ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے دن بہ دن حالات بدسے بدتر
ہوتے جارہے ہیں لیکن مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق اور یکجہتی کے اظہار کے
بجائے انتشار و افتراق کی نئی نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے۔ پہلے تو چند لوگ
تھے اورکچھ جماعت تھی جو مسلمانوں کے نمائندہ ہونے کا دعوی کرتی تھی اور
حکومت سنجیدگی کے ساتھ ان لوگوں کی باتیں کم از کم سن لیتی تھی اور اسے اس
بات کا بھی خوف رہتا تھا کہ ان کی ناراضگی سے مسلمانوں میں کوئی غلط پیغام
چلا جائے گا۔ یہ اس وقت کی بات تھی جب جمعےۃ علمائے ہند میں سارے علماء اور
دانشور شامل ہوا کرتے تھے۔ مسلکی اختلاف عوامی طور پر اس قدر عروج پر نہیں
تھا مسلک کا وجود تو تھا لیکن مسلک کے نام پر مسلمان تقسیم در تقسیم نہیں
تھے نہ ہی ایک دوسرے کے خلاف اتنی شدید نفرت تھی حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلک
کے لوگ دوسرے مسلک کے لوگوں کو تکلیف میں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ آج صورت
حال یہ ہے ایک مسلک میں کئی جماعت، ہر ذات کی الگ تنظیم،علاقائی عصبیت کا
عروج اور اسی طرح کئی ایسی چیزیں ہیں جو مسلمانوں کو کمزور سے کمزور تر
کررہی ہیں۔ جب شاہ بانو کیس معاملہ سامنے آیا اور اس میں مسلمانوں نے متحد
ہوکر اتحاد و یکجہتی کا ثبوت دیا اور اس کے بعد پھر بابری مسجد کا معاملہ
سامنے آیا جس میں آنافاناً فیصلہ سنایا گیا۔یہ ہندوستان کی تاریخ ہی نہیں
بلکہ دنیا کی تاریخ میں ایسا پہلا مقدمہ تھا جس پر اتنی جلد اور فریق ثانی
کے موقف کو سنے بغیر جج نے فیصلہ سنایا تھا۔ فیصلہ سنائے جانے کے آدھے
گھنٹے کے اندر اس فیصلہ پر عمل درآمد کیا گیا تھا۔ ڈکٹیٹر ملکوں میں اس طرح
کی حرکتوں کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے لیکن نہ صرف جمہوریت کا علمبردار
بلکہ دنیا کی سب سے بڑی کثیر جمہوری ملک ہونے کا دعوی کرنے والاہندوستان
میں اس طرح کا فیصلہ کیا جائے گااور اس پر اتنی جلد عمل درآمد کیا جائے گا
یہ سمجھ سے پرے کی چیز تھی۔ اس فیصلہ سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ سارا عمل
اسکرپٹ کے تحت انجام دیا گیا۔اگر اسکرپٹ کے تحت نہیں ہوتا تو دوردرشن راست
ٹیلی کاسٹ کے لئے پہلے سے وہاں موجود نہیں ہوتا۔اس کے بعد مسلمانوں کی آنکھ
کھلی تھی لیکن معاملہ ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ جس مجرمانہ خاموشی کا آغاز
دسمبر 1949میں ہوا تھا اس میں صرف توسیع ہوتی گئی۔مسلمان پے درپے فسادات،
اقتصادی، تباہی اور دیگر شعبوں میں امتیاز کے خلاف کبھی مثبت انداز میں
اپنے اتحاد کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔ جب بھی کوئی مظاہرہ یا دھرنا دینے کی بات
کی جاتی ہے تو اس کا ساتھ دینے کے بجائے ہماری ساری کوشش اس بات پر ہوتی ہے
کہ پہلے یہ پتہ کیا جائے کہ اس کی فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہے،اس کے پیچھے کون
