مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے
تو لال کرشن ایڈوانی نے پاکستان کی طرف منہ کر کے کیا کیا گل نہ کھلائے
تھے۔اس کا منہ اس وقت تک بند نہیں ہوا جب تک پاکستان نے جوابی دھماکے نہیں
کر لئے۔ان دھماکوں کے بعد لال کرشن ایڈوانی کی بولتی بند ہو گئی۔نریندرا
مودی اسی ایڈوانی کے بالکے ہیں۔ایڈوانی نے ہی مودی کو پارٹی میں مضبوط کیا
اور آج اسی بناء پہ یہ شخص بھارت کے تخت پہ براجمان ہونے جا رہا ہے۔نریندرا
مودی بنیادی طور پہ مسلم دشمن ہے۔اس الیکشن میں بھارت کے ہندؤوں نے بی جے
پی کو ووٹ نہیں دیا بلکہ مسلم دشمن مودی کو ووٹ دیا ہے۔اس انتخاب میں بی جے
پی کا کوئی مین سٹریم لیڈر مودی کے ساتھ نظر نہیں آیا۔مودی کی کامیابی مودی
کی اپنی ذاتی کامیابی ہے۔مودی کے ماضی کو ذہن میں رکھیں اور پھر سوچیں کہ
مودی ملکی اور بین الاقوامی سطح پہ بھارت کا وزیر اعظم بن کے امن آشتی اور
تعاون کی راہ اختیار کرے گا یا دھونس دھاندلی اور جنگ و جدل کی۔
بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی کہا جاتا ہے۔بھارت ایک آزاد اور
خود مختار ملک ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک بڑی معیشت ہے اور امریکہ
سمیت دنیا کی کوئی طاقت بھارت کے ساتھ بگاڑ نہیں چاہتی۔یہی وجہ ہے کہ
امریکہ جو اس سے پہلے انسانی حقوق کی خلاف ورزی پہ مودی کو ویزہ دینے سے
انکار کرتا رہا ہے اب مودی کے لئے آنکھیں بچھانے کی تیاری کر رہا ہے۔امریکی
ترجمان ایک سوال کے جواب میں یہ کہہ چکا کہ اگر مودی امریکہ آئے تو ان کا
پرتپاک استقبال کیا جائے گا۔باقی دنیا ابھی اونٹ کو بیٹھتا دیکھ ہی رہی تھی
کہ ہمارے وزیر اعظم نے نہ صرف مودی کو مبارک باد دی بلکہ انہیں پاکستان کے
دورے کی دعوت بھی دے دی۔پڑوسی ہونے کے ناطے شاید یہ معاملہ اتنا سنگین نہ
ہوتا اگر مودی کی جگہ اٹل بہاری واجپائی جیسا کوئی شخص تختِ دہلی پہ
براجمان ہوا ہوتا۔مودی وہ شخص ہے کہ بھارت کے مسلمان جسے مسلمانوں کا قاتل
سمجھتے ہیں۔ یہی مسلمان پاکستان کو اپنی آخری پناہ گاہ سمجھتے ہیں جبکہ اسی
پاکستان کا وزیر اعظم مودی کے ہاتھ چومنے کو بے تاب ہے۔
ملکوں کے تعلقات میں تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔بھارت دوستی کا ہاتھ
بڑھاتا تو ہمیں بھی چاہئیے تھا کہ ہم اس کی طرف پیش قدمی کرتے لیکن جس کام
کے لئے ہم مشرف کو آج تک طعنے دیتے نہیں تھکتے کہ وہ ایک فون پہ سرنگوں ہو
گیا تھا۔ آج ہم اس سے بڑھ کے کر رہے ہیں اور کسی کو کوئی اعتراض بھی
نہیں۔مودی کا ماضی خطرناک ضرورع ہے لیکن شیخ رشید کا یہ کہنا بہت بجا ہے کہ
بھارت میں گرجنے والے برسا کم ہی کرتے ہیں۔ایل کے ایڈوانی کی آواز میں بھی
گھن گرج اسی وقت تک تھی جب تک پاکستان نے جوابی دھماکے نہیں کر لئے
۔پاکستان کے دھماکوں کے بعد اس کی ہی کیا بھارت کی ساری اعلیٰ قیادت کی
