اکثر راستے میں چوک کے پاس مداری کے اردگرد
جم غفیر دیکھ کر مصروف ترین لوگ بھی کچھ دیر کیلئیے ٹھہر جاتے ہیں۔ مداری،
بندر اور بچے جمورے کا کھیل آج بھی بچے جوان اور بوڑھے بڑی دلچسپی سے
دیکھتے ہیں۔ مداری کے ایک ہاتھ میں بندر کے گلے میں ڈالی رسی دوسرے میں
ڈگڈگی ہوتی ہے۔ پٹاری کے ساتھ ڈگڈگی نما سٹول پر بندر ادھر ادھر کرتب دکھا
کر بیٹھ جاتاہے،وہ کبھی سائیکل چلانے کی ایکٹنگ کرتا ہے تو کبھی بانسری
بجانے کی،سب سے دلچسپ مداری اور بچے جمورے کے عجیب و غریب کرتب اور سوالات
و جوابات ہوتے ہیں۔
آج کچھ ایسے ہی مداری اورشعبدہ باز ہماری سیاست کے اندر رِچ بس چکے ہیں ۔۔۔
موجودہ سیاسی پس منظر میں ایک ایسے ہی مداری (مودی)نے اپنے بے تکے کھیل سے
لوگو ں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی ناکام کوششیں کیں ،پرنٹ و
الکٹرونک میڈیاکو کئی ہزار کروڑ روپیوں میں خریدنے والا آخر یہ وزیر اعظم
بننے کا دعویدارمداری آیا کہاں سے؟
سیاست کا یہ مداری یعنی ہندو شدت پسند لیڈر نریندر مودی کا سیاسی سفر 1980ء
میں شروع ہوا، جب آر ایس ایس نے اپنے چند ارکان کو بھارتیہ جنتا پارٹی میں
بھیجا، ان میں یہ مودی بھی شامل تھا، 1995ء میں انہوں نے گجرات میں
انتخابات کے پرچار کی ذمہ داری نبھائی، 2001ء میں اس وقت کے گجرات ریاست کے
وزیراعلیٰ کیشو پٹیل کے استعفٰی دینے کے بعد مودی کو وزیراعلیٰ بنایا گیا،
مودی کی حکومت کے دوران 2002ء میں گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جس
میں کم سے کم 2 ہزار مسلمان مارے گئے، فسادات کے بعد ملک اور دنیا بھر میں
مودی ایک کٹر ہندو پسند لیڈر کی حیثیت سے ابھرے، اور انہیں بھارتی ہٹلر کے
طور پر لوگ جاننے لگے، اس کے بعد 2007ء کے اسمبلی انتخابات میں انہوں نے
گجرات کی ترقی کو ایشو بنایا اور پھر کامیابی حاصل کی، پھر 2012ء میں بھی
نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی گجرات اسمبلی انتخابات میں فاتح رہے اور
اب مرکز میں اپنا سیاسی سکہ چلانے کی راہ پر گامزن ہے، گجرات میں ہونے والے
فسادات کی بات کئی ممالک میں اٹھی اور مودی کو بعض ممالک نے ویزا نہیں دیا
تو بعض نے ان سے اپنے تعلقات منقطع کئے، اگر چہ نریندر مودی 2002ء کے گجرات
فسادات میں براہ راست ملوث ہے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی نے انہیں وزیراعظم
کے عہدے کا سب سے مضبوط دعویدار تسلیم کیا اور انہیں اس کھیل کا حصہ بننے
کے لئے آمادہ کیا،2002ء میں بھارتی ریاست گجرات میں ایسی قیامت بپا ہوئی جس
نے مسلم اقلیتی طبقہ کو پیسنے اور ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،
سنگینیوں نے شعلے اگلنے کے لئے دہانے کھول دئے، ترشول، بلّم، بھالے، پستول
غرض ہر شے مسلمانوں کے خون میں ڈوبی ہوئی تھی، ہر طرف آگ، دھواں، چیخ و
پکار، بھاگ دوڑ، افراتفری اور بدحواسی کا عالم تھا، نام نہاد انکاؤنٹروں کا
مذموم سلسلہ بھی تھا جن میں بیشمار افراد مارے گئے، اسی نریندر مودی کی
سربراہی میں مسلمان کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا، غور طلب ہے کہ ایک
انٹرویو میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس شدت پسند لیڈر نے کہا کہ انہیں ایک