ہے۔ یہ کیوں کر رہا ہے، اس کے ساتھ کون لوگ ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ جب کہ ضرورت
اس بات کی ہوتی ہے کہ پہلے مظاہرہ اور دھرنے کو کامیاب کیا جائے ، جس موضوع
پر دھرنے کا انعقاد کیا گیا ہے اس کو کامیاب کیا جائے کیوں کہ اس دھرنے کے
کامیاب انعقاد سے ہی حکومت اور اس کی مشنری میں مسلمانوں کے متعلق کوئی
پیغام جائے گا۔ ناکامی کی صورت میں حکومت مسلمانوں کے احتجاج اور دھرنے پر
کوئی توجہ نہیں دیتی۔ کیوں کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ چند لوگ ہیں جو اچھل
کود کرکے چلے جائیں گے اور اس کے بعد نہ کسی مسلمان کو اور نہ ہی دھرنے کے
انعقاد کرنے والوں کو اس بارے میں سوچنے کی فرصت ہوگی۔ دھرنا اس لئے دیا
جاتا ہے کہ اس پر دباؤ بنے اور دھرنے کے بعد دباؤ کے عمل کو برقرار رکھنے
کے لئے کئی سطح پر کوشش کی جاتی ہے۔حکومت کو کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
لیکن جب نیت صاف نہ ہو ،کوئی پالیسی نہ ہو ، کوئی مستقل سوچ نہ ہو اورنہ ہی
کوئی حکمت عملی کے تحت کوئی منصوبہ تیار کیا گیا ہو تو پھر یہ کیسے ممکن ہے
کہ وہ کام اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے۔
لوک سبھا کا انتخاب کا نتیجہ آچکا ہے ۔الیکشن کمیشن، نیکر دھاری اورافسران
کی فسطائی طاقتوں کی مہربانی اور ای وی ایم میں بڑے پیمانے پر گڑبڑی کے
سہارے سولہویں لوک سبھا انتخابات میں فرقہ پرست طاقتوں کامیابی ملی ہے۔
میڈیا کے سہارے جس طرح نفرت پھیلائی گئی اور ایک خاص شخص کے حق میں تشہیری
مہم چلائی گئی۔ ان کی برانڈنگ کے لئے ہزاروں کروڑ روپے پانی کی طرح بہادئے
گئے۔ کون سا ایسا طریقہ تھا جسے اس انتخاب میں استعمال نہیں کیا گیا ، تھری
ڈی سے لیکر ابلاغ کے تمام جدید ترین وسائل کا جلوہ اس الیکشن میں نظر
آیا۔ٹی وی نیوز چینلوں کو او بی وین لے جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ لنک فراہم
کردیا اور اس کی تقریر کی راست ٹیلی کاسٹ شروع ہوئی ۔ پرائم ٹائم میں ہی
مودی کو ڈھائی ہزارے سے زائد گھنٹے دئے گئے۔ جب کہ راہل گاندھی کو تقریباً
سات سو گھنٹے دئے گئے تھے۔ مطلب یہ کہ کوئی ایسا طریقہ نہیں تھا جس کا
استعمال اس نے نہیں کیا ۔ جب بھی ٹی وی چینل کھولئے مودی کی تقریر، مودی کا
انٹرویو، مودی پر کوئی نہ کوئی پروگرام اور مودی کو مقبول بنانے کے لئے
میڈیا کلرکوں کی اسٹوری نظر آتی تھی اس کے بعد اس میں کمی آئے گی۔ کوئی
ڈیڑھ دو مہینے سے کوئی خبر سننے کے لئے کان ترس گئے تھے۔ اس الیکشن میں
نریندر مودی نے جتنا پیسہ خرچ کیا ہے اگر وہ پیسہ کسی ریاست کو دے دیا جاتا
تو وہ ریاست خوش حال ہوجاتی اور اس پیسے سے بنیادی ڈھانچے کی تعمیرآسانی سے
کی جاسکتی ہے۔ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے تمام رہنماؤں کے
اخراجات کو شامل کرلئے جائیں یہ رقم پچاسوں ہزار کروڑ سے اوپر ہوجائے گی۔
تصور کیجئے ایک ایک ریلی میں سو سو کروڑ روپے خرچ ہونے کا تخمینہ لگایا ہے
