وہ سب اتنے ہی معتبر مسلمان تھے
جس قدر لاہور کی بادشاہی مسجد کے امام مسلمان ہیں۔ وہ سب ہی عقیدہ ختم نبوت
پر اتنا ہی پختہ یقین رکھتے تھے جتنا غازی علم دین شہید کا ایمان کامل تھا۔
وہ سب حضور نبی کریم ﷺ کے عاشق صادق تھے جنہیں محض اس لیے موت کے گھاٹ اتار
دیا گیا۔جن کی زندگی کے روشن چراغ محض اس لیے گل کر دئیے گے کہ انہوں نے
چند مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں یرغمال بننے سے انکار کیا۔ اور ان بے چاروں کا
مقدمہ لڑنے کی حامی بھری جن پر( بقول ان کے ) جھوٹے توہین عدالت کے الزامات
عائد کیے گے تھے۔لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عارف اقبال بھٹی سے لیکر راشد
رحمان ایڈووکیٹ تک سب کے سب ملا فضل اﷲ سے بڑھ کر سچے عاشقان محمد مصطفی ﷺ
تھے۔سابق گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والا مذہبی جنونی شائد اس معیار کا
مسلمان نہیں ہے جس معیار کا مسلمان مرحوم سلمان تاثیر تھا۔ اس بات کو فیصلہ
کسی ان پڑھ یا واجبی سی تعلیم رکھنے والے ’’ملا‘‘ کو کیونکر سونپ دیا جائے
کہ وہ طے کرے کہ کون مسلمان ہے اور کون غیر مسلمان……
سلمان تاثیر کو اسلیے گولیوں سے بھون دیا گیا کہ اس نے شیخوپورہ جیل میں
قید ایک کرسچین عورت آسیہ بی بی کی اپیل پر اسے انصاف دلانے کی بات کی……مذہبی
جنونیوں کو مرحوم سلمان تاثیر کا وجود صفہ ہستی سے مٹانے کی ٹھان لی اور ان
کے ہی گارڈ کے جذبات سے کھیل کر اسے سلمان تاثیر کی حیاتی کا چراغ گل کرنے
پر آمادہ کرلیا اور اس نے سلمان تاثیر کو دورہ اسلام آباد کے دوران قتل
کرکے اپنی خونی پیاس بجھائی……سلمان تاثیر کے والد محمد دین تاثیر المعروف
ایم ڈی تاثیر معروف دانش ور اور فیض احمد فیض کے ہم زلف بھی تھے۔ ہمارے
آئیڈیل غازی علم دین شہید کے جنازے کے لیے چارپائی نہ صرف سلمان تاثیر کے
والد ایم ڈی تاثیر نے فراہم کی تھی بلکہ وہ جنازے کے منتظمین میں سے
تھے۔بھلا ایسے شخص کا بیٹا کیسے گستاخ رسول عربی ﷺ ہو سکتا ہے؟
1997میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عارف اقبال بھٹی کو اس جرم میں ان کے دفتر
میں قتل کر دیا گیا تھا کہ انہوں نے توہین رسالت کا الزام ثابت نہ ہونے پر
غیر مسلم ملزمان رحمت مسیح اور سلامت مسیح کو الزامات ثابت نہ ہونے پر
باعزت بری کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ لیکن مذہبی جنونیوں نے عدالت کے فیصلے
کو تسلیم کرنے کی بجائے ہوئے اپنی عدالت لگا کر انہیں( عارف اقبال بھٹی کو)
موت کے گھاٹ اتارنے کا فیصلہ سنایا……اور ایک روز جسٹس عارف اقبال بھٹی کو
اس وقت قل کر دیا جب وہ ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور میں اپنے چیمبر میں بیٹھے
ہوئے تھے۔اس مقدمہ کا ایک پہلو ایسا تھا جس نے گوجرانولہ کیمنظور مسیح ،رحمت
مسیح اور سلامت مسیح کو توہین رسالت کے الزمات سے بری کرنے کے لیے کافی تھا……وہ
پہلو یہ تھا کہ گوجرانوالہ کے ایک نمبردار کے گھر کام کرنے والے تینو ں
مسیح برادری سے تعلق رکھنے والے رحمت مسیح ،منظور مسیح اور سلامت مسیح
بالکل کورے ان پڑھ تھے۔ جب وہ لکھنا پڑھنا ہی نہیں جانتے تھے تو پھر انہوں
نے کیسے گاوں کی دیواروں پر توہین رسالت پر مبنی پوسٹر لکھ ڈالے تھے۔ اور
اس کا اعتراف عدالت کے روبرو گاوں کے نمبردار نے بھی کیا تھا کہ ملزمان میں
