو
جنرل مشر ف اس وقت میاں نواز شریف کی جمہوری حکومت کی بساط لپیٹنے کے بعد
’’ سب سے پہلے پاکستان ‘‘ کے راگ الاپ رہے تھے او ر ایوان صدر داد ِ عیش
لینے اور دینے والوں کا ہیڈ کوارٹر بن چکا تھا اور مغلیہ دور کے ایک بادشاہ
رنگیلا شاہ کے دور کی تصویر پیش کر رہا تھا بالکل اسی طرح کہ جب 1965اور
1971کی پاک بھارت جنگوں کے دوران پاکستانی جرنیل ہزاروں شہیدوں کے مقدس خون
کو فراموش کر کے ’’ کاک ٹیل اور مخلوط محفلوں ‘‘ کے اندر غرق تھے اور سقوط
ڈھاکہ کا سانحہ قریب ہونے کے باوجود ریڈیو پاکستان اور سرکاری ٹی وی افواج
پاکستان کی فتح کے دعوے کر رہے تھے لیکن حقیقت کچھ اور تھی ۔9/11کے بعد
انکل سام نے توپوں کا رخ تبدیل کیا اور جنرل مشرف کو پیغام بھیجا کہ آیا آپ
ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن ہیں میڈیا پر یہ خبر بھی بریک ہوئی کہ اس وقت
آئی ایس آئی کے سربراہ کے ذریعے یہ پیغام بھی امریکی انتظامیہ نے صدر
پاکستان جنرل مشرف تک پہنچایا کہ یا تو ہمارا ساتھ دیں ورنہ پتھر کے دور
میں واپس جانے کے لیے تیار ہو جائیں ’’ قوم کے وسیع تر مفاد میں ‘‘ جنرل
مشرف نے امریکہ کے تین مطالبوں کے جواب میں ان کے تین سو سے زائد مطالبے از
خود تسلیم کیے اور امریکی انتظامیہ بھی حیران رہ گئی کہ اس قدر تعاون تو
اگر وہ اپنے قریبی ترین اتحادی برطانیہ سے بھی طلب کرتے تو وہ نہ کرتا
۔دوسری جانب ایران اور ترکی نے امریکہ کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار
کر دیا اور حیران کن طور پر امریکہ نے انہیں ’’ پتھر کے دور ‘‘ میں نہ
دھکیلا اور وہ سکون آرام سے دنیا کے اس تختے پر آج بھی ترقی کی منازل طے کر
رہے ہیں امریکہ کے مطالبات تسلیم کرنے کے چند انتہائی بھیانک نتائج نکلے
پاکستان کے تمام ہوائی اڈے امریکی افواج نے افغانستان پر کارپٹ بمبنگ کے
لیے استعمال کیے امریکہ اور نیٹو افواج کی ستر فیصد سے زائد لاجسٹک سپورٹ
پاکستانی سر زمین سے کی گئی اسلحہ ،گولہ بارو د اور دیگر تمام ضروریات
زندگی ایساف فورسز کو پاکستانی سر زمین کے راستے افغانستان بھجوائی جاتی
رہیں اور پاکستانی سمندر اور ساحل اپنے ہی مسلمان افغانی بھائیوں کو ’’
بنیاد پرست ،القاعدہ ،طالبان اور دنیا کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ‘‘
قرار دے کر تباہ و برباد کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ۔افغانستان میں
بظاہر طالبان کی حکومت ختم کرنے کے بعد امریکہ بہادر نے شطرنج کی بساط پر
بچھائے گئے مہروں کو تبدیل کرتے ہوئے پاکستانی حکومت ،جنرل مشرف او ر سیاسی
قیادت سے ’’برابری کی سطح کے مذاکرات اور بات چیت ‘‘ کے بعد افغانستان کی
سر زمین پر چھیڑی گئی جنگ کا دائرہ پاکستانی قبائلی علاقوں تک وسیع کر دیا
اور وہ منحوس دن بھی آیا کہ جب پاکستانی قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون
حملوں میں شدت آئی اور اس کے ساتھ ہی افواج پاکستان کو قبائلی علاقوں میں
اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف ہتھیار استعمال کرنے پر مجبور کر دیا گیا ۔اس کے
آفٹر شاکس یہ ہوئے کہ پورا پاکستان خود کش بم دھماکوں سے لرز اٹھا اور
پاکستانی دار الحکومت اسلام آباد ،کراچی ،لاہور ،پشاور سے لے کر ہر اہم شہر
کے اندر خود کش بم دھماکوں کی ایک فصل اگ آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پچاس
