مشرف کے روشن خیال دور میں پاکستانی میڈیا نے خوب ترقی
کی۔ حکومت نے بہت سے ٹیلی ویژن اور ایف ایم ریڈیو چینلز کے لائسنس جاری
کیے۔ چینلز کی کثرت سے پاکستانی میڈیا میں جدت آئی اور پرائیوٹ چینلز کی
طرف سے ٹاک شوز کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ پروگرامز وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں
خاصے مقبولیت حاصل کرتے رہے جس سے نہ صرف پرائیویٹ ٹی وی چینل کے ناظرین کی
تعداد بڑھی بلکہ عوام کو بھی سچی اورجھوٹی دونوں طرز کی خبروں اور تجزیوں
کا علم ہوتا رہاکیونکہ سرکاری ٹی وی چینل جو پہلے تمام خبروں کا ذریعہ تھا
اس کا کام صرف حکمرانوں کی مدح سرائی رہ گیا تھا ۔ تمام حکومتیں اپنی مرضی
کی خبریں عوام تک پہنچنے دیتی تھیں۔ اور عوام رات 9 بجے کی خبریں سن کر
سمجھتے تھے سب اچھا ہے۔ اس وقت بھی ملک کا حال کچھ ایسا ہی تھا، کرپشن ،
چوری چکاری، ڈاکے، سیاستدانوں کی ناجائز لوٹ مار سب چلتا تھا۔
بات ہو رہی تھی ٹاک شوز کی۔ ان ٹاک شوز سے نہ صرف صحافی حضرات نے نام اور
شہرت کمائی بلکہ سیاست دانوں اور ٹی وی چینل کے مالکان کو بھی بہت فائدہ
ہوا۔ بلکہ کئی سمجھدار اور دانشمند سیاستدانوں نے ذاتی چینل بنائے مثلا
دنیا نیوز میاں عامر کا ہے جو لاہور کے ناظم بھی رہ چکے ہیں۔ چینل 5 والوں
کا خاندان بھی سیاست میں ملوث رہا ہے۔پھر ایسے میں مخالف لوگوں کو منہ توڑ
جواب دینے کے لیے کچھ سیاسی جماعتوں نے اپنی حمایت میں بولنے اور مخالف
سیاسی جماعت کے ممبران کو زچ کرنے کے لیے صحافی حضرات اور ٹاک شوز کے
میزبانوں کی جیب اور پیٹ گرم کرنا شروع کیا۔ اگر واشگاف الفاظ میں یہ کہا
جائے کہ ان سیاستدانوں نے ایسے لوگوں کو خرید لیا تو یہ غلط نہ ہوگا۔ یوں
پاکستانی میڈیا میں منفی رپورٹنگ کا رحجان وجود میں آیا۔ سیاہ کو سفید اور
سفید کو سیاہ کرنا ایسے لوگوں کا وطیرہ بن گیا تھا۔ ایسا کرنے سے متعدد بار
ٹاک شوز میں تلخ کلامی اور گالی گلوچ کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے۔
پھر انہی چینلز نے مارننگ شو شروع کیے ۔جن میں صبح سے ہی عوام کو گمراہ
کرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ان میں وہ باتیں تک کردی جاتی ہیں جوگھرمیں
فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں کی جاسکتیں۔ایسی بے ہودہ حرکتیں کی جاتیں ہیں
کہ اﷲ پناہ دے۔حال ہی میں جیو کے انٹرٹینمنٹ چینل کے ایک مارننگ شو کے
دوران جو مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے وہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ایک ایسی
اداکارہ جس نے پہلے ہندوستان میں جا کر اسلام اور پاکستان کو اپنی بے ہودہ
حرکات سے ساری دنیا میں اس قدر بدنام کیا کہ ہر مسلمان کا سرشرم سے جھک گیا
۔ جیو کے اس شو میں اس بدنام ترین کردار کو خواتین جنت کی سردار نبی ﷺ کے
دل کے چین حضرت فاطمہ زہرہ ؓسے تشبیہ دی گئی ۔ یہی حرکت کسی غیر مسلم سے
ہوتی تو سارا پاکستان احتجاج کررہا ہوتا ۔حکومتی سطح پر اسمبلیوں میں مذمتی
قراردادیں پاس ہورہی ہوتیں ۔مذہبی لیڈران کرام دھرنے دے کر بیٹھے ہوتے۔
