کراچی آپریشن: ٹیسٹ میچ سے ٹی ٹوئنٹی تک....!

4ستمبر2013ءسے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کراچی میں شروع ہونے والا آپریشن اپنے حتمی مراحلے کی جانب گامزن ہے۔ فائنل راﺅنڈ کو نتیجہ خیز اور کامیاب بنانے کے لیے بدھ کے روز کراچی میں وزیراعظم میاں نوازشریف کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف، آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام، وزیراعلی سندھ قائم علی شاہ، پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان، ڈی جی آئی جی ڈی جی رینجرز قائمقام آئی جی سندھ، ایڈیشنل آئی جی کراچی سمیت اعلیٰ حکام اور ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں کراچی آپریشن کے حتمی مرحلے کو تین سے چار ماہ میں کامیاب بنانے کے لیے متعدد اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ وزیراعظم نے اس موقع پر شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو ہر قیمت پر یقینی بنانے کے عزم کو دہرانے کے ساتھ جرائم پیشہ عناصر سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کی ہدایت کرتے ہوئے کراچی آپریشن کے کپتان سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ٹیسٹ میچ نہ کھیلیں، بلکہ ٹی ٹوئنٹی کھیل کر نتائج دیں، جس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وفاقی حکومت کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن میں کس قدر تیزی اور فوری نتائج چاہتی ہے۔ وزیر اعظم کی کراچی آپریشن میں دلچسپی اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ وزیراعظم کی گزشتہ آٹھ ماہ میں تمام سیاسی فریقین سے یہ دوسری ملاقات تھی، جس میں ایک بار پھر تمام فریقین کی تجاویز اور تحفظات سنے گئے۔ وزیراعظم نواز شریف اور سیاسی و عسکری قیادت نے بدھ کے روز اجلاس میں اس امر پر اتفاق کیا کہ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن بلا امتیاز اور کسی دباﺅ کے بغیر جاری رکھاجائے گا اور ملزمان کی سیاسی سرپرستی کرنے والے افراد اور جماعتوں کے خلاف بھی بھرپور کارروائی عمل میں لائی جائے گی، آپریشن کے دوران عسکری اور انٹیلی جنس ادارے کراچی پولیس اور رینجرز کی مکمل معاونت کریں گے، ٹارگٹڈ آپریشن کے حتمی مرحلے کی منظوری دیتے ہوئے وزیراعظم نے آپریشن کے دوران شکایات کے ازالے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ مذکورہ اجلاس میں بیرون ملک فرار ہونے والے لیاری گینگ وار اور دیگر جماعتوں کے جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاری کے لیے فوری طور پر ریڈ وارنٹ جاری کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا، چھاپہ مار کارروائیوں کو تیز کرنے اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے نظام کو مربوط بنانے کا فیصلہ بھی کیاگیا۔ وزیراعظم نے دوٹوک انداز میں کہا کہ رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے قیام امن کے لیے آزاد ہیں، امن کے لیے کوئی سیاسی دباﺅ قبول نہ کیاجائے، اس موقع پر آرمی چیف نے بھی اپنے خطاب میں کہا کہ فوج کراچی کے امن کے لیے حکومت سے مکمل تعاون کرے گی اور سو فیصد خلوص کے ساتھ اپنا کردار ادا کرے گی۔