کتے کی موت پر بھی شدید دکھ ہوتا ہے، تاہم گجرات فسادات کے لئے خود نریندر
مودی نے کبھی نہ تو کوئی افسوس ظاہر کیا ہے اور نہ ہی کسی طرح کی معافی
مانگی ہے، کتے کی مثال کے ان کے اس بیان پر کئی حلقوں کی طرف سے شدید رد
عمل سامنے آیا، لیکن مودی تو بھارتی ہٹلر ہے اسے کیا فرق پڑتا ہے۔
بھارت میں رہ رہے مسلمانوں کو گجرات فسادات اچھی طرح سے یاد ہونگے، گجرات
فسادات میں 2 ہزار مسلمانوں کا بیدریغ قتل عام ڈھکی چھپی بات نہیں ہے،
گجرات کی مسلم حاملہ خواتین کے شکم چاک نئی بات نہیں ہے، شدت پسند ہندؤں کی
وہ لہراتی ہوئی تلواریں، ترشول، بلّم، بھالے، پستول اور وہ وحشی آوازیں اب
بھی مسلمانوں کے ذہن میں گونج رہی ہو گی، گجرات کی سرزمین مسلم خواتین کی
آبروریزی کی گواہ اب بھی موجود ہے، ہزاروں جلے ہوئے گھروں کی راکھ اب بھی
مسلمان ویران بستیوں میں پڑی ہوئی ہے، 12 سال بعد بھی متاثرین انصاف و
عدالت کی تلاش میں ہیں، اب بھی ظلم و بربریت کا سماں چھایا ہوا لگتا ہے،
مظفرنگر یو پی کے حالیہ فسادات ایک جھلکی تھی، اب بھی نئے مکانوں میں جلی
ہوئی پرانی لکڑی بہت کچھ یاد دلاتی ہے، ابھی نریندی مودی آنے والے ہیں ابھی
بابری مسجد جیسی بہت ساری مسجدیں مسمار ہونی باقی ہیں، کیا ایسے میں بھارت
کے مسلمانوں کو، گجرات کے مسلمانوں کو نریندر مودی کی شکل میں اپنا
وزیراعظم تسلیم کرلینا چاہیے؟
آخر کیوں بھارتی مسلمانوں کو ہمیشہ اپنے ملک سے وفاداری ثابت کرنے کی ضرورت
محسوس پڑتی ہے، وہ اپنے وطن پر تنقید کیوں نہیں کر سکتے؟ کیوں بھارت میں رہ
رہے مسلمانوں کے ووٹ وہ خود نہیں ڈال سکتے۔؟ بھارت کا وزیراعظم مسلمان دشمن
کیوں بن سکتا ہے اور مسلم دوست کیوں نہیں بن سکتا۔؟ کیوں آئے دن مسلمانوں
کے قتل میں شامل ہی انکی حکمرانی کرتے رہیں گے؟ کیوں بھارتی مسلمانوں کے
خلاف بنائے جانے والے قوانین منسوخ یا ان میں ترمیم نہیں ہو سکتی۔؟
مسلمانوں کو ملکی حکومت اور اس کی پالیسیوں کی مخالفت کا حق کیوں نہیں ہے؟
گجرات کے وزیراعلیٰ سے بار بار یہ مطالبہ کیا گیا کہ گجرات فسادات کے سلسلے
میں آپ مسلمانوں سے معافی مانگیں لیکن وہ آخر ایک ہندو شدت پسند جو
ہے۔۔۔نریندر مودی کی زبان سے بھارت کی تاریخ نے کبھی برائے نام بھی لفظ
انصاف نہیں سنا ہے، لیکن یہہندوسانی سیاست و جمہوریت ہے جہاں ہر چیز ممکن
ہے۔۔۔۔مودی کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو اس کا حاکمانہ و
آمرانہ(بدبختانہ) مزاج ہے۔ اس کے ساتھیوں اور دوستوں، سبھی کا کہنا ہے کہ
وہ کسی کی نہیں سنتا اسی پس منظر میں پارلیمان الیکشن میں زیادہ سے زیادہ
نشستیں جیتنے کیلئے بی جے پی نے اپنے پورے وسائل جھونک دئیے ہیں،چنا نچہ
اگر یہ مداری نریندر مودی وزیرِ اعظم بننے میں کامیاب رہا، تو عین ممکن ہے
کہ وہ تمام جمہوری روایات کو روندتے ہوئے من مانی کرتا چلا جائے۔مسئلہ یہ
ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ہندو باشندے خصوصاً بڑے اونچے صنعت کار
اور تاجر ایسا ہی مطلق العنان حکمران چاہتے ہیں؟…ایسا حاکم جو جائز و
ناجائز ہر طریق اختیار کرتے ہوئے بھارت کو بام عروج پر لے جائے۔ یہ دور
جدید کی عجب ستم ظریفی ہے!بہرحال لوک سبھا انتخابات 2014 میں عوام نے اپنا
فیصلہ سنا دیا ہے اور اب صرف نتائج کے اعلان کا انتظار باقی ہے۔ |