۱۸ مئی ۲۰۱۴ کو مرشد العلماء قائد قافلہء حق ،جامع
شریعت وطریقت ، شہیدء اسلام، حکیم العصر ،حضرت اقدس حضرت مولانا محمد یوسف
لدھیانوی شہید نوراﷲ مرقدہ کے سانحہ شہادت کو پورے ۱۴سا ل ہو جائیں گے، مگر
سچ یہ ہے کہ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان کی جدائی کا زخم ابھی تک
ہرا اور غم ِ فراق تا حال تازہ ہے یقین نہیں آتا کہ حضرت اقدس ہم سے جُدا
ہوگئے ہیں ؟
ان کی جدائی کا زخم نہ معلوم کب تک ہرا رہے گا اور کب تک زخمی دل اس سانحہ
کو روتا رہے گا اور کب تک ان کی دل آویز شخصیت کی جدائی پر آنسو کا خراج
پیش کیا جاتا رہے گا ،لگتا ہے کہ شاید قبر تک یہ زخم تازہ ہی رہے گا کیونکہ
زندگی کے سفر میں کچھ حسین اور دمکتے چہرے دیکھنے کو ملتے ہیں کچھ لمحہ ان
کا اثر دل کی گہرائیوں اور آنکھوں کی رعنائیوں میں زند ہ رہتا ہے مگر پھر
قصہ پارینہ بن کر ختم ہوجاتا ہے اور کبھی یاد آنے پر صرف ٹھنڈی ہوا کا
جھونکا بن کر گزر جاتا ہے مگر کچھ حسین چہرے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے
پیچھے ایک حسین کردارہوتا ہے اس حسین کردار کی وجہ سے وہ چہرے کبھی فراموش
نہیں کئے جاسکتے ۔اگر بھولنا چاہو بھی !تو تاریخ بھولنے نہیں دیتی، اصل
چہرہ نہیں ،کردار ہوتا ہے ۔
تاریخ کے آئینے میں جھانک کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ حضرت بلال ؓ کا
چہر ہ تو سیاہ تھا، مگر کردار اتنا حسین اور خو بصور ت ،کہ تاریخ اس کے
کردار سے چمکتی اورجگمگاتی ہوئی نظر آتی ہے ۔کردار کی وجہ سے عظمت ،رفعت
اور بلندی ایسی ملی کہ چلتے زمین پر تھے ،جوتوں کی آواز جنت میں سنائی دیتی
تھی ،اور تھے تو غلام،مگر مقام سرداروں سے بھی بلند تھا ۔دنیا داروں کی
نظروں میں حقیر سہی مگر خدااور رسول ﷺ کی نظروں میں سب سے زیادہ محبوب ۔
یہ بلند رتبہ کیوں ملا؟ صرف کردار کی بنیاد پر ، کہ اس نے اپنے آپ کو
خدااور رسول ﷺ کے ہاتھو ں میں دیدیا تھا ،اور اس نے اپنی ہر خواہش کو
خدااور رسول ﷺ کی خواہش پر قربا ن کر دیا تھا اسی لیے دنیا انکے کردار پر
آج تک رشک کرتی نظر آتی ہے ۔
ع یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
انہی حسین ،خوبصورت اور روشن چہروں میں سے ایک با وقار ،اور سنت رسول ﷺ سے
سجا ہواچہرا ،مجاہد ملت ،وکیل ختم نبوت ،سرمایہ ء اہلسنت ،پیکر ِاخلاق
،مجسمہ ء حلم وحیاء ،شہید ناموس رسالت ،حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف
لدھیانوی شہید نور اﷲ مرقدہ کا ہے ۔
تاریخ ایسے چہروں کو لانے میں بخل سے کام لیتی ہے ، کبھی کبھی ایسے چہرے
دنیا کودیکھنے نصیب ہوتے ہیں ،ایسی شخصیات مدتوں بعد پیدا ہوتی ہیں ، ایسی
شخصیات کا وجود مسعود ہمیشہ کم ہی رہا ہے انہی جیسے حضرات کی جدائی پر
علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اسلامی مہینے صفر کی ۱۳اور مئی ۲۰۰۰ کی ۱۸تاریخ تھی ،جمعرات کا دن تھا
