یوں تو پاکستان میں شاہوں اور مخدوموں کی کوئی کمی نہیں
اور سیاسی پارٹیاں ، خصوصاََ پیپلز پارٹی تو اِن سے بھری پڑی ہے لیکن ہمارے
پاس تو صرف ایک ہی ’’شاہ صاحب ‘‘ تھے جنہیں حکومت نے پکڑ کر جیل میں بند کر
دیا ۔اُن کا اصلی نام تو کچھ اور ہے لیکن وہ جانے اور پہچانے ’’ڈَبل شاہ‘‘
کے نام سے جاتے ہیں ۔اب ہمارے شاہ صاحب با عزّت بری ہو گئے لیکن اِس ’’قومی
اہمیت ‘‘کے معاملے کو الیکٹرانک میڈیا نے لفٹ کرائی نہ پرنٹ نے۔ ویسے بھی
ہمارا الیکٹرانک میڈیا آپس میں ہی ’’گُتھم گُتھا‘‘ ہے جِس کی بنا پر ہم
جیسے انجان بھی بہت کچھ جان چکے ہیں اور مزید جاننے کی توقع ۔ شاید یہی وجہ
ہے کہ ہمارے اکلوتے شاہ صاحب کا معاملہ ’’اَندر و اَندری‘‘ دَم گھُٹ کے مَر
گیا ہے۔ڈَبل شاہ کسی افسانوی کردار کی طرح عرصۂ دراز تک لوگوں کے ذہنوں پر
چھایا رہا اور بڑے بڑے لوگ اُس کے درِ نیاز پر زانوئے تلمذ تہ کرتے رہے
لیکن پھر اُس کی مقبولیت کو کسی کی نظر کھا گئی اور اُسے سلاخوں کے پیچھے
بھیج دیا گیا ۔اب ہمارے شاہ صاحب ایک دفعہ پھر ’’اِن ایکشن‘‘ ہونگے اور
دروغ بَر گردنِ راوی اُنہوں نے اعلان کیا ہے کہ اب وہ ڈَبل کی بجائے ’’ٹرپل
شاہ‘‘ بَن کر اُبھریں اور ’’ایک کے تین ‘‘دِیا کریں گے ۔سچّی بات ہے کہ
آجکل ہم تو دھڑا دَھڑ پیسے جمع کرنے میں مصروف ہیں تاکہ ’’شاہ جی‘‘ کو پاس
جمع کروا کے تین گُنا کر سکیں ۔ویسے ہم نے یہ بھی سوچ رکھا ہے کہ ہم شاہ
صاحب سے یہ درخواست کریں گے کہ وہ اور کچھ دیں نہ دیں ہمیں ہمارے یوٹیلٹی
بلز ’’جوگے‘‘ پیسے ضرور دے دیا کریں ۔
سیاسی جماعتوں کے ’’شاہان‘‘ کا تو لینے والا ہاتھ ہی ہمیشہ سامنے رہتا ہے ،دینے
والاشاید سرہانے دھرے دھرے سو گیا ہے جبکہ ہمارے ’’ٹرِپل شاہ‘‘ ایک کے تین
دیتے ہیں۔ایک ہمارے ’’صدیوں پرانے ‘‘ سیّد قائم علی شاہ بھی ہیں ۔لوگ کہتے
ہیں کہ سندھ کی تاریخ اتنی پرانی نہیں ، جتنے پُرانے ہمارے شاہ جی ۔کراچی
کے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قائم علی شاہ صاحب کو ہمارے وزیرِ اعظم
جناب نواز شریف نے کہا ’’شاہ جی ! T 20 کھیلیں ، ٹیسٹ میچ نہ کھیلیں ‘‘۔
جواباََ شاہ صاحب نے فرمایا’’ہم اچّھی باؤلنگ اور بیٹنگ کی کوشش کر رہے ہیں
۔یقیناََ شاہ صاحب نے درست فرمایا ہو گا لیکن اُنہیں شاید پتہ نہیں کہ
ہمارے ’’ٹُک ٹُک مصباح‘‘ بھی اچھی بیٹنگ ہی کرتے ہیں لیکن میچ ہمیشہ ہار
جاتے ہیں ۔اگر ہمارے شاہ جی بھی اچھی بیٹنگ کے شوق میں ’’ٹُک ٹُک‘‘ کرتے
