پاکستان میں کابینہ کے بحران کو
وزیر شذیر کہتے ہیں۔ ایسے میں کوئی وزیر قومی غیرت کا مظاہرہ کرتا ہے تو
حیرت ہے مگر ڈاکٹر بابر اعوان کے لئے ہمارا خیال ہے کہ وہ پڑھے لکھے، باخبر
اور بہادر آدمی ہیں۔ پاکستان میں امریکی سفیر وائسرائے ہوتا ہے۔ این ڈبلیو
پیٹرسن تو بہت ہی سفیر ہے۔ یعنی ”وائسرانی“ ہے۔ حکومت کے لوگ صدر وزیر
داخلہ و خارجہ اور فرینڈلی اپوزیشن کے لیڈر اسے ملنے کو بڑی سیاسی سعادت
بلکہ ”امریکی سعادت“ سمجھتے ہیں۔ ہمارے معاملات میں جرات کا مظاہرہ صرف وہ
کر سