ہمارے ایک عزیز اس وقت کے صوبہ سرحد کی صوبائی اسمبلی کا
الیکشن لڑ رہے تھے۔وہ ہماری نوجوانی کا زمانہ تھا۔نوجوانی میں بندہ سمجھتا
ہے کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ہم اس الیکشن کے لئے بہت پر جوش تھے۔ہمارے جوش
کو دیکھتے ہوئے ہماری مخالف امیدوار کے گاؤں کے پولنگ سٹیشن پہ ڈیوٹی لگی۔
پہاڑی علاقہ تھا اور پیدل سفر۔ہم ایک دن پہلے ہی چل پڑے۔ شام ڈھلے اس گاؤں
میں پہنچے تو ہماری بڑی آؤ بھگت ہوئی۔رہائش کا بندوبست ،بہترین کھانا ہمیں
پیش کیا گیا۔ہمارے میزبانوں نے ہمیں بتایا کہ وہ ہیں تو ہمارے مخالف
امیدوار کے حمایتی لیکن مہمان نوازی کے لئے سیاسی ہم آہنگی کا ہونا ضروری
تو نہیں۔ ہم ان کی سوچ سے بہت متائثر ہوئے۔ دوسرے دن ہم سویرے سویرے جاگ
گئے۔ہم نے اپنے میزبانوں کو بتایا کہ ہم پولنگ ایجنٹ ہیں اور ہمارا پولنگ
سٹیشن پہ پہنچنا ضروری ہے۔ہمارے بغیر الیکشن شروع نہیں ہوگا۔ہمیں بتایا گیا
کہ الیکشن تو شروع ہو گیا ہے۔ہماری طرح دوسرے پولنگ ایجنٹ بھی ادھر ہی
ہیں۔اس کے بعد سارے پولنگ ایجنٹس کو ایک ہال میں اکٹھا کیا گیا۔ انہیں لڈو
اور کیرم بورڈ فراہم کئے گئے۔میزبانوں کے تیور ایسے تھے کہ ہم سوائے کیرم
کھیلنے کے اور کچھ بھی نہ کر سکے۔شام کو پولنگ ختم ہوئی۔مخالف امیدوار نے
اس پولنگ سٹیشن سے ۹۷ فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔
ہر عروج کو زوال ہوتا ہے اور ہر غلطی نے کبھی نہ کبھی درست ہونا ہوتا
ہے۔سمجھدار سیانے اور بھلے لوگ اسے امن سکون اور اطمینان سے باہم صلاح اور
مشورے کے ساتھ درست کر لیتے ہیں۔غبی کند ذہن ڈھیٹ اور مستقبل نا شناس لوگوں
کی غلطیاں بیچ چوراہے ٹھیک کی جاتی ہیں۔اقبال فرماتے ہیں کہ فرد کی غلطی سے
قدرت اغماض برت لیتی ہے لیکن اقوام کی غلطیوں کی سزا دی جاتی ہے۔اس میں
کوئی شک نہیں کہ ہمارا انتخابی نظام بھی ایسی ہی ایک غلطی ہے جو بحیثیت قوم
ہم سے سرزد ہوتی ہے۔اس نظام میں حقیقی نمائندہ کسی طور بھی قانون ساز
اداروں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔آئین میں لکھا سب کچھ ہے لیکن اس پہ عمل
درآمد کہیں نہیں ہوتا۔باسٹھ تریسٹھ کی شق پہ اب شاید ہی کوئی پاکستانی پورا
اترتا ہو۔اس چھلنی میں سے حقیقتاََ پورا پاکستان بھی گذارا جائے تو شاید ہی
کوئی شخص اتنا پارسا اور متقی ہو کہ اس امتحان میں سر خرو ہو۔آئین میں پھر
ایسی شقوں کا کیا فائدہ؟
سب اس بات پہ متفق ہیں کہ ۷۰ء کے علاوہ پاکستان میں الیکشن کبھی شفاف نہیں
ہوئے۔ہوں بھی کیسے کہ الیکشن لڑنے کے لئے پاکستان میں جن وسائل کی ضرورت ہے
وہ شرفاء کے پاس تو ہوتے نہیں۔لمبا مال،مفروروں کی فوج اور انتظامیہ سے ملی
بھگت۔اس کے بغیر الیکشن جیتنا تو کجا الیکشن لڑنے کا بھی نہیں سوچا جا
سکتا۔طاہر القادری ایک بہترین منتظم ،اچھے عالم اور بے بدل مقرر ہیں۔ عملی
طور پہ سیاست کے مروجہ طریقوں سے نابلد اس شخص نے سب سے پہلے اس غلطی کی
نشاندہی کی۔ ہمارے میڈیا اور دانشوروں نے اس کی کھلی اڑائی۔کسی نے اسے
جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی سازش قرار دیا۔کسی نے اسے غیر ملکی ایجنڈا
کہا۔کسی نے اسے دیوانے کی بڑ قرار دیا۔چاہئیے تو یہ تھا کہ بات کرنے والے
پہ نہیں بات پہ توجہ دی جاتی لیکن شومئی قسمت کہ یہ مطالبات جن کو سب سے
زیادہ سوٹ کرتے تھے انہوں نے بھی بیچ چوراہے قادری صاحب کو اکیلا چھوڑ دیا
اور قادری صاحب حسب عادت" وہ آیا اسنے دیکھا، فتح کیا اور پھر خود کشی کر
لی" کے مترادف حکومت سے ایک پھسپھسا سا معاہدہ کیا اور ٹائیں ٹائیں فش۔یار
لوگ کہتے ہیں کہ قادری صاحب کو بھی مصباح الحق کی طرح میچ فنش کرنا نہیں
آتا۔وہ آفریدی کی طرح تابڑ توڑ چوکے چھکے مارتے اور پھر آفریدی ہی کی طرح
تیسری بال پہ آؤٹ ہو کے پویلین لوٹ جاتے ہیں۔
اب کی بار پھر قادری صاحب پرانے ایجنڈے کے ساتھ میدان میں ہیں۔قادری صاحب
کے ووٹرز نہیں یہ ان کے معتقدین ہیں جو ان کی کال پہ اپنے بچوں کو لے کے
سڑکوں پہ آتے ہیں۔ اعتقاد اکثر اوقات اندھا ہوتا ہے۔اسے حکم ماننا ہوتا ہے
وہ نتائج کی پروا نہیں کرتا۔انہیں منزل سے نہیں راستے سے محبت ہوتی ہے۔اب
کی بار فرق یہ ہے کہ قادری صاحب کے ساتھ عمران خان بھی تقریباََ وہی ایجنڈا
لے کے اپنے دیوانوں کے ساتھ سڑکوں پہ ہیں۔ پچھلے سال عمران عین وقت پہ
قادری صاحب کو غچہ دے گئے تھے لیکن اب کی بار قادری صاحب نے پورے پاکستان
میں میلہ سجایا اور عمران خان نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں۔غیر جانبدار
مبصرین کہتے ہیں کہ یہ ایک گرینڈ شو تھا۔عمران کو سرد و گرم چشیدہ شیخ رشید
کی حمایت بھی حاصل ہے اور مشورہ بھی۔شیخ رشید ون مین آرمی ہیں۔فساد کے
ماہر،پھڈہ کرنا جانتے ہیں لیکن عوامی حمایت کے بغیر ۔وہ سیانے آدمی ہیں اس
کمی کو انہوں نے عمران خان سے اتحاد کر کے پورا کر لیا ہے۔وہ اشارے بازی کے
ماہر ہیں۔کبھی پنڈی کا اشارہ دیتے ہیں اور کبھی کہیں اور کا۔
بات سامنے کی ہے کہ انتخابی اصلاحات پہ اب کام کرنا پڑے گا۔اب مکر اور فریب
سے الیکشن جیتنے کا وقت گذر چکا۔ریاست ماں کے جیسے ہوتی ہے اور حکومت اس
ماں کی نگران۔حکومت کے لوگ حزب اقتدار کا کردار ادا نہیں کیا کرتے۔حکومت
بات چیت سے مسائل کا حل نکالا کرتی ہے۔بات تو سننا پڑے گی عقل اور سمجھ سے
سن لی جائے تو فساد نہیں ہو گا لیکن اگر عقل اور سمجھ کا استعمال نہ ہوا تو
بالآخر دمادم مست قلندر ہونے کے چانسز ہیں۔بات بڑھانے سے بہتر ہے کہ بات
سنبھال لی جائے۔وہ زمانہ گیا جب آپ پولنگ ایجنٹوں کو لڈو اور کیرم بورڈ دے
کے رام کر لیا کرتے تھے ان خلق خدا جاگنے کو ہے۔اس سے پہلے کہ یہ مکمل
بیدار ہوں اور ان کے ہاتھ آپ کے گریبانوں تک پہنچیں عزت اور شرافت کے ساتھ
ملک کا مستقبل محفوظ کیجئیے اور اپنے بچوں اور دولت کا بھی۔ مکالمہ عزتیں
بھی بچاتا ہے اور دولت بھی۔فیصلے سڑکوں پہ ہوں تو وہ انتہاؤں کو چھوا کرتے
ہیں اور انتہائیں عذاب ہوتی ہیں چاہے مذہب ہی میں کیوں نہ ہوں۔خواجے تاریخ
میں کبھی انتہاء پسند نہ تھے پتہ نہیں ہمارے وقت کے خواجوں نے سلاجیت کھا
لی ہے شاید! |