سے کوئی ایک بھی لکھنا پڑھنا نہیں جانتا۔ایک اندازے کے مطابق 1986سے2010 تک
توہین رسالت کے الزام میں 1274 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گے تھے۔
جسٹس عارف اقبال بھٹی کے فیصلہ کے بعد جسٹس اعجاز چودہری نے اہلحدیث مسلک
سے تعلق رکھنے والے ایک ملزم کو بری کیا، جبکہ مقدمہ درج کروانے والا
بریلوی مسلک سے تھا……ایک اور فیصلہ میں قاضی محمد فاروق اور جسٹس میاں محمد
اجمل نے ملزم ایوب مسیح کو بری کیا اور اس مقدمہ کے مدعی محمد اکرم نے ایوب
مسیح کو گرفتار کروانے کے بعد نو مرلے کی چاردیوری اپنے نام الاٹ کروالی
تھی اور اس پر قبضہ بھی کرلیاتھا……
2000 میں جسٹس خواجہ محمد شریف کی عدالت نے بھی غلام اکبر نامی ایک ملزم کو
بری کیا تھااپنے اس تاریخی فیصلے میں جسٹس کواجہ محمد شریف نے ایک ہی حدیث
کو صحیح بخاری اور مشکوۃ شریف سے نقل کیا ہے۔ جس کے مطابق حضرت اسامہ بن
زید نے ایک جنگ میں ایک شخص کو اس وقت قتل کر دیا تھا جب وہ کلمہ پڑھ رہا
تھا۔ واقعہ کی اطلاع جب حضور نبی کریم ﷺ کو دی گئی تو انہوں نے حضرت اسامہ
بن زید سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یا رسول اﷲ وہ شخص قتل ہونے سے
بچاو کے لیے کلمہ پڑھ رہا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا’’ اسامہ تم نے اس کا دل
کیوں نہ چیر کے دیکھ لیا‘‘ حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ میں نے تمنا کی کہ’’ کاش
میں آج سے پہلے اسلام نہ لایا ہوتا‘‘
اب ایک مقدے میں ملزمان کی وکالت کرنے کے جرم میں راشد رحمان ایدووکیٹ کو
بھی دن دیہاڑے ملتان کچہری میں انکے چیمبر میں قتل کردیا گیا ہے……راشد
رحمان معروف صحافی اور ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر آئی اے
رحمان کے بھتیجے تھے اور ہیومن رائٹس کے کوارڈینیٹر کے فرائض سرانجام دے
رہے تھے……انہیں بھی ملزمان نے بھری عدالت مین قتل کرنے کی دہمکی دی تھی……
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران کب تک ان مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں
یرغمال بنے رہیں گے؟ اور لوگوں کی زندگیوں کے چراغ گل کرنے کا انہیں لائسنس
حاصل رہے گا؟ ہمارا اسلام تو غیر مسلموں تک کو زندگی کی ضمانت فراہم کرتا
ہے، پھر ہم اپنے ہی مسلمانوں کو قتل کرنے کے کیوں درپے ہیں۔؟ پاکستان پینل
کوڈ کے سیکشن 295 میں مذید بہتری لانے کی ضرورت ہے اور اسکے ساتھ ساتھ
قانون کا کھلواڑ کرنے والوں سے بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا ورنہ یہ ملک
…… یہ جنت نظیر خطہ کھنڈرات میں تبدیل ہوجائیگا۔ہمارا قران اور تعلیمات
پیغمبر ﷺ غیر مسلم کو حق زندگی عطا کرتا ہے تو مذہب کے نام پر یہ لوگ کون
ہوتے ہیں لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے…… انہیں کس نے اختیار دیا ہوا
ہے؟اے حکمرانو ! لوگوں کی زندگیوں کی بستیاں اجاڑنے والوں کے ہاتھ کون روکے
گا؟ اور اے میرے دیس کے بہادر انسانوں !جب تک ان مذہبی جنونیوں سے ڈرتے
رہوگے…… یہ تمہارے خون سے…… یہ تمہارے بیٹے بیٹیوں پر یونہی جھوٹے الزامات
لگا کر گلشن کو ویراں کرتے رہیں گے اٹھو اور آگے بڑھو اور اپنے دیس کو اور
اپنے پیارے بلکہ دنیا کے تمام مذاہب سے افضل ترین مذہب اسلام کو یرغمال
بنانے والوں کے ہاتھ روکو ورنہ ہمارا حشر وہ ہوگا کہ دنیا دیکھے گی |