بڑی عجیب سی بات ہے کہ ہم مسلمان سینکڑوں سالوں سےکسی نہ
کسی کو اپنا دشمن قرار دیتے آرہے ہیں۔اور وہ دشمن مسلمانوں کا بے دریغ قتل
کرتا آ رہا ہے۔اور ہم بہترین مقتول بنتے آ رہے ہیں۔اپنی جانوں کو قربان
کرنا۔اپنی اِملاک کو تباہ و برباد کروانا ۔ اپنی عزتوں کو کسی کے ہاتھوں
نیلام کروانایہ سب آج سے نہیں بلکہ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔اور تھو ڑا
سا تاریخ سے اندازہ لگائیں تو آپ حیران ہو جائیں گےکہ یہ سلسلہ بڑی تیزی سے
بڑھتا جا رہا ہے۔سب سے پہلے مسلمانوں کے دشمن یہودی ہوا کرتے تھے یہودیوں
نے مسلمانوں کی بستیو ں کی بستیا ں تباہ کیں اور ہم خاموش تماشائی بنے
رہے۔اِس سے پہلے کہ میں آگے تفصیل بیان کروں۔ تھوڑا سا تاریخ پہ نظر دوڑاتے
ہیں۔تاکہ ہم اپنی خامیوں کو ڈھونڈ سکیں۔کہ ایسا کیوں۔
سقوط بغداد ہماری تاریخ کا بد ترین باب ہے۔یہ کیونکر ہوا۔ بغداد جو کہ عراق
کا دارلحکومت ہے مسلمانوں کا گڑھ تھا مسلمان بغداد سے اسلامی سلطنت کو
سنبھالا کرتے تھے۔مسلمان اُس وقت دو بڑے فرقوں میں بٹے ہوے تھے۔سنی اور
شیعہ۔جی ہاں! یہ بحث ہمیشہ سے مسلمانوں کی پستی اور کمزوری کا سبب بنتی آ
رہی ہے۔ذرا سوچیئے ! جب ہم دو حصوں میں تھے تو سقوط بغداد ہوا اور اب کیا
ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنی ، شیعہ کی بحث اُس وقت بغداد میں ہر کسی کے لبوں پہ ہوا کرتی تھی۔ اور
اس کی وجہ سے اکابرین اور علماءحضرات فتوٰی دینے سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں
رہتے تھے۔کہ فلاں غلط ہے اور فلاں کافر۔ نفرتوں کا بازار گرم تھا۔ ہر وقت
ایک دوسرے کو زیر کرنے کیلئے شب و روز قرآن و سنت کی روشنی میں دلائل
ڈھونڈے جاتے تھے اور پھر اُن دلائل کی روشنی میں اپنے مد مقابل کو زیر کیا
جاتا تھا ۔ایک دن بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ فلاں دن دربار میں شعیہ سنی پہ
مناظرہ ہو گا۔کہ کون ٹھیک ہے اور کون غلط۔بادشاہ کے بہت سے وزیر اور مشیر
تھے۔اور وہ مختلِف فرقوں پہ یقین رکھتے تھے۔یعنی سنی یا شیعہ ۔ ظاہری سی
بات ہے مناظرے کے دن ایک دوسرے پر کفر اور فتوٰؤں کی بارشں ہونی تھی۔اور
نفرتوں کا بازار گرم ہونا تھا۔ اُن دنوں میں ہلاکو خان اپنے ظلم و ستم اور
بر بریت کی وجہ سے پوری دنیا میں جانا جاتا تھا،کا عروج تھا۔ وہ ایک قہر
تھا۔ جب بغداد میں مناظرے کے دن کا اعلان ہوا۔ تو ایک وزیر جو کہ ایک خاص
فرقہ سے تعلق رکھتا تھا نے ہلاکو خان کو اطلاع کر دی کہ فلاں دن کو بغداد
کے دربا ر میں ہم سب بادشاہ ، وزیر، مشیر اور باقی سارے حکومتی کارندے ایک
مناظرے میں مصرف ہوں گے۔اور تم فلاں شہر کے دروازے سے اندر آجانامیرے آدمی
اس دروازے پہ موجود ہونگے۔ اور سب کو ختم کر دینا اور اپنی حکومت قائم کر
دینا میں آپ کا بھر پور ساتھ دوں گااور بعد میں تمھاری حکومت میں شامِل ہو
جاؤں گا۔ پس مسلمانوں !وہ دن آ گیا اور بادشاہ سمیت ساری مشینری ایک دوسرے
کو جہنمی قرار دینے میں مصرف تھی۔اچانک ہلاکو خان نے دھاوا بول دیااور اس