رہے تو خُدانخواستہ کراچی کا میچ بھی ہاتھ سے نکل جائے گا ۔ویسے تو شاہ
صاحب نے ’’میچ فِکسنگ‘‘ کرتے ہوئے مخالف ٹیم(ایم کیو ایم)کو بھی اپنے ساتھ
ملا لیا ہے لیکن نتیجہ صفر رہنے کا ہی امکان ہے کیونکہ ایم کیو ایم کا کچھ
پتہ نہیں کہ وہ کب کھسک لے ۔ویسے بھی اپنے شاہ صاحب عمر کے جس حصّے میں ہیں
اُس میں تو ٹُک ٹُک بھی غنیمت ہے ۔یہ بھی مدِ نظر رہے کہ وہ جناب آصف علی
زرداری جیسے’’ گُرو‘‘ کے چیلے ہیں ،جو ’’ٹھنڈا ٹھار‘‘ میچ کھیلتے ہوئے پورے
پانچ سال تک وِکٹ پر جمے رہے ۔لوگ جھولیاں اُٹھا اُٹھا کر اُن کی رُخصتی کی
دعائیں مانگتے رہے ،تجزیہ نگار تاریخ پہ تاریخ دیتے رہے لیکن ’’بلوچ‘‘ ڈَٹا
رہا ۔اب محض ’’مُنہ کا سَواد‘‘ بدلنے کے لیے وہ اپنے وارث بلاول زرداری کو
سامنے لے آئے ہیں لیکن بلاول ٹویٹر سے باہر نکلنا پسند ہی نہیں کرتا۔ شنید
ہے کہ زرداری صاحب اپنے وارث کی ’’ٹویٹریوں‘‘ سے تنگ آ کر ایک دفعہ
پھرلنگوٹ کَس کر میدانِ عمل میں کودنے کو تیار ہیں ۔ایک زمانہ تھا جب پیپلز
پارٹی میں قطار اندر قطار شاہ اور مخدوم ہی نظر آتے تھے ۔قائم علی شاہ ،
خورشید شاہ ، سیّد یوسف رضا شاہ ، مخدوم فیصل صالح حیات ، مخدوم شاہ محمود
، مخدوم امین فہیم اور مخدوموں کے مخدوم ، شاہوں کے شاہ ’’راجہ رینٹل‘‘
سبھی پیپلز پارٹی کے تابندہ و ددرخشندہ ستارے ہوا کرتے تھے لیکن پھر فیصل
صالح حیات اور شاہ محمود روٹھ گئے اور شنید ہے کہ ایک اور مخدوم بھی عنقریب
روٹھنے والے ہیں ۔اُدھر نواز لیگ نے مخدوموں اور شاہوں کا روگ کَم کَم ہی
پالا ہے ۔اُس کے پاس لے دے کے ایک مخدوم جاوید ہاشمی اور دوسرے سیّد غوث
علی شاہ تھے ۔جاوید ہاشمی صاحب کو تحریکِ انصاف نے اغوا کر لیا اور غوث علی
شاہ ’’نُکرے‘‘ لگے بیٹھے ہیں ۔شنید ہے کہ جاوید ہاشمی کو آجکل نواز لیگ کی
یاد بہت ستا رہی ہے اسی لیے وہ گاہے بگاہے یہ اعلان بھی کرتے رہتے ہیں کہ
اُن کا جب جی چاہے گا نواز لیگ میں واپس چلے جائیں گے لیکن میاں برادران کی
طرف سے کسی گرمجوشی کااظہارنہ پا کر ہاشمی صاحب چُپ ہو رہتے ہیں۔جاوید
ہاشمی کی اِن دھمکیوں کا بہرحال اتنا اثر ضرور ہوا ہے کہ اب اُنہیں بھی شاہ
محمود قریشی جتنی اہمیت دی جانے لگی ہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ تحریکِ انصاف
کے’’بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے ‘‘ ۔وہ جب سڑکوں پہ نہیں ہوتی تو ’’سونامیوں‘‘