ہزار سے زائد معصوم پاکستانی شہری شہید ہو گئے جب کہ دس ہزار سے زائد
پاکستانی فوجی اور سیکیورٹی اداروں کے جوان اس آگ میں جل کر خاکستر ہو گئے
جو عصرِ حاضر کے دجال امریکہ نے انتہائی شاطرانہ انداز میں ’’ دنیا میں امن
‘‘ قائم کرنے کی خاطر خود لگائی تھی ۔اس سب کا نتیجہ کیا نکلا کہ پاکستان
کی تمام ترجیحات بدل گئیں اور مسئلہ کشمیر کہ جس کے اوپر پوری پاکستانی قوم
ایک زبان تھی اور 1947سے لے کر 2001تک جس پاکستان کی خارجہ پالیسی کا فرنٹ
پیج مسئلہ کشمیر ہوا کرتا تھا اس پاکستان کی تمام پالیسیوں میں کشمیر کا
مسئلہ بیک بنچیز پر چلا گیا اور تیرہ سال تک مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں
ڈال دیا گیا کیونکہ 9/11کے بعد امریکہ نے واضع اعلان کر دیا تھا کہ کروسیڈ
یعنی صلیبی جنگوں کا دوبارہ آغاز ہو چکا ہے اور دنیا کے ہر اس خطے کی آزادی
کی جنگ دہشت گردی ہے جہاں مسلمان آزادی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
قارئین خدا خدا کر کے وقت بدلا اور پاکستان میں جنرل مشرف کے بعد
پیپلزپارٹی کی حکومت آئی اور آج وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی شکل میں
مسلم لیگ ن کی جمہوری حکومت قائم ہے اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد لاکھوں
کشمیری شہداء کے مقدس خون نے ایک مرتبہ پھر گواہی دی اور بیس اپریل کو یوم
شہداء کے موقع پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے انتہائی دبنگ انداز
میں پوری دنیا کے سامنے یہ اعلان کر دیا کہ کشمیر کے مسئلے کا حل دنیا کے
امن کے لیے ناگزیر ہے اور کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کشمیر کی آزادی تک
پوری پاکستانی قوم اور عساکر پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی حمایت جاری رکھیں
گے ۔جنرل راحیل شریف کا یہ اعلان کرنا تھا کہ دلی سرکار سمیت دنیا کی تمام
بڑی طاقتوں کے دارلحکومتوں میں کھلبلی مچ گئی اور بھارت نے ماضی کی طرح
واویلا مچانا شروع کر دیا ۔اس موقع پر آزادکشمیر کے وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید نے آزادکشمیر میں افواج پاکستان کے ساتھ یوم یکجہتی منانے کا
اعلان کیا اور لاکھوں کشمیریوں نے والہانہ انداز میں عساکر پاکستان کے سپہ
سالار جنرل راحیل شریف کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ دن منایا ہے ۔اس وقت
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں بھی افواج پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کر
رہی ہیں جس کی وجہ ایک میڈیا گروپ کی طرف سے آئی ایس آئی اور افواج پاکستان
پر سینئر اینکر حامد میر پر قاتلانہ حملے کے الزامات ہیں ۔مسلم لیگ ن
،پیپلزپارٹی اور دیگر اہم جماعتیں جن میں تحریک انصاف بھی شامل ہے وہ افواج
پاکستان کی حمایت میں فرنٹ فٹ پر آچکی ہیں اور اسی فیصدسے زائد ٹی وی چینلز
اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا افواج پاکستان کی حمایت کر رہے ہیں اس حوالے سے
ہم نے آزادکشمیر کے سب سے پہلے ویب ٹی وی چینل کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی پر
سابق وفاقی وزیر امور کشمیر جنرل عبدالمجید ملک اور سابق وزیر آزادحکومت
راہنما مسلم لیگ ن آزادکشمیر چوہدری رخسار کا ایک خصوصی انٹر ویو لائیو ٹاک
