گیارہ مئی کی پاکستان کی تاریخ اپنی پہچان آپ ہے کیوں اس
پاکستانی قوم نے اس بہت ’’انتخابات اور احتجاج‘‘ اہم فیصلے کیا عالمی
اورقومی اخبارات شائع ہونیوالی خبروں و تبصروں پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا
ہے کہ تحریک انصاف نے اسلام آباد میں اور علامہ طاہر القادری کی پاکستان
عوامی تحریک نے ملک بھر میں ریلیاں منعقد کر کے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ
کیا ہے۔ اسلام آباد کا جلسہ تعداد اور جوش و خروش کے اعتبار سے شاندار تھا
لیکن عمران خان یہ واضح کرنے میں ناکام رہے کہ ان کا اصل مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے اسلام آباد میں خطاب کے دوران جو
مطالبے کئے ہیں وہ نوعیت کے اعتبار سے خاصے مختلف نوعیت کے ہیں۔ ان میں سے
بیشتر مطالبوں پر عملدرآمد کی صورت میں 2018ء کے انتخابات میں تبدیلیاں
دیکھی جا سکتی ہیں لیکن موجودہ نتائج پر ان کا اثر مرتب ہونا مشکل ہے۔
اگرچہ تحریک انصاف نے گزشتہ برس مئی میں منعقد ہونے والے انتخابات میں
مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اپنی تقریر میں
عمران خان اپنے حامیوں اور مخالفین کو یکساں طور پر یہ بتانے میں ناکام رہے
ہیں کہ اس دھاندلی کا تدارک کس طرح کیا جا سکتا ہے۔
مبصرین کے مطابق ان کی پوری تقریر میں درحقیقت صرف ایک ہی ایسا مطالبہ
سامنے آیا ہے جس کو تسلیم کرنے کی صورت میں عمران خان کی اشک شوئی بھی ہو
سکتی ہے اور شاید ان کی تحریک کی حدت بھی کم ہو جائے۔ ان کا تقاضہ ہے کہ
چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کے ذریعے ووٹوں کی تصدیق کروائی جائے۔ ان
چار حلقوں میں لاہور کے تین حلقے بھی شامل ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ان حلقوں
میں تصدیق کے عمل کے بارے میں تحریک انصاف کا مطالبہ مان لیا جائے تو عمران
خان کا غصہ کم ہو جائے گا۔ کیونکہ گزشتہ برس ہونے والے انتخابات کے بارے
میں ان کا صرف یہی ایک ٹھوس اور دوٹوک مطالبہ سامنے آ سکا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لئے یہ مطالبہ ماننا سیاسی طور پر مشکل ثابت ہو
سکتا ہے۔ اول تو اس مطالبہ کو ماننے سے ملک کے متعدد دوسرے حلقوں میں ووٹوں
کی تصدیق انگوٹھوں کے نشان سے کروانے کے مطالبے سامنے آ سکتے ہیں۔ دوسرے ان
حلقوں میں اگر انگوٹھوں کے نشانات سے یہ ثابت ہو گیا کہ عمران خان کا
اعتراض درست تھا اور جیتنے والے امیدواروں کو دھاندلی کے ذریعے کامیاب
کروایا گیا تھا تو 2013ء میں ہونے والا پورا انتخابی عمل مشکوک ہو جائے گا۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت اتنا بڑا خطرہ مول لینے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔ لیکن
یہ بھی ممکن ہے کہ عمران خان کے اندازے اور مسلم لیگ (ن) کے اندیشے درست نہ
ہوں۔ اور ان حلقوں میں عمران خان کے مطالبے کے مطابق تصدیق کے عمل سے بھی
وہ نتائج سامنے نہ آئیں جو تحریک انصاف کی خواہش ہے۔ اس صورت میں عمران خان
حکومت کے خلاف جو تحریک منظم کرنا چاہ رہے ہیں ، اسے شدید دھچکہ لگے گا۔
یہ دھچکہ تو اس صورت میں بھی لگے گا اگر حکومت فوری طور پر اس مطالبے کو
تسلیم کر لے۔ اس طرح پاکستان تحریک انصاف کو دھاندلی کے نام پر مزید ہنگامہ
آرائی کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ان حلقوں میں نتائج
تبدیل ہونے کی صورت میں حکومت کو مکمل یا جزوی طور پر خفت کا سامنا کرنا
پڑے لیکن اگر میاں نواز شریف اس وقت سیاسی جراتمندی کا مظاہرہ کریں تو وہ