پر مُردنی سی چھا جاتی ہے ۔شاید اسی بنا پر کپتان صاحب نے الیکشن کے ایک
سال بعد ’’دھاندلی تحریک‘‘ شروع کر دی ۔کپتان صاحب نے ’’کُنڈے‘‘ ڈال کر شاہ
محمود قُریشی کو اپنی طرف کھینچ تو لیا لیکن نکلے وہ بھی ’’ٹھنڈے ٹھار‘‘جو
تحریکِ انصاف کا مزاج ہر گز نہیں ۔تحریکِ انصاف تو شعلہ فشانی و شعلہ بیانی
پر یقین رکھنے والی ایسی جماعت ہے جس کے مقدر میں شیخ رشید احمد جیسے لوگ
لکھ دیئے گئے ہیں۔لُقمان حکیم نے کہا ’’جب پہلی بار عقل میرے پاس آئی تو
میں نے پوچھا ’’تُو کون ہےَ؟‘‘۔اُس نے کہا ’’عقل‘‘۔میں نے پوچھا ’’کہاں
رہتی ہے؟‘‘۔ اُس نے کہا ’’سَر میں ‘‘۔پھر میرے پاس تقدیر آئی ۔میں نے پوچھا
’’تُو کہاں رہتی ہے؟‘‘۔اُس نے کہا ’’سَر میں‘‘۔ میں نے حیرت سے کہا کہ سر
میں تو عقل رہتی ہے ۔تقدیر نے ہنس کرجواب دیا ’’جب میں آتی ہوں تو عقل رخصت
ہو جاتی ہے‘‘۔سبھی جانتے ہیں کہ تحریکِ انصاف آئی اور چھا گئی ۔یہ یقیناََ
خاں صاحب کی سولہ سالہ محنتوں کا ثمر تھا ۔لیکن کاتبِ تقدیر خاں صاحب کے
اِس ’’اَوج‘‘ کو دیکھ کر مُسکرا رہا تھا ۔یہ بھی شاید تقدیر ہی کی کرشمہ
سازی تھی کہ خاں صاحب نے ہر اُس شخص کو گلے لگا لیا جس سے قوم پہلے ہی ’’اوازار‘‘
تھی۔پھر جو کچھ ہوا ، سب کے سامنے ہے۔
ایک شاہ جی ہمارے سیّد خورشید شاہ ہیں جو چہرے مُہرے سے تو انتہائی کرخت
نظر آتے ہیں لیکن ہیں وہ زرداری صاحب سے بھی زیادہ ٹھنڈے ٹھار ۔ہمارے کپتان
صاحب ہمیشہ شاہ صاحب کی ’’ٹھنڈی اداؤں‘‘ پر کھولتے رہتے ہیں ۔کپتان صاحب تو
یہی چاہتے ہیں کہ ساری اپوزیشن مِل کر نواز لیگ کا ’’مَکّو ٹھَپ‘‘ دے لیکن
خورشید شاہ صاحب ہمیشہ طَرح دے جاتے ہیں ۔ڈی چوک اسلام آباد کے ’’کامیاب‘‘
جلسے کے بعد بھی کپتان صاحب نے شاہ صاحب کو منانے کے لیے دو مخدوموں پر
مشتمل وفد بھیجا ۔شاید کپتان صاحب کا خیال ہو کہ شاہوں کو شاہ ہی منا سکتے
ہیں لیکن اُن کا یہ وار بھی خالی گیا اور خورشید شاہ صاحب نے یہ کہہ کرٹکا
سا جواب دے دیا کہ موجودہ حالات میں اپوزیشن کا مظاہروں کے لیے سڑکوں پر
آنا اور افراتفری پھیلاناکسی بھی صورت میں مناسب نہیں ۔اب تحریکِ انصاف
اپنی احتجاجی تحریک تو جاری رکھے گی مگر اکیلے ہی ۔شاید ناقدین یہ کہیں
کہ’’ قاف لیگ بھی تو ہے ‘‘۔لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ قاف لیگ کا ہونا ، نہ
ہونا کچھ معنی نہیں رکھتا کیونکہ قاف لیگ کے پَلّے ہے ہی کیا سوائے سیّد
مشاہد حسین کے اور یہ ’’شاہ جی‘‘ بھی آجکل منظر سے ’’آؤٹ‘‘ ہی ہیں ۔ |