ود جنید انصاری اینڈ راجہ حبیب اﷲ خان میں کیا ۔گفتگو کرتے ہوئے سابق وفاقی
وزیر امور کشمیر جنرل عبدالمجید ملک نے کہا کہ افواج پاکستان کے سپہ سالار
جنرل راحیل شریف نے یوم شہداء کے موقع پر پوری پاکستانی قوم کے دلی جذبات
کی ترجمانی کرتے ہوئے واضع انداز میں بھارت اور پوری دنیا کو یہ پیغام دے
دیا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کشمیر کی آزادی تک پاکستانی قوم
کشمیریوں کی پشت پر کھڑی رہے گی یہ بات کسی کو اچھی لگے یا بُری لیکن عساکر
پاکستان کے سربراہ نے ایک سچی بات انتہائی جرات کے ساتھ پالیسی سٹیٹ منٹ کے
طور پر سب کے سامنے رکھ دی ہے کشمیریوں نے الحاق پاکستان اور پاکستان سے
محبت میں بے انتہا آزمائشیں آنے کے باوجود اپنے رشتے کو کبھی کمزور ہونے
نہیں دیا اور اسی طرح بہادر افواج پاکستان نے کشمیر کی آزادی کے لیے
لاتعداد قربانیاں دی ہیں۔سابق وزیر آزاد حکومت چوہدری رخسار نے اس موقع پر
کہا کہ جنرل راحیل شریف نے ایک ایسے موقع پر پوری پاکستانی قوم کے جذبات کی
ترجمانی کی ہے کہ جب کشمیری قوم میں یہ تاثر پھیل رہا تھا کہ شاید دنیا کے
حالات بدلنے کی وجہ سے پاکستان کی ترجیحات کشمیر کے متعلق تبدیل ہو چکی ہیں
لیکن چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے انتہائی دو ٹوک الفاظ میں کشمیر
پر کسی بھی قسم کے کمپرو مائز کو خارج از امکان قرار دے کر تمام غلط فہمیوں
کو دور کر دیا ہے وہ دن دور نہیں کہ جب کشمیر آزاد ہو کر پاکستان کا حصہ
بنے گا اور امتحان کا یہ وقت ختم ہو جائے گا ۔
قارئین جنرل عبدالمجید ملک اور چوہدری رخسار نے جو باتیں کہی ہیں غالب کی
زبان میں ہم یہ کہیں گے
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
تماشہ کر اے محوِ آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائےِ اہل کرم دیکھتے ہیں
قارئین ہم نے اسی حوالے سے ریڈیو آزادکشمیر ایف ایم 93میرپور کے مقبول ترین
پروگرام لائیو ٹاک ود جنید انصاری میں پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی چیئرمین
راجہ ظفر الحق ،وزیر آزاد حکومت چوہدری افسر شاہد ایڈووکیٹ اور آزادکشمیر
نیوز پیپرز سوسائٹی کے صدر چیف ایڈیٹر روز نامہ جموں کشمیر عامر محبوب کا
ایک خصوصی انٹرویو کیا جس کا موضوع ’’ یوم یکجہتی اور کرسی کے لیے لڑائی ‘‘
تھا ۔گفتگو کرتے ہوئے مرکزی چیئرمین مسلم لیگ ن سنیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا
کہ پاکستان او ر کشمیر کا آپس میں رشتہ خلوص محبت اور اعتماد کی بنیاد پر
قائم ہے ۔افواج پاکستان نے ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے دفاع کے لیے ہزاروں
شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور کشمیر کی آزادی کی خاطر پاکستان کی تمام
سیاسی قوتیں ،افواج پاکستان اور بیس کروڑ سے زائد پاکستانی ایک ہی پیج پر
ہیں ۔کشمیر کی آزادی کی خاطر پاکستان اپنے اصولی موقف پر پہلے بھی قائم تھا
اور آئندہ بھی قائم رہے گا ۔کشمیریوں نے پاکستان سے الحاق کے لیے بھارتی
جبر و استبداد کے سامنے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے اور پاکستان سے محبت کے
نتیجے میں آج تک لاکھوں کشمیری شہید ہو چکے ہیں جس طرح پاکستانی قوم
کشمیریوں کے ساتھ یوم یکجہتی مناتی ہے اسی طرح کشمیریوں کی طرف سے پاکستان
