آج کل ہمارا پیارا ملک پاکستان دہشت گردی، دھرنوں، جلسوں
اور تنقید میں دفن ہے۔مایوسی کی ہوائیں چاروں اطراف سے چل رہی ہیں۔کئی
لوگوں نے اس طوفان میں اپنی آنکھوں کو بند کرکے، ہاتھوں کو پھیلا کر اس سے
لُطف آندوز ہو رہے ہیں تو کسی کو اس طوفان سے ڈر لگتا ہے اور اُسے قابومیں
لانے کی کوشش کر رہا ہے۔11 مئی کو عمران خان نے ڈی چوک اسلام آباد میں
مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور عام انتخابات میں دھاندلی(بقول اُن کے) کے خلاف ایک
جلسہ کیا تھا۔یہ ایک الگ ایشو ہے لیکن میں اس جلسہ میں جس کا کردار نمایاں
ہے، کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔اس جلسہ میں جن سیاسی لوگوں نے حصہ لیا اُن میں
ایک نام شیخ رشید احمد صاحب کا بھی آتا ہے۔
شیخ رشید احمد کی زندگی اور سیاسی کاکردگی کی تعریف کرنا شائد سورج کو چراغ
دکھانے کے مُترادف ہے۔شیخ صاحب کو جب بھی کوئی وزارت ملی تو انہوں نے اسے
بخوبی انجام دیا۔اس نے اپنے دور میں جتنے کام کئے شائد کسی اور نے کی
ہوگی۔شیخ صاحب نے ڈی چوک جلسہ کے بعدمیڈیا کے سامنے جو باتیں کہی اُسے میں
اپنی الفاظ میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔۔۔
اگر چار نشستوں میں سے ایک نشست پر بھی دھاندلی ثابت ہوجاتی ہے توپھر حکومت
کے رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔مسلیم لیگ (ن)اور پی پی پی کے علاوہ وہ
باقی ساری پاٹیوں کو ملانا چاہتے ہیں۔اسکا کہنا ہے کہ پی ایم ایل این اور
پی پی پی ایک سکے کے دو روح ہیں۔وہ کہی پر بھی دھاندلی ثابت ہونے کی صورت
میں جمہوریت کو بچانے کیلئے مڈ ٹرم الیکشن پر زور دیں رہے ہیں۔ان کا ماننا
ہے کہ جمہوریت کو بچانے کے لئے مڈ ٹرم الیکشن حقیقی حل ہے۔ان کا کہنا ہے کہ
اس ملک کو جتنی بجلی کی ضرورت ہے ، ہم مہیا کر سکتے ہیں۔شیخ صاحب نے حکومت
کو بہو سے مشابہت دیکرکہاہیں کہ جس بہو کا گھر بسنا ہو وہ چھ مہینوں میں بس
جاتا ہے، مگر وہ عمران خان کا ساتھ دیتے ہوئے بھی کے پی کے کی بہو کا ایک
سال پورا ہونے کے بعد بھی گھر نہ بسنے پر ناراض ہیں۔ان کا نعرہ اسلام،
پاکستان اور غریب عوام کا ہے۔
لوگوں کا ماننا ہے کہ ان میں بہت سی مطالبات درست ہیں لیکن ٹائم ٹھیک نہیں
ہے۔اور شائد اس بات کا علم شیخ صاحب کو بھی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر شیخ
صاحب واقعی غریب عوام کے بارے میں سوچتے ہیں تو بجلی پیدا کرنے کا حل جو ان
کے پاس ہیں تو وفاقی حکومت کو کیوں بتانا نہیں چاہتے کیونکہ اس سے تو عوام
کا مسلہ حل ہو جائے گا اور شیخ صاحب بھی یہی چاہتے ہیں۔کیا ہوا کہ حکومت پی
ایم ایل این کا ہو یا کسی اور کا۔۔۔مڈ ٹرم الیکشن کا ذکر باربار کیا جارہا
ہے لیکن کوئی عوام کو یہ بھی بتائے کہ مڈ ٹرم الیکشن سے ملک اور عوام پر
کیا اثر پڑیگا۔۔۔۔
اب دوسری ایشو کی طرف آتا ہوں جو نہایت نازک اور اہم ایشو ہے ۔ وہ یہ کہ
الیکشن سے پہلے بھی اور الیکشن کے بعد بھی شیخ صاحب کے جتنے بیانات ،
انٹرویوز اور ٹاک شوز ہوتے ہیں ، ان میں تقریبا 80 فیصد عمران خان صاحب اور
پی ٹی آئی پر بات ہوتی ہے، حالانکہ شیخ صاحب خود ایک بہت بڑا اور مانا ہوا
سیاستدان اور لیڈر ہیں۔اگر مستقبل میں بھی اس طرح ہوتا رہے گا تو شیخ صاحب
کی پارٹی کا کیا ہوگا؟؟؟جن لوگوں نے شیخ صاحب کو کامیاب کیا ، انہوں نے صرف
اُس کو اور اسکی پارٹی کو کامیاب کیا نہ کہ عمران خان صاحب اور پی ٹی آئی
کو ۔۔۔۔ اگر پی ٹی آئی کا کوئی ایم این اے یا ایم پی اے، شیخ صاحب یا ان کی
پارٹی پر بات کر بھی لیں تو اُسی پی ٹی آئی کی اور بھی بہت ایم این ایز اور
ایم پی ایز ہیں جو عمران خان صاحب اور پاکستان تحریک انصاف پر بحث کر سکے
گا۔مگر جب شیخ صاحب اپنا وقت کسی دوسری پارٹی کو دیتے ہیں تو پھر اُس کی
پارٹی پر کون بحث کریگا۔۔۔ شائد کوئی نہیں۔۔۔
شیخ رشید صاحب کہتے ہیں کہ کسی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ سے سیاست میں سب سے
بڑی غلطی کیا ہوئی تو موصوف کا کہنا تھا کہ مجھے آج بھی شرمندگی ہے کہ جب
لال مسجد کا واقعہ ہوا اور میں نے استعفی نہیں دیا۔مجھے لال مسجد کے واقعہ
کے بعد مُستعفی ہونا چاہئے تھا۔یہ تھی شیخ رشید صاحب کی پہلی اور بڑی
غلطی۔۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شیخ صاحب اس کے بعد کوئی دوسری غلطی تو نہیں
کررہے ہیں۔شیخ صاحب کو اپنی پارٹی کے بارے میں سوچنا چاہئے اور ان عوام کے
لئے جن کیلئے وہ پہلے سے سوچتا آرہا ہے۔۔۔۔اﷲ تعالٰی وہ کرے جس میں شیخ
صاحب ، اس کی پارٹی اور پورے ملک کو فائدہ ہو۔۔۔۔۔۔ |