بولتی بند ہو گئی تھی۔ابھی بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات
ضرور بنائے جائیں ۔امن کی فاختائیں بھی بھلے اڑائی جائیں اور آشائیں بھی
رکھی جائیں لیکن یہ برابری کی بنیاد پہ ہوں۔بنیا صرف طاقت کی زبان سم،جھتا
ہے۔اس کے علاوہ اسے کوئی دوسری بھاشا سمجھ نہیں آتی۔اگر ہم نے ابتداء ہی
میں کمزوری دکھائی تو مودی کے پانچ سال ہمارے لئے قیامتِ صغریٰ سے کم نہیں
ہوں گے۔
ہم ایک ایٹمی قوت ہے اور بم ہم نے نمائش کے لئے قطعاََ نہیں بنائے۔ہمارے
میزائیلوں کی پہنچ وہاں تک ہے جہاں تک بھارتیوں کی سوچ بھی نہیں جاتی۔ ہم
امن کے داعی ہیں۔ اپنے ہمسائیوں سمیت ہر ملک کے ساتھ امن دوستی اور بھائی
چارے کی فضا میں رہنا چاہتے ہیں۔امن سے رہنے کی اس خواہش کو لیکن ہماری
کمزوری نہ سمجھا جائے۔ہم مسلمان ہیں اور اسلام دنیا کے کونے کونے میں ہے ہم
نہ رہے اسلام پھر بھی رہے گا لیکن بھارت کی کسی ناپاک جسارت کی بنیاد پہ
اگر ہماری طرف سے جواب دیا گیا تو دھرتی سے ہندو مت کا نام بھی مٹ جائے گا۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ مودی اپنی انتہاء پسندانہ سوچ کی وجہ سے پاکستان
کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔اس کا حل یہی ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے
دینے کی تیاری کی جائے۔ان حالات میں جب کہ ملک انتشار کا شکار ہے۔ کرپشن
وقت کی رانی ہے۔بدامنی کا دور دورہ ہے۔ ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے ادارے تباہ
کرنے پہ تلے ہیں۔ارباب اقتدار کو اپنے اندرونی مسائل کو حل کرنے کی طرف
توجہ دینا ہو گی۔ہر معاملے کو اس کے میرٹ کے مطابق حل کرنا ہو گا۔ بھارت
جیسے بڑے ملک میں اگر انتخابات صاف اور شفاف ہو سکتے ہیں تو ہمارے ہاں کیوں
نہیں۔ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا۔اپنی غلطیوں کو درست کرنا ہوگا۔
اتحاد اور اتفاق کی فضا پیدا کرنا ہو گی۔ حکمرانوں اور حزب اختلاف کو لڑائی
بھڑائی چھوڑ کے مذاکرات کی راہ اپنا ہو گی۔اس ملک کے سیاستدان اگر اس ملک
کی بہتری کا سوچ لیں تو پھر ہمیں نہ بھارت سے خطرہ ہے نہ مودی جیسے درندے
سے۔
اگر ہم یہ سب نہ کر سکے تو پھر ہمیں ہندوستان کے ساتھ ایک بڑی جنگ کے لئے
تیار رہنا چاہئیے۔اس جنگ کو حکمران تو لڑنے سے رہے کہ انہوں نے تو بھارت سے
کاروبار کرنا ہے۔یہ جنگ پھر عوام ہی کو لڑنا ہوگی۔بھارت ہی کے ایک کارندے
کے خلاف جس طرح قوم نے حمیت و غیرت کا مظاہرہ کیا ہے مجھے یقین ہے کہ
پاکستان کے بیس کروڑ عوام ملک پہ مسلط کی گئی کسی ناگہانی میں بھی یونہی
سیسہ پلائی دیوار بن کے دکھائیں گے۔شیر میسور سلطان ٹیپو نے کہا تھا کہ شیر
کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔یہ آپسی لڑائیوں کا
نہیں دشمن کے خلاف ہتھیار تیز کرنے کا وقت ہے۔ |