،وقت تقریباً صبح دس بجے کا تھا ، جب کسی بدبخت ازلی دشمن نے حضرت کے سینے
میں گولی پیوست کی اور یوں حضرت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا کرلیا
،حضرت کی شہادت کی خبر تقریباًساڑھے گیارہ بجے ہمیں موصول ہوئی ، جب یہ خبر
کانوں میں پڑی بس پھر کیا تھا ۔حواس گم ،عقل ختم ،زبان گنگ اور شعور معطل
ہو گیا ۔ آنکھوں سے آنسو اور زبان سے آہیں جاری ہوگئیں ۔ ہر شخص اپنی جگہ
مجسمہ ء حیر ت اور سراپا ء غم والم بنا ہوا تھا۔ واقعی ! خدا کی طرف سے اگر
صبر نہ ملتا ، تو نہ معلوم کتنے دھٹرکتے دل بند ہوجاتے ، کتنے ہی مسکراتے
چہرے ماندپڑ جاتے ، کتنے گھرانے اجڑ جاتے ، کتنے ہی بچے یتیم اور عورتیں
بیوہ ہوجاتیں ، ایک ایسی خبر جس پر روتے روتے آنکھیں بھی سوجھ جائیں ، بے
نو ر ہوجائیں تب بھی حق ادا نہ ہو ، سات سمندر آنسو بن کر بہہ جائیں تب بھی
سکون وقرار نہ آئے ،لوگوں کے جذبات کو دیکھ کر ایسے محسوس ہوتا تھا کہ شاید
ابھی پورے کراچی کو آگ لگ جائے گی ، معلوم نہیں اور کتنے جنازے اٹھانے پڑیں
گے ۔ لیکن ! اﷲ کی طرف سے صبر ملا اور یوں بڑی آزمائش سے خلق ِ خدا محفوظ
رہی، اس لئے کہ مسلمانوں کی تاریخ ہی یہی ہے کہ وہ شہادت پر ماتم نہیں کیا
کرتے ، بلکہ فخر اور خوشی محسو س کرتے ہیں اور حق تعالیٰ کا شکر ادا کرتے
ہیں ، کیونکہ جانا تو سب کو ہی ہے ، لیکن یہ مرتبہ کسی کسی کو ملتا ہے ۔راہ
علم کا یہ مسافر جس کا نام سن کر آج دل میں محبت کی دنیا آباد ہوجاتی ہے ،
جس کی پوری زندگی اسلام کی خدمت ، دین کی حفاظت اور باطل فتنوں کے تعاقب ،
اور انکی سرکوبی میں گزری ، نہ جانے کتنی تکالیف اس مرد مجاہد نے سہیں ،
کسمپرسی اور بے بسی کے کن حالات سے گزر کر زمانہ سے اپنا لوہا منوایا اور
جہاد زندگانی کے کس قدر مشکل ترین مراحل طے کئے ۔
آج امت ِ مسلمہ اپنے ایک عظیم رہبر ورہنما سے محروم ہوگئی ، اربابِ علم
ودانش ! علم کی روشن شمع سے جدا کردیے گئے ، سالکین راہ ہدایت ! اپنے نہایت
مشفق ومربی شیخ کے انفاس قدسیہ اور فیضان نظر سے محروم ہوگئے ، کارکنانِ
ختم نبوت ! اپنے عظیم قائد کی جدائی سے یتیم ہوگئے ، دینی تحریکیں ، اپنی
سرپرستی کرنے ، حوصلہ افزائی کرنے اور اپنی مستجاب دعاؤں سے نوازنے والی
نابغہ ء روزگار شخصیت سے محروم ہوگئیں ۔ قدرت نے آپ کو کن کمالات وخصوصیات
سے نوازا تھا اس کی ایک جھلک مولانا سعید احمد جلال پوری ؒ کے قلم سے
ملاحظہ ہو :
آپ ؒ بیک وقت بہترین حافظ وقاری ، لائق وفائق ، عظیم محقق ومصنف ، بلند
پایہ محدّث ، اعلی ٰ درجے کے انشاء پرداز ، طرح دار ادیب ، بے مثال اور
کامیاب مدرس اور مسند اصلاح و ارشاد کے قطب الاقطاب تھے ۔ آپ ؒ تقریر و
تحریر اور تصنیف وتالیف کے امام تھے ، دور ِ حاضر کے ملاحدہ اور زنادقہ کے
خلاف قلم اٹھاتے تو معلوم ہوتا کہ آپ میں ابن تیمیہ ؒ اور ابن قیم ؒکی روح
عود کر آئی ہے، اصلاح وارشاد کی مسند پر جلوہ افروز ہوتے تو لگتا کہ غزالی