اجلاس کے شرکا کو ڈی جی رینجرز اور قائمقام آئی جی نے4 ستمبر 2013 سے شروع ہونے والے آپریشن کی کامیابیوں کے بارے میں بریفنگ بھی دی۔ ترجمان سندھ رینجرزکی جانب سے جاری کیے جانے والے اعلامیے کے مطابق 5 ستمبر 2013 سے جرائم پیشہ عناصرکے خلاف شروع کیے جانے والے آپریشن کے دوران رینجرز نے 2 ہزار 370 چھاپہ مار کارروائیوں کے نتیجے میں 2 ہزار 295 ملزمان کو حراست میں لیا۔ حراست میں لیے جانے والے ملزمان میں 12 دہشت گرد، 142 ٹارگٹ کلرز، 102 بھتہ خور اور 27 اغوا کار تھے۔ حراست میں لیے گئے ملزمان کے قبضے سے مختلف اقسام کے چھوٹے بڑے 4 ہزار 102 ہتھیار برآمد کیے گئے، جن میں مشین گنز، ایل ایم جیز، آرپی جی، آوان لانچر، ایس ایم جیز، ایم 16، آوان گرینیڈ، ہینڈگرینیڈ اور ایک لاکھ 71 ہزار 666 گولیاں برآمدکی گئیں۔ رینجرز نے مختلف کارروائیوں کے دوران 30 مغویوں کو بھی بازیاب کرایا۔ رینجرز کے ساتھ ہونے والے 82 مقابلوں میں 115 ملزمان ہلاک، جبکہ 102 کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے ساتھ گزشتہ 7 ماہ سے جاری ٹارگٹڈ آپریشن میں رینجرز کے 8 اہلکار شہید اور 32 زخمی ہوئے۔ ذرائع کے مطابق کراچی آپریشن کا حتمی مرحلہ عنقریب شروع کردیا جائے گا، اس آپریشنل پالیسی کو ”اینٹی کرائم اینڈ پیس کراچی “ (جرائم سے پاک اور پرامن کراچی) سے تجویز کیا گیا ہے، یہ آپریشن ”کوئیک اینڈ فاسٹ ٹریک پالیسی“ پر مبنی ہوگا۔ واضح رہے کہ فروری کے مہینے میں وفاقی اورصوبائی حکومت نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ تیسرا اور آخری مرحلہ عنقریب شروع کردیا جائے گا، لیکن چار ماہ بعد بھی کراچی آپریشن کا حتمی مرحلہ شروع نہ کیا گیا، بدھ کے روز ہونے والے اہم اجلاس کے بعد امید ہے عنقریب اس مرحلے کا آغاز کردیا جائے۔ ذرائع کے مطابق ٹارگٹڈ آپریشن کے حتمی مرحلہ کے لیے انتہائی مطلوب 500 سے زاید جرائم پیشہ افراد کی فہرستیں تیار کر لی گئی ہیں، انتہائی مطلوب ملزمان کی گرفتاری اور غیرقانونی اسلحہ بر آمدگی کے لیے سخت اقدامات کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ کراچی آپریشن کا جائزہ لینے اور آیندہ لائحہ عمل کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل پاکستان رینجرز سندھ میجر جنرل رضوان اختر کی زیر صدارت اجلاس میں کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں سب سے بڑا مسئلہ زمینوں پر قبضے اور بھتا خوری کا ہے، جنہوں نے مافیا کی صورت اختیار کر لی ہے، ان مافیاﺅںکی سرپرستی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے افراد ملوث ہیں، اس کے علاوہ شہر میں اسمگل شدہ ایرانی ڈیزل، واٹر ہائیڈرنٹ، تجاوزات، ٹارگٹ کلنگ مافیا اور دیگر چھوٹے بڑے جرائم پیشہ گروہ کام کر رہے ہیں، آپریشن کے دوران بعض ایسے ملزمان کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ہے، جنہوں نے انکشاف کیا ہے کہ وہ بیک وقت سیاسی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے لیے کام کر رہے ہیں اور ان تنظیموں کی آڑ لے کر ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ فرقہ وارانہ قتل کی وارداتوں میں بھی ملوث ہیں، شہر میں ہائی پروفائل ٹارگٹ کلرز، بھتا مافیا، ڈرگ مافیا اور بعض سیاسی جماعتوں کے جرائم پیشہ افراد اور دیگر ملزمان کی فہرستوں کو فائنل کرلیا گیا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان ملزمان کی تعداد 500 سے زاید ہے، حتمی مرحلے میں ان ملزمان کی گرفتاری کی ہر ممکن جدوجہد کے لیے مشترکہ آپریشنل ٹیمیں چھاپا مار کارروائیاں کریں گی، جبکہ جرائم پیشہ افراد کے پاس موجود غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی کے لیے بھی سخت اقدامات کیے جائیں گے۔

مبصرین کے مطابق اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی موجودگی یہ واضح کرتی ہے کہ آپریشن کو نتیجہ خیز بنانے کے سلسلے میں انہوں نے ایک بار پھر حکومت سے تعاون کا عزم ظاہر کیا ہے، البتہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ بعض جرائم پیشہ عناصر کو اب بھی بعض جماعتوں کی سرپرستی حاصل ہے، رینجرز اور پولیس کے اعلیٰ حکام نے بھی بریفنگ کے دوران اس طرف خصوصی اشارہ کیا ہے، تاہم وزیراعظم کی جانب سے رینجرز کو قیام امن کے لیے جس طرح فری ہینڈ دیا گیا اور کسی قسم کا سیاسی دباﺅ قبول نہ کرنے کے لیے کہا گیا، اس کی روشنی میں یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اب متعلقہ ادارے زیادہ آزادی اور عزم کے ساتھ قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے، گزشتہ ستمبر سے شروع ہونے والے آپریشن کی کامیابیوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جن دہشت گردوں، مجرموں اور امن کے دشمنوں کو گرفتار کیا گیا ہے، انہیں جلد ازجلد کیفر کردار کو پہنچایا جائے، اس ضمن میں سندھ حکومت کو اجلاس کے فیصلوں کے مطابق جلد ازجلد مطلوبہ اقدامات بروئے کار لانے ہوں گے، آپریشن کو تیز تر کرنے کا فیصلہ یقیناً خوش آئند ہے، لیکن اس کے لیے سندھ حکومت کو بھی اپنی کارکردگی کی رفتار تیز کرنا ہوگی۔ اگرچہ ستمبر سے جاری آپریشن سے کراچی کے حالات میں کچھ بہتری آئی ہے، مگر اسے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہی قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ آج بھی کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ مافیا اور دیارغیر سے بیٹھ کر بھتہ مافیا کراچی کے صنعت کاروں، ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر معاشرتی ترقی میں کردار ادا کرنے والے افراد کو ہراساں کر رہے ہیں۔ کراچی میں آج بھی کشت و خون کی ہولی جاری ہے۔ روزانہ کراچی میں پانچ سے چھ افراد کے اوسطاً ناحق قتل ہو جانے اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سے اخبارات بھرے پڑے ہوتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیاسی جماعتوں دونوں کو اپنی کوتاہیاں ترک کر کے خلوص نیت سے کراچی آپریشن کو کامیاب بنانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کو وزیراعظم نے آپریشن کا کپتان قرار دیا ہے، وزیراعلیٰ سندھ اپنی بھرپور توانائیاں صرف کریں اور اس کا عملی مظاہرہ کریں۔ سب سے اہم ذمہ داری ان پر عاید ہوتی ہے، ان کی طرف سے برتی جانے والی معمولی سی عدم توجہی آپریشن کی ناکامی کا سبب بن سکتی ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701262 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.