تو چار پانچ سو ریلیوں میں کتنا خرچ ہوگا۔ یہ الیکشن اب تک کا سب سے مہنگا
الیکشن ہے۔ صرف الیکشن کمیشن کو ہی تیس ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے پڑے ہیں۔
جب کہ ایک ایک پارٹی دس ہزار کروڑ روپے لیکر اوپر تک خرچ کرچکی ہے۔ الیکشن
کمیشن نے ایک امیدوار کو خرچ کرنے کی حد 75 لاکھ روپے مقرر کیا ہے جو کہ
بیشتر امیدواورں نے نامزدگی کے پرچے داخل کرنے کے دن ہی خرچ کردئے ہوں گے۔
پورے مہینے کا خرچ ، پولنگ ایجنٹ کا خرچ، ورکروں کا خرچ اور دیگر اخراجات
تصور کیجئے ایک پارلیمانی حلقہ کا ایک امیدوار کتنا خرچ کرتا ہے۔ جمہوری
ہندوستان کے پہلے الیکشن میں 1952میں انتخاب کرانے میں الیکشن کمیشن کو دس
کروڑ روپے خرچ کرنے پڑے تھے۔ جب کہ تمام امیدواروں کا مجموعی طور پر جو خرچ
ہوا تھا وہ 75لاکھ تھا۔ تصور کریں انتخاب میں خرچ کا دائرہ کتنا بڑھ گیا
ہے۔ہندوستان میں بدعنوانی کے بارے میں بہت بات کی جاتی ہے لیکن کبھی اس کی
تہہ میں جانے کی کسی کو توفیق نہیں ہوتی۔ بدعنوانی کی ایک بڑی وجہ یہاں
انتخابی نظام بھی ہے ۔ آپ تصور کیجئے جو کہ شخص اپنے انتخابی مہم کے دوران
پانچ کروڑ روپے سے سو کروڑ روپے تک خرچ کرتا ہے وہ منتخب ہونے کے بعد اپنے
خرچ کی تلافی نہیں کرے گا۔ تلافی کے لئے کسی نہ کسی سطح پر بدعنوانی کا
سہارا لے گا، کسی کمپنی کے لئے لابنگ کرے گا، کسی کی نوکری کے عوض پیسہ لے
گا عرض کہ ہر وہ ہتھکنڈے اپنائے گا جس رقم حاصل ہوتی ہو۔ کوئی ایسا نظام
وضع کرنا چاہئے جس میں امیدواروں کے اخراجات نہ ہوں اور تمام انتخابی عمل
حکومت کے توسط سے انجام دئے جائیں۔ اس سے بدعنوانی کی راہ کا سدباب ہوگا۔
مسلمانوں نے اس انتخاب میں بیشتر حصوں میں سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے کہیں
کوئی گڑبڑی ہوئی ہے تو اس کے لئے عام مسلمان ذ مہ دار قطعی نہیں ہیں ۔اس کی
ذمہ داری، مسلم لیڈروں، علماء اور مسلم دانشوروں پر ہوگی کیوں کہ ان لوگوں
نے اپنے ذاتی مفاد کی وجہ سے مسلمانوں کو متحد نہیں ہونے دیا۔ مغربی یوپی
میں ووٹوں کی تقسیم ہوئی ہے جس کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا لیکن دوسری جگہ
مسلمانوں نے نہایت ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے فرقہ پرستوں کے خلاف اور
سیکولر ازم کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اگر سیکولر طاقتوں کی شکست ہوتی ہے اس کے
لئے مسلمان قطعی ذمہ دار نہیں ہوں گے اس کی ذمہ داری اس امیدوار کی کمیونٹی
کی ہوگی جس کی فلاح و بہبود کے لئے وہ دن رات ایک کئے ہوتے ہیں۔ گزشتہ
انتخاب میں بہار کے ایک ضلع میں ایک مسلم امیدوار نے اپنی کمیونٹی کو نظر
انداز کرکے ان لوگوں کا کام کیا تھا اور یہاں تک اپنے ذاتی عملے میں بھی ان
لوگوں کو رکھا تھا لیکن جب انتخاب کا وقت آیا تو اس کمیونٹی نے اس وزیر ووٹ
نہیں دیا۔ بیشتر مسلم لیڈر وہ ہیں جن کا مسلمانوں پر کوئی گرفت نہیں ہے
کیوں کہ انہوں نے مسلمانوں کا کوئی کام نہیں۔ جمہوریت میں عوام اسی کے
