بھارت میں انتہا پسندی کی فتح

بھارتی جنتا پارٹی اور اس کے اتحادیوں (نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس) نے 543رکنی لوک سبھا میں 339 نشستیں جیت لی ہیں۔ ووٹروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور66.38% کاریکارڈ ٹرن آﺅٹ رہا، 55 کروڑ ووٹروں نے ووٹ ڈالا جو کہ 2009ءکے مقابلے میں 32 فیصد زیادہ تھا۔ بعض بڑی ریاستوں جیسے مغربی بنگال میں تو ٹرن آﺅٹ81 فیصد، اوڈیشا میں 74 فیصد اور آندھرا پردیش میں 74.2 فیصد رہا۔ بی جے پی اور ان کے اتحادیوں کے ووٹوں کی تعداد 17 کروڑ 14لاکھ 59ہزار286 (171,459,286) ہے اور یوں کل ڈالے جانے والے ووٹوں کا 31فیصد اس اتحاد کو حاصل ہوا ہے۔ کانگریس اور اس کے اتحادی یو پی اے (یونائیٹڈ پروگریسوالائنس) کے نام سے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔ ان کے حصے میں صرف 59 نشستیں آئی ہیں۔ 2009ءمیں یہ اتحاد 262 حلقوں میں جیتا تھا۔ یو پی اے کو 10کروڑ 67لاکھ 60ہزار ایک (106,760,001) ووٹ پڑے ہیں، یوں اس نے کل ڈالے گئے ووٹوں کا 19.4فیصد حاصل کیا ہے۔ کانگریس اور اس کے اتحادیوں یونائیٹڈ پروگریسو الائنس کو 58 اور دیگر جماعتوں کو 144 نشستیں ملی ہیں۔ 543 نشستوں کے ایوان میں حکومت سازی کے لیے 272 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بی جے پی اور اتحادیوں کو پہلے سے 198 نشستیں زیادہ ملی ہیں، جبکہ کانگریس اور اس کے اتحادیوں کو پہلے کی نسبت 176 نشستیں کم ملیں۔ اسی طرح دیگر جماعتوں کی 22 نشستیں کم ہوئی ہیں۔ عام آدمی پارٹی انتخابات میں بری طرح ناکام رہی اور صرف 4 نشستیں حاصل کر سکی ہے۔ بھارت میں تیس برس بعد پہلی بار کسی جماعت نے حکومت سازی کے لیے تن تنہا اکثریت حاصل کی ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی جیت رقم کی ہے اور اب مودی ملک کے نئے وزیر اعظم ہوں گے۔ وزیراعظم منموہن سنگھ اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ بی جے پی نے یہ غیر معمولی فتح ملک گیر سطح پر حاصل کی ہے۔ پہلی بار ملک کے ان علاقوں میں کامیابی حاصل ہوئی ہے، جہاں پہلے رسائی نہیں مل سکی تھی۔ ان چھوٹی بڑی جماعتوں کو بھی زبردست کامیابی ملی جنھوں نے بی جے پی سے اتحاد کیا۔ اتر پردیش اور بہار میں اس نے حریف جماعتوں کا پوری طرح صفایا کر دیا ہے۔ بنگال، آندھرا اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں میں اس نے اپنے پیر جما لیے ہیں۔

اگر غور کیا جائے تو مودی کی کامیابی میں دو فیکٹر نمایاں تھے، پہلا فیکٹر تو یہ تھا کہ کانگریس کی حکومت عوام کی توقعات پر پوری نہیں اتر پائی تھی، کانگریس ایک طویل عرصہ بھارت میں برسراقتدار رہی، لیکن عوام کے مسائل حل نہ کرپائی، جس سے عوام کانگریس سے ناامید ہوگئے اور مودی نے بھارتی عوام کو ترقی اور خوشحالی کے خواب دکھائے، اس بنا پر عوام مودی کے دام میں آگئے اور مودی کو کامیاب کروا دیا۔ جبکہ دوسری نمایاں فیکٹر مذہبی تھا، نریندر مودی کی سیاسی پرورش ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کی سر پرستی میں ہوئی ہے۔ انھیں ایک ہندو قوم پرست اور سخت گیر رہنما تصور کیا جاتا ہے اور گجرات میں ان کے اقتدار کے ابتدائی دنوں کا ماضی کافی متنازع رہا ہے۔ گجرات میں 2002ءکے فرقہ وارانہ فسادات میں دو ہزار مسلمان مارے گئے تھے۔ جن میں مودی کے ملوث ہونے کی بنا پر 2005ءمیں امریکا نے انہیں ویزہ دینے سے انکار کردیاتھا۔ مودی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سخت بیانات دینے میں کافی مشہور ہے۔ نریندر مودی کی جانب سے کبھی اقتدار میں آنے کے بعد تمام بنگلا دیشی مسلمانوں کو ملک سے بے دخل کرنے کے اعلانات کیے جاتے رہے توکبھی گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگانے اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی باتیں کی جاتی رہیں۔ انتخابات کے دوران مودی نے بیان دیا کہ اقتدار میں آکر وہ پاکستان میں چھپے داﺅد ابراہیم کو اسی طر ح اٹھا کر لے آئیں گے، جیسا کہ امریکا اسامہ بن لادن کو لے گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے سیکولر حلقے بھی مودی کو انتہائی متعصب اور انتہاپسند تصور کرتے ہیں، مودہ ہمیشہ پاکستان کے خلاف بھی سخت پالیسی پر کاربند رہے ہیں اور بھارتی حکومت پر اسی حوالے سے تنقید کرتے آئے ہیں کہ وہ پاکستان سے دب کر رہی ہے۔