اپنی ساکھ کے علاوہ ملک میں جمہوری نظام کی بقا کے لئے بھی اہم کردار ادا
کر سکتے ہیں۔
سیاسی گفتگو کے علاوہ آزادء اظہار اور عدلیہ کے رول کے بارے میں بھی عمران
خان نے اس خطاب میں گفتگو کی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ ملک میں ناانصافی کا
شکار ہونے والوں کو انصاف کے حصول میں بے حد مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے
اپنے ایک ساتھی کا ذکر کیا جس کو انتخابی دھاندلی پر عذر داری کے لئے 57
لاکھ روپے صرف کرنے پڑے۔ یہ ایک جائز گلہ ہے لیکن عدالتی نظام صرف انتخابی
شکایتوں کے حوالے سے ہی مشکل نہیں ہے۔ عدلیہ بحالی تحریک اور خود مختار
عدلیہ کے قیام کے بعد اگرچہ اصلاحات کا عمل شروع ہؤا ہے لیکن اس کی رفتار
سست ہے اور اس کے ثمرات ابھی لوگوں تک نہیں پہنچ رہے ہیں۔ تاہم عدالتی نظام
کی اصلاح کو انتخابی دھاندلی کے معاملہ کے ساتھ مل کر اس کے ذریعے سیاسی
فائدہ اٹھانے کی کوشش کو مناسب رویہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اسی طرح عمران خان نے جیو اور جنگ اور ان اداروں کے مالک میر شکیل الرحمن
پر جو الزامات عائد کئے ہیں وہ ایک قومی لیڈر کو کسی طرح زیب نہیں دیتے۔
اگر تحریک انصاف کے قائد کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ جیو اور اس کے مالک
بیرونی طاقتوں سے سرمایہ لے کر ایک سازش کے تحت ملک میں سیاسی ایجنڈا مرتب
کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں ، تو انہیں اس پر جلسہ عام میں تقریر کرنے کی
بجائے تمام شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ عدالتوں کا رخ کرنا چاہئے۔ اس طرح وہ
ایسے عناصر کو بے نقاب کر سکتے ہیں جو ملک دشمنی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ تاہم
اگر عمران خان کے پاس اس قسم کے شواہد موجود نہیں ہیں تو اس قسم کی الزام
تراشی سے وہ لوگوں میں غیر ضروری ہیجان یا بے چینی پیدا کرنے کا سبب بن رہے
ہیں۔
عمران خان کے علاوہ علامہ طاہر القادری نے ملک میں گلیوں کوچوں کی رونق میں
اضافہ کیا۔ ان کے حامی متعدد شہروں میں جلوسوں کی صورت باہر نکلے ، پھر
جلسہ گاہوں میں جمع ہو کر ویڈیو لنک کے ذریعے کینیڈا سے اپنے لیڈر کے
ارشادات سنے۔ علامہ طاہر القادری کے ارشادات خواہ کتنے بھی قیمتی ہوں لیکن
وہ ہر بار کی طرح اس بار بھی کوئی نئی بات کہنے ، کوئی تجویز پیش کرنے یا
اصلاح احوال کے لئے منصوبہ سامنے لانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ
انہوں نے اپنے حامیوں کو مئی کے گرم مہینے میں پاکستان میں سڑکوں پر نکلنے
کا حکم دیا لیکن خود کینیڈا میں اپنی آرام گاہ سے باہر نہیں نکل سکے۔ اگر
کوئی لیڈر پاکستانی عوام کے مسائل حل کرنا چاہتا ہے تو دیگر باتوں کے علاوہ
اسے کم از کم ان لوگوں کے درمیان ضرور ہونا چاہئے جن کی فلاح کے لئے وہ بے
چین ہے۔
ملک بھر کے مختلف حصوں میں سیاسی شو بہت سے لوگوں کی تفریح اور مصروفیت کا
سبب ضرور بنا ہے۔ تاہم لیڈروں اور جماعتوں نے اس شو آف پاور کے لئے جو
وسائل صرف کئے ہیں ، انہیں بہتری کے دسیوں دیگر منصوبوں پر صرف کر کے مثبت
نتائج حاصل کئے جا سکتے تھے۔ ان جلسوں میں پرانے نعرے اور الزامات سننے کو
ملے۔ مختصراً صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ شو طاقت کے پرانے مظاہر کا
چربہ تھے اور جو لوگ نہایت تندہی سے کوئی نئی بات سننے یا نئی منزل کھوجنے
گھروں سے باہر نکلے تھے ، ان کے پیسے بہرحال پورے نہیں ہوئے۔ |