دیوانے ہوتے ہیں جو عوام کی خدمت کرتے ہیں اور مسلم لیڈر اس خوف سے
مسلمانوں کا کام نہیں کرتے کہیں ان پر فرقہ پرستی کا لیبل نہ لگ جائے۔ فرقہ
پرستوں کو روکنے کے لئے کانگریس نے کوئی خاص کام نہیں کیا ۔ بلکہ اس نے
انتخاب سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیا تھا۔ لیکن بہت سی غیر سرکاری تنظیمو ں نے
اس موقع پر ملک کے سیکولر کردار کو بچانے اور فرقہ پرستوں کو کامیاب ہونے
سے روکنے کے لئے بہت محنت کی۔ کچھ لوگوں نے قلم کے ذریعہ اپنا کام کیا تو
کچھ نے دورے کرکے مسلمانوں کو فسطائی طاقتوں کے خلاف متحد کرنے میں نمایاں
رول ادا کیا۔ ان میں دو نام بہت اہم ہیں ایک مولانا فضل الرحیم مجددی صاحب
ہیں دوسرے محترمہ شبنم ہاشمی ہیں جو رائے بریلی میں بی جے پی کے ورکروں کے
عتاب کا شکار ہوئیں۔ مولانا فضل الرحیم مجددی ایک خانقاہی عالم دین ہیں۔ یہ
ایسے عالم دین ہیں جو لیپ ٹاپ اور قرآن کو ساتھ لیکر چلتے ہیں۔ مولانا نہ
صرف جے پور میں ایک بہت بڑا مدرسہ جامعہ ہدایہ چلاتے ہیں بلکہ یونانی طریقہ
علاج کو فروغ دینے کے لئے طبیہ کالج بھی چلاتے ہیں جس سے ہزاروں لوگ فیضیاب
ہورہے ہیں۔ مولانا آئی اے ایس کی کوچنگ کے لئے کریسنٹ اکیڈمی بھی چلاتے ہیں
کیوں کہ انہوں نے اس بات کا ادراک کرلیا کہ اگر مسلمانوں کو آگے بڑھنا ہے
تو صرف ایک ہی ذریعہ ہے وہ ہے تعلیم یافتہ ہونا اور اعلی تعلیم میں زیادہ
سے زیادہ شراکت سے ہی وہ ترقی کرسکتے ہیں۔وہ نہ صرف مدرسہ چلاتے ہیں بلکہ
انگلش میڈیم اسکول بھی چلاتے ہیں جس سے ہزاروں مسلم بچے فیضیاب ہورہے ہیں۔
ان کا بڑا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے سچر کمیٹی کی شفارت کو
بارہویں پنچ سالہ منصوبہ میں شامل کرایا ہے۔ اب حکومت کسی بھی بنے کوئی اس
منصوبہ کو ترک نہیں کرسکتا ہے کیوں کہ یہ حکومت کے پلان میں شامل ہوچکا ہے
جس پر وزیر اعظم، تمام وزرائے اعلی، منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیرمین اور
اراکین کے دستخط ہیں۔اب مسلم تنظیموں، مسلم لیڈروں اور مسلم سماجی کارکنان
کی ذمہ داری ہے کہ ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لئے افسران پر دباؤ ڈالیں۔
مولانا نے فسطائی طاقتوں کو روکنے کے لئے خانقاہ سے نکل کر ملک گیر دورے
کئے، مشکل ترین حالات میں سفر کئے ، دوسری کی بے جا باتیں سنیں ان کا
کانگریسی ہونے کا الزام بھی لگا لیکن ان کا ایک ہی مقصد تھا جو انہوں نے
سچر کمیٹی کے توسط سے محنت شاقہ کی ہے اور بہت طویل جنگ کے بعد سچر کمیٹی
کی تمام سفارشات کو بارہویں پنج سالہ منصوبے میں شامل کروایا ہے۔ اگر
فسطائی حکومت آگئی تو اس پر پانی پھر سکتا ہے۔اسی مقصد کے تحت وہ دن رات
ایک کرتے رہے۔ گجرات میں بہت سے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے دوران
انہیں بہت سارے تجربات ہوئے تھے ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ فسطائی طاقت
جمہوریت کے راستے اقتدار پر قابض ہوجائیں۔