ؒ ورازی ؒ پھر سے زندہ ہوگئے ہیں ، فقہ وفتویٰ کے میدان میں لب کشا ہوتے تو
ابوحنیفہ ؒ کی فقاہت کے شارح نظر آتے ، تقویٰ وطہارت ، زہد واستغناء ،
قناعت و توکل ، ایثار وقربانی اور عفوودرگزر ملکوتی صفات کے اعتبار سے آ پ
اس دور کے نہیں ، خیر القرون کے آدمی معلوم ہوتے ۔غرض ہمارے پاس نہ تو
مناسب الفاظ وتعبیرات ہیں کہ ہم حضرت کی خوبیوں کو بیان کرسکیں اور نہ ہی
قلم وقرطاس میں یارا ہے کہ آپ کے محاسن وکمالات کو بیان کیا جاسکے ، آپ کے
اخلاص ، ﷲیت ، بے لوثی ، بے غرضی ، بے نفسی اور فروتنی اور خمول وگوشہ
نشینی نے آپ کو عند اﷲ محبو ب ومقبول او رمسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بنا
دیا تھا ، سچ پوچھیے تو حضرت کی ایک ایک ادا اپنے اندر ’’بسیار شیوہ ہائے
بتاں ‘‘ رکھتی تھی ۔
حضرت اقدس کا بابرکت سایہ اہل حق کی تمام جماعتوں کے سر پر تھا ، ہر دینی
جماعت کا لیڈر اور کارکن حضرت اقدس کو اپنا محسن اور مربی سمجھتا تھا،
کیونکہ حضرت اقدس کی ذات سب کے لیے یکسا ں محبوب ومقبول تھی ۔
جب اہلسنت کے عظیم راہنماء حضرت مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ ظالم
حکمرانوں کے زیر عتاب تھے اور اسیر ی کے مشکل ترین ایام گزار رہے تھے ، تو
تب حضرت اقدس ہی تھے جومولانا کی حوصلہ افزائی کررہے تھے اور دعاؤں کے ساتھ
ساتھ مشائخ کے چاروں سلسلوں میں خلافت عطاء فرماکران کے چاہنے والوں ااور
کارکنوں کے مر جھائے اور غمگین چہروں کو خوشی فراہم کر رہے تھے ،جمیعت
علماء اسلام کے سربراہ قائد ملت اسلامیہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب سے
بھی حضرت کے مراسم بہت اچھے اور خوشگوار تھے ،حضرت کا ان سے تعلق ہمیشہ
مشفقانہ ومربیانہ رہا ،سیاسی میدان میں دینی کاز کے لیے ہر موقع پر ان کا
ساتھ دیا اور انہیں اپنی دعاؤں سے نوازااور آخر میں مشائخ کے چاروں سلسلوں
میں خلافت سے بھی انہیں سرفراز فرمایا ،حضرت اقدس تبلیغی جماعت کے بھی بڑے
قدردان تھے ،فرد اور معاشرے کی اصلاح میں جماعت کے اہم کردار کو خوب سراہتے
تھے ،جماعت کی ترتیب کے مطابق خود بھی وقت دیتے تھے اور اپنے احباب
ومتعلقین کوبھی ہمیشہ جماعت کے ساتھ چلنے اور وابستہ رہنے کی تلقین فرماتے
رہتے تھے ،غرضیکہ حضرت اقدس ؒ دین کے تمام شعبوں سے وابستہ حضرات کے لیے
شجرِ سایہ دار تھے ۔
حضرت اقدس اخلاق کے پیکر اور مجسمہ ء حلم وحیاء تھے ، ایک مرتبہ بندہ حضرت
اقدس کے پاس اپنے ذاتی کام کے سلسلہ میں حاضر خدمت ہوا ، بندہ حضرت اقدس کے
ایک قدیم ، درینہ رفیق حضرت مولانا مفتی محمد صدیق صاحب ؒ شیخ الحدیث جامعہ
امدادالعلوم محمود کوٹ ضلع مظفر گڑھ کا سفارشی خط جو حضرت کے نام تھا لے کر
گیا ، حضرت اس وقت اپنی مسجد میں تلاوت کلام پاک میں مشغول تھے ، بندہ اس
دوران پہلی صف میں بیٹھ کر حضرت اقد س کے چہرے کی زیارت کر تا رہا، بعدازاں