اور عساکر پاکستان کے ساتھ والہانہ انداز میں یوم یکجہتی منانا یہ ظاہر کر
رہا ہے کہ کشمیریوں اور پاکستانیوں کا رشتہ ناقابل شکست ہے سنیٹر راجہ ظفر
الحق نے کہا کہ 1940میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے موقع پر کشمیر ی
قیادت کے خصوصی وفد نے اجلاس میں شرکت کر کے کشمیریوں کی طرف سے پاکستان کے
ساتھ الحاق کا ووٹ دے دیا تھا ۔پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنا ہے
اور حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے افکار اور نظریات پر عمل پیرا ہو کر
ہم قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد حاصل کر سکتے ہیں ۔موجودہ دو ر میڈیا کا
دور ہے اور میڈیا کے ذریعے مختلف مذاہب اور ممالک سے تعلق رکھنے والے مختلف
نظریات کے لوگ اپنی اپنی ثقافت اور تہذیب دوسرے لوگوں تک پہنچانے یا ان پر
مسلط کرنے کی کوششیں کرتے ہیں بحیثیت حقیقی پاکستانی ہماری یہ کوشش ہونی
چاہیے کہ اپنے مذہب اور ثقافت کو سمجھیں اور اپنی نسلوں تک اسے درست انداز
میں پہنچانے کی کاو ش کریں ۔پر۔سنیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ ہم بھارت کے
ساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل پر امن انداز میں بات چیت کے ذریعے حل کرنا
چاہتے ہیں لیکن کشمیر کی آزادی پر پوری پاکستانی قوم کسی سمجھوتے کے لیے
تیار نہیں ہے ۔وزیرآزاد حکومت افسر شاہد ایڈووکیٹ نے کہا کہ وزیراعظم
آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کی خصوصی ہدایت پر پوری کشمیری قوم نے آج مسلح
افواج پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کر کے افواج پاکستان کی قربانیوں کو
سلام پیش کیا ہے ۔پاکستان کی بہادر مسلح افواج نے ملک کے دفاع کی خاطر
شہیدوں کے مقدس لہو کے نذرانے پیش کیے ہیں ۔پاکستانی افواج کے ساتھ یوم
یکجہتی مناکر آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے عوام نے یہ ثابت کیا ہے کہ
کشمیری قوم عساکر پاکستان کی قربانیوں سے آگاہ اور آشنا ہے افسر شاہد
ایڈووکیٹ نے کہا کہ میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ آزادکشمیر میں کیبل
آپریٹر ز کو کنٹرول کرنے کے لیے فی الحال پیمرا کام نہیں کر رہی کیونکہ
معاملہ عدالت میں زیر بحث ہے لیکن اس کی آڑ لے کر ہم کسی بھی کیبل آپریٹر
کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ چینلز جو پاکستان میں بھی ممنوع ہیں
اور اخلاقیات اور قانون ان چینلز کے آزادکشمیر کی دھرتی پر آن ایئر ہونے کی
اجازت نہیں دیتے ان چینلز کو ڈپٹی کمشنر صاحبان اور آزادکشمیر کے دس اضلاع
کی ضلعی انتظامیہ کے ذریعے فی الفور بند کروایا جائے گا ۔پیپلزپارٹی ایک
ایسی جماعت ہے جو ترقی پسند نظریات رکھتی ہے لیکن ترقی پسندی اور بے غیرتی
میں بہت فرق ہے ہم ترقی پسند ضرور ہیں لیکن اسلامی نظریات ،ثقافت اور اﷲ
اور اﷲ کے رسول ؐ کے احکامات پر عمل کرنا ایمان کی سلامتی کے لیے ناگزیر
خیال کرتے ہیں ۔نئی نسلوں کی نظریاتی نگہداشت اور پرورش کے لیے ہمیں اپنی
اقدار پر عمل کرنا ہو گا ۔ایک سوال کے جواب میں افسر شاہد ایڈووکیٹ نے کہا
کہ حال ہی میں مظفرآباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران سینئر منسٹر
چوہدری محمد یاسین اور وزیر خزانہ چوہدری لطیف اکبر کے درمیان کچھ غلطی
فہمی کی وجہ سے اختلافات ضرور پیدا ہوئے تھے لیکن اعلیٰ قیادت کی مداخلت
اور ان سینئر رہنماؤں کی معاملہ فہمی کی وجہ سے جو شکر رنجی پیدا ہوئی تھی
وہ دور ہو چکی ہے یہ پیپلزپارٹی کا ہی حوصلہ ہے کہ ہمارے جیالے کارکنوں سے
لے کر پارٹی کی اعلیٰ قیادت تک ہر معاملے پر ہر کسی کو اختلاف رائے کا پورا
حق اور موقع دیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے پیپلزپارٹی آج بھی عوام میں سب سے
زیادہ مقبولیت رکھتی ہے ۔آزادکشمیر نیوز پیپر ز سوسائٹی کے صدر عامر محبوب
نے اس موقع پر کہا کہ افواج پاکستان نے ملکی سلامتی اور اندرونی و بیرونی
خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور کشمیری قوم کی طرف
سے ملک کے دفاع کی خاطر ہر قربانی دینے والے اس ادارے کے ساتھ یوم یکجہتی
منانا احسان شناسی کہلاتا ہے عامر محبوب نے کہا کہ آزادکشمیر حکومت اور
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کا افواج پاکستان کے ساتھ یوم یکجہتی منانا
انتہائی احسن اقدام ہے لیکن آزادکشمیر میں ترقیاتی عمل کو تیز کرنا اور
کرپشن کو روکنا حکومتی پارٹی کی اولین ذمہ داری ہے عامر محبوب نے کہا کہ
مظفرآباد میں پروٹوکول کے مطابق وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کے
ساتھ کس وزیر کو بیٹھنا چاہیے اور کس وزیر کا کیا منصب اور مقام ہے اسے
واضع کرنا وزیراعظم ہی کی ذمہ داری ہے وقتی طور پر صلح صفائی کروا دینا
اچھی بات ہے لیکن کسی کو چھوٹا یا بڑا کہنا یا کسی کی توہین کرنا نامناسب
فعل ہے عامر محبوب نے کہا کہ وہ تمام میڈیا چینلز جو اخلاقی حدود و قیود کی
پاسداری نہیں کرتے اور پاکستانیت اور کشمیریت کی نفی کرتے ہیں انہیں ضلعی
انتظامیہ کو فوری طور پر بند کروانا چاہیے عامر محبوب نے کہا کہ میں نے یہ
بات پہلے بھی کہی تھی اور آج بھی دہرا رہا ہوں کہ پاکستانی سینئر اینکر اور
بہادر صحافی حامد میر پر کیا جانے والا قاتلانہ حملہ ایک بزدلانہ اور
وحشیانہ فعل تھا اور ہم زندگی کی آخری سانس اور جسم میں خون کے آخری قطرے
تک حامد میر کے ساتھ کھڑے رہیں گے چاہے ہم پر کتنا ہی دباؤ کیوں نہ ڈالا
جائے ۔میڈیا کی آواز کو دبانے کی بجائے تمام عناصر کو چاہیے کہ میڈیا جن
غلطیوں کی نشاندہی کر رہاہے انہیں درست کیا جائے ۔
قارئین آج کے اس طویل کالم کو مزید طوالت دی جا سکتی ہے لیکن بقول علامہ
اقبال ؒ
فروزاں ہے سینے میں شمع ِ نفس
مگر تابِ گفتار کہتی ہے بس
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک مؤکل نے اپنے وکیل کو فون کیا اور شدید گھبراہٹ میں اپنی پریشانی بتانے
کی کوشش کی
وکیل نے معمول کے مطابق اسے تسلی دیتے ہوئے کہا
’’ میرے عزیز گھبراؤ نہیں میں تمہیں جیل میں نہیں جانے دوں گا ‘‘
مؤکل نے چیخ کر جواب دیا
’’ وکیل صاحب میں جیل سے ہی بات کر رہا ہوں‘‘
قارئین ہمیں پاکستانی قوم اور پاکستانی قیادت پر پورا اعتماد ہے کہ وہ
کشمیریوں کو زیادہ عرصہ غلام نہیں رہنے دیں گے لیکن اس وقت کشمیری بھی
مقبوضہ کشمیر میں ایک قیدی کی زندگی گزار رہے ہیں اور بھارت نے پورے مقبوضہ
کشمیر کو فوجی بیرک اور جیل میں تبدیل کر رکھا ہے کاش مسئلہ کشمیر ایک
مرتبہ پھر پاکستان کی تمام پالیسیز میں ترجیحات میں شامل ہو جائے تا کہ
لاکھوں کشمیری شہدا ء کےء ورثا اور کشمیری قوم کو کچھ تو تسلی ہو ۔آمین |