بی جے پی نے 543 رکنی پارلیمنٹ کے لیے اپنی جماعت سے محض ایک یا دو مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا، جس پر بھارت میں زبردست بحث چھڑی ہوئی ہے اور مسلمانوں سمیت ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ اس تشویش میں مبتلا ہے کہ مودی کی جیت کا مطلب کہیں یہ تو نہیں کہ ملک کا سیکولر نظام بدل جائے گا۔ کہیں یہ ملک سیکولر جمہوریت کی جگہ ایک ہندو جمہوریت میں تو نہیں تبدیل ہو رہا ؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بی جے پی ایک قدامت پسند اور ہندو قوم پرست جماعت ہے اور بھارت کی تاریخ میں غالباً یہ پہلا موقع ہے، جب دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے مسلمانوں کے خطے اتر پردیش سے ایک بھی مسلم رکن پارلیمان منتخب ہو کر دلی نہیں پہنچا۔ بھارت کی تاریخ میں پہلی بار سب سے کم مسلمان پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں، لیکن جمعیت علمائے ہند کے مولانا محمود مدنی کا کہنا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تو انتخابی مہم کے دوران ہی ہو گیا تھا کہ اس بار سیکولر پارٹیاں، کانگریس یا یو پی اے حکومت نہیں بنا پائے گی اور بی جے پی حکومت میں آئے گی۔ تاہم اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر بی جے پی اپنے ایجنڈے پر قائم رہتی ہے تو ان کے نشانے پر اقلیت اور ان کے مسائل ہوں گے۔ ایگزٹ پولز میں نریندر مودی کی جیت میں مسلمانوں کے ووٹوں کے بھی کردار کو دکھایا گیا ہے۔ پہلے بھی مرکز میں بی جے پی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت تھی۔ اس کے علاوہ کئی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے اور وہاں مسلمانوں کی خاصی آبادی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہاں انھوں نے اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مودی حکومت میں کئی اہم مسئلے پیدا ہو سکتے ہیں، جیسے کہ یکساں سول کوڈ یا رام مندر کی تعمیر یا دفعہ 370، لیکن اس بار لوگوں نے ان مسائل سے ہٹ کر ترقی کے نام پر ووٹ دیا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ بی جے پی نے جس شخص کو وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر سامنے رکھا ان کی کامیابی اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ انھوں نے ایک ہندو لیبارٹری کے طور پر گجرات کو تیار کیا تھا۔ اس کے علاوہ 2002ءکے فسادات ان کے اکاؤنٹ میں ہیں۔ ان کو آگے بڑھانے میں یہ ایک بڑا فیکٹر تھا۔ بہر حال یہ دکھایا گیا کہ ملک کی آبادی صلح و آشتی اور امن چاہتی ہے۔ اگر واقعی بی جے پی یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہ ایک مستحکم حکومت دے سکتی ہے تو اسے ان تمام مسائل سے خود کو علیحدہ رکھنا ہوگا۔ جبکہ مسلم پرسنل لاءبورڈ کے سید قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے کہ مسلمان نہ کبھی ڈرا ہے اور نہ آئندہ کبھی ڈرے گا۔ کوئی آئے اور کوئی جائے ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اتحاد، بھائی چارہ اور امن قائم کرنا، لوگوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنا کسی بھی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ نئی حکومت اپنی اس ذمہ داری کو کس طرح ادا کرتی ہے، اس کا تو کچھ دن بعد ہی پتہ چلے گا۔ اسی کے بعد یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کیسی ہے، کیسی نہیں ہے۔ دوسری جانب نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب کی انتہا ہے، انہیں ملازمتیں دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے، انہیں بینک قرضہ تک نہیں دیتے۔ جب ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تو مسلمان سہم کر رہ گئے۔ ان کے بابری مسجد کی شہادت اور گجرات میں قتل عام کے زخم ہرے ہوگئے۔ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام پر مودی کو ”قصاب“ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ کئی تجزیہ کار مودی کی کامیابی کو بھارتی سیکولر ازم کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 702199 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.