حضرت نے ملاقات کا شرف بخشا ، بندہ نے خط کھول کر آگے کیا ، حضرت نے فرمایا
، پڑھ کر سناؤ ۔ سننے کے بعد نہایت شفقت ومحبت سے عرض کیا ’’ آپ کا کام
انشاء اﷲ ہوجائے گا ‘‘بند ہ آج تک اس کی حلاوت کو اپنے دل میں محسو س کرتا
ہے ۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ۱۴۱۹ھ کے سالانہ ردّقادینیت
وعیسائیت کورس چناب نگر میں باقاعدہ حضرت ا قدسؒسے شرف تلمذ بھی حاصل ہوا
اور ادارہ کی طرف سے ملنے والی سند پر دیگر حضرات کے ساتھ ساتھ حضرت اقد س
کے دستخط بھی موجود ہیں، جو بندہ کے لیے کسی نعمت عظمی سے کم نہیں ، اسی
طرح سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر میں سوال وجواب کی نشست میں بحیثیت
طالب علم کے حضرت اقدس سے متعدد بار مستفید ہونے کاموقعہ ملا ہے ۔ اس پر حق
تعالیٰ کا شکر گزار ہوں ۔
حضرت اقدس نڈر ،بے باک ، حق گو اور جرأت وبہادری کے وصف سے خوب بہر ور تھے
۔ایک مرتبہ قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا طاہر نے عاقبت نا اندیشی میں
علماء اہلسنت کو مباھلہ کا چیلنج دیدیا، ادھر علماء کی نمائندگی کرتے ہوئے
حضرت اقد س نے اس چیلنج کا جواب دیا اور خوب دیا ، اس چیلنج کا ایک اقتباس
آپ بھی ملاحظہ فرمائیے ’’اگر آپ اس فقیر کو مباھلہ کی دعوت دینے میں سنجیدہ
ہیں ، تو بسم اﷲ ! آئیے ، مرد میدان بن کر میدان مباھلہ میں قدم رکھیے ،
تاریخ ، وقت اور جگہ کا اعلان کردیجئیے کہ فلاں وقت فلاں جگہ مباھلہ ہوگا ،
پھر اپنے بیوی بچوں اور متعلقین کو ساتھ لے کر مقررہ وقت پر میدان مباھلہ
آئیے ،یہ فقیر بھی انشاء اﷲ اپنے بیوی بچوں اور متعلقین کو ساتھ لے کر وقت
مقرر ہ پر پہنچ جائے گا اور بند ہ کے خیال میں مباھلہ کے لیے درج ذیل تاریخ
، وقت اور جگہ سب سے زیادہ موزوں ہوگی ۔تاریخ :۲۳مارچ (یوم پاکستان)
دن:جمعرات وقت: دو بجے بعد از نماز ظہر جگہ: مینار پاکستا ن لاہور ۔
آئیے ! آنحضرت ﷺ کے ایک ادنیٰ امتی کے مقابلہ میں میدان مباھلہ میں نکل کر
آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کا اعجاز ایک بار پھر دیکھ لیجیے ‘‘۔
مرزا طاہر میں کہاں طاقت وجرأت تھی کہ و ہ ا س شیر ، مرد مجاہداور عالم
ربّانی کے مقابلہ میں میدان مباھلہ میں قدم رکھتا ، چنانچہ ایسا ہی ہوا آج
تک وہ اس کا جواب نہیں دے سکا اور نہ ہی اس کی ذریت کو اس کی ہمت ہوئی ۔
حضرت اقدس کی کس کس خوبی کو ذکر کیا جائے ، حالانکہ حضرت تمام خوبیوں
کامجموعہ تھے اور تمام کمالات ومحاسن کامجسمہ تھے ، حضرت اقدس نے بارگاہ
الہی میں حاضر ہوکر کیا التجاء پیش کی ہوگی، بقو ل شاہین اقبال اثر
جگر کی پیا س لہو سے بجھا کے آیا ہوں
تمام حور و ملائک ہیں محو استقبا ل
مجھے بھی چاہتے تھے بیو ی، بچے ،بھائی ،بہن
مجھے تو مدتو ں رویا کریں گے اہل جہاں
میں تیری راہ میں گردن کٹا کے آیا ہوں
میں سر پہ تاج شہادت سجا کے آیا ہوں
میں سب کو خون کے آنسو رلا کے آیا ہوں
زہے نصیب ! کہ میں مسکرا کے آیا ہوں |