نے ایک کو نہ دیکھا اور تاریخ کا بد ترین ظلم ہوا جس میں کہا جاتا ہے کہ
اُس دن دریاۓ فرات میں پانی نہیں بلکہ خون بہتا رہا۔اور ہلاکو خان نے اُس
وزیر اور اس کے حواریوں کا بھی یہی حال کیا اور ایک تاریخی جملہ کہا کہ جو
اپنوں کا نہیں میرا کیسے بن سکتا ہے۔ایسا کیوں کر ہوا کیوں کہ ہماری صفوں
میں اتحاد نہیں تھا ہم شیعہ اور سنی میں بٹے ہوۓ تھے۔اور ہماری کوتاہی
انہیں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں تھی ہم بیٹھے ہیں مفت میں بتاتے کو۔ ذرا
سوچیئے! جب ہم دو فرقوں میں بٹے ہوۓ تھےتو یہ حال ہوا اور اب کیا ہو گاخود
آپ ہی اندازا لگا لیں۔
یہودیو ں کے بعد عیسا ئیوں نے مسلمانوں کی وہ تباہی کی جو تاریخ ہمیشہ یاد
رکھے گی۔اور اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ جب افغانستان پر حملہ ہوا تو ایک خاص
فرقہ ان کا ہمدرد تھا اور باقی خاموش تماشائی بنے رہے۔اور کہتے رہے کہ ٹھیک
ہو رہا ہے۔عیسائیوں نےبھی نہیں دیکھا کہ کون ہیں پس مسلمان۔پھر باری آئی
عراق کی ۔ لبنان کی۔ لیبیا کی اور اب شام اور ایران کی۔وہ باری باری سب کو
ٹھوکیں گے اور ہم ادھر بیٹھ کر غلط اور درست کے فتٰووں کا انتظار کرتے رہیں
گے۔اب حلات یہ ہیں کہ ہم مکمل طور پر مسلمانیت سے باہر جا چکے ہیں اور اپنے
اپنے فرقوں میں کھو چکے ہیں اور جو چاہے جب چاہے ہماری دھجیا ں اڑا سکتا
ہے۔کیوں کہ ہم اس فرقہ سے نہیں ہونگے جس پر ظلم ہو رہا ہو گا۔مگر یاد رکھیں
ہم سب کو وہ ایک نظر سے دیکھتے ہیں باری ہماری بھی آۓ گی۔
اب آ جائیں مودی سرکار پہ ۔ میں نے تفصیل سے بیان کیا کہ ہم ذلیل کیوں ہیں۔
اور یہی وجہ آجکل ہندوستان میں بھی عروج پر ہے۔نریندرمودی کو 100٪ معلوم ہے
کہ کچھ نہیں ہو نے والا۔اِسی لئیے اس نے مسلمان مخالِف ووٹ لیا۔کیوں کہ اسے
پتا ہے کہ یہ مسلمان نہیں بلکہ فرقے ہیں ۔ وہ مسلمانوں کا مخالِف نہیں بلکہ
فرقوں کا ہے۔ایسا مت کہا کریں کہ وہ مسلمانوں کا مخالف ہے ہرگز نہیں وہ سنی
،شیعہ،دیوبندی،بریلوی اور اہلحدیث کا ہے۔یہ سب علیحدہ علیحدہ ہیں۔ پہلے وہ
ایک فرقے کو مارے گا اور باقی فرقے کہیں گے ٹھیک ہو رہا ہے یہ تھے ہی کافر۔
اور اس طرح سب پر باری آ جاۓ گی۔یہ بات میرے لیئے انتہائی مضحاکہ خیز ہے جب
یہ کہا جاتا ہے کہ بھارت میں بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ یہ مت کہا کریں
۔ وہاں بہت بڑی تعداد مختلف فرقوں کی ہے۔
شرم کرو مسلمانوں ! کاش ہمیں تھوڑا سا بھی احساس ہوتاکہ ہمارے آباواجداد
کیسے تھے۔ کاش ہم مسلمان ہوتے ہم میں برداشت ہوتی ۔ ہم ایک دوسرے کا احساس
کرتے۔جس قوم کا لیڈر حضرت محمدﷺ ہوں جو کافروں کیلئے اپنی چادر بچھادیتے
تھے۔وہ صرف اور صرف مسلمان تھے۔اور ہم بیٹھے ہیں یتیموں کی طرح۔ یہ بہت بڑا
ظلم ہے کہ ہم ایک نہیں ہیں خدارا اپنے گریبانوں میں جھانکو یہ سب ہمارے
دشمن نہیں بلکہ ہم اپنے دشمن ہیں۔میں ربُ العزت سے دعا گو ہوں کہ ہمیں
برداشت کرنے کی صلاحیت عطا کرے ۔میری سب سے یہ التجا ہے کہ آگے بڑھو ہم ایک
ہیں۔ برداشت کرو ہم ایک ہیں۔احساس کرو ہم ایک ہیں۔ |