مسلم لیڈروں، مسلم تنظیموں اور مسلم سماجی کارکنوں کو نئی حکومت کی تشکیل
کے ساتھ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے تئیں میدان میں نکل جانا چاہئے۔
مسلمانوں کو ایک محاذ پر ہی کام نہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ بہت سارے
محاذ ہیں جہاں مسائل کا انبار ہے۔ سب سے پہلے انہیں ایک ترجیحی طور پر یہ
طے کرنا ہوگا کہ سب سے پہلے کس چیز کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لئے اس وقت تک
جہدوجہد جاری اور دباؤ کا عمل جاری رکھنا ہوگا جب تک وہ کام مکمل نہ
ہوجائے۔ مسلمانوں کے تعلق بہت ساری اسکیمیں جن میں تعلیم، اشکالر شپ،
تعلیمی قرضے، کاروبار کے لئے قرض کی فراہمی، اندرا واس اور دیگر شامل ہیں
ان پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہوگی۔ مسلمانوں کا سب سے اہم مسئلہ جہاں
فرقہ وارانہ فسادات ہے وہیں دہشت گردی کے الزام میں بے قصور مسلم نوجوانوں
کی گرفتاری اور بغیر مقدمہ چلائے اور فرد جرم داخل کئے سلاخوں کے پیچھے
رکھنا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں نو ہزارسے زائد مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی
کے الزام میں گرفتارکیا گیا ہے اور بغیر فرد جرم داخل کئے جیل میں بند ہیں۔
ان کی رہائی اور منصفانہ سریع الحرکت عدالتی نظام جس کو قائم کرنے کی بات
کہی گئی ہے قائم کرنے پر زور دینا اور اس کے لئے منظم تحریک چلانے کی ضرورت
پڑے تو ایک طبقہ ایسا ہو جو مسلسل صرف اس پر ہی کام کرے۔ایک اور اہم کام
وقف املاک کی بازیابی ہے مسلمانوں اجتماعی کوشش کرنی ہوگی اور لاکھوں ایکڑ
زمین کو حاصل کرنی ہوگی جس پر اغیار یا اپنوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اسی کے
ساتھ مسلمانوں کو کام کرانے کے لئے مختلف سیل قائم کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ
وہ پیش رفت پر نظر رکھ سکیں۔مسلمانوں کے کام نہ ہونے کی ایک اہم یہ بھی ہے
کہ ایک شخص یہ سوچ رکھتا ہے کہ جو کام بھی ہو صرف ان کے ہی ہاتھوں سے انجام
دیا جائے ورنہ وہ کام نہ ہو۔ اس سوچ سے باہر نکلنے کی ضرورت ہوگی۔ مسلمانوں
کو اپنی منفی سوچ کو بالائے طاق رکھنا ہوگا کیوں کہ کامیابی کی راہ میں یہ
سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارا ذہن اس طرح کا بن گیا ہے کہ ہمارا کام ہو یا نہ
ہو ان کا کام نہیں ہونا چاہئے۔ اردو اخبارات کے تعلق یہ شکایت عام ہے کہ جو
بھی مدیران اشتہار کے لئے جاتے ہیں ان کی پوری کوشش اس بات پر ہوتی ہے کہ
فلاں فلاں اخبار کو اشتہار کیوں ملا۔ اپنے لئے کوشش کرنے کے بجائے دوسروں
کو نقصان پہچانے کے نظریہ کو ہمیں ترک کرنا ہوگا۔ ترقی یافتہ قوم بننا ہے
تو ہمیں ترقی یافتہ قوم کی طرح کام کرنا ہوگاا ور اگر کوئی آگے بڑھ رہا ہے
تو اسے مزید آگے بڑھنے میں مدد کرنی ہوگی اگر کوئی گر رہا ہے تو اسے سہارا
دینا ہوگا۔چھوٹی چھوٹی مدد سے انسان بہت بڑا کام کرسکتا ہے۔ ٹانگ کھینچنے
کے بجائے آگے بڑھانے مددگار بنیں۔ |