کہیں سے سونامی براآمد ہوتی تو کہیں کینیڈا سے اسلام کے نام پر بھاشن دیا
جا رہا ہوتا ۔ مگر افسوس آج ہمارے حکمرانوں ، سیاستدان، مذہبی لیڈران کو
سانپ سونگھ گیا ہے بس کہیں کہیں احتجاج کی صدا بلند ہو رہی ہے ۔
مذہبی طور پر دل آزاری کا باعث بننے والی قابل اعتراض اور توہین آمیزنشریات
کے بعد کئی دیگر ٹی وی چینلز کی طرف سے جیو کو شدید طور پر ہدف تنقید بنایا
جا رہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس بڑے ٹی وی نیٹ ورک کے خلاف ملک کے کچھ علاقوں
میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بعض شہروں سے عوامی دباؤ کی وجہ
سے جیو کی نشریات کے بند کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں اور جیو پر پابندی
لگانے کا مطالبہ بھی سامنے آرہا ہے۔14 مئی کو نشر ہونے والے مارننگ شو کے
خلاف پانچ ہزار سے زائد شکایات کی وصولی کے بعد پاکستان الیکٹرانک میڈیا
ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے اس پروگرام کے حوالے سے جیو ٹی وی نیٹ ورک کو
شو کاز نوٹس بھی جاری کر دیا ہے مگر وہ بھی صرف کاغذی کاروائی تک۔
اگرچہ جیو ٹی وی کی انتظامیہ اور مارننگ شو کی اینکر شائستہ واحدی نے
ناظرین سے معافی بھی مانگ لی ہے اور مارننگ شو کے پورے عملے کو معطل کر کے
تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں مگر سب کو معلوم ہے کہ اس کے نتائج حسب
توقع صفر ہونگے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ جیو نے حامد میر نے جو آئی ایس آئی پر
الزامات لگائے ان سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک نئی چال چل دی۔اگرا یسا ہے تو
یہ حرکت آئی ایس آئی والے واقعہ سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔مسلمان
اپنے آپ کوتو گراسکتا ہے مگر اپنے انبیاء کرام، اہل بیت اور اسلام کے خلاف
کچھ نہیں سن سکتا ۔ وہ اسلام پر اپنی جان ہنس کر قربان کرسکتا ہے مگر اپنے
دین پر آنچ نہیں آنے دیگا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ از خود نوٹس لیتی اور اس چینل کو ہی
نہیں بلکہ اس سے پہلے جن جن چینلز نے ایسی حرکت کی ہے ان سب کو سزا دیتی
مگر نہ تو چیف جسٹس صاحب نے نوٹس لیا اور نہ ہی ہمارے حکمرانوں نے۔ نوٹس
لیا تو صرف بچاری عوام نے مگراکیلی عوام کچھ نہیں کرسکتی۔ پاکستان کی غیور
عوام سے میرا سوال ہے کہ کب تک ہم ان کم ظرف لوگوں کے دس نگر رہیں گے؟ میری
درخواست صرف یہ ہے کہ ان سیاستدانوں اور حکمرانوں کوان کے رحم و کرم پر
چھوڑو۔ اسلام اور پاکستان کی خاطر ہم خود یہ قدم اٹھا ئیں اور مل کر یہ عہد
کریں کہ نہ صرف GEO بلکہ SAMA اور ARYکا بھی بائیکاٹ کریں گے۔ کیونکہ
حکمران ہمیں تو ذلیل و رسواکرارہے ہیں اب ہمارے دین کو بھی بدنام کرانے لگے
ہیں۔
یقینا میں مذہبی قائد تو نہیں لیکن آپ کے جذبات بھی مجھ سے کم نہیں ہوں گے
اس لیے اگر آپ کو اس بات سے اتفاق ہے تو وعدہ کریں کہ جب تک حکومت ان کے
خلاف سخت ایکشن نہیں لیتی اور ان کو سزا نہیں دیتی ہم خود ہی ان چینلزکا
بائیکاٹ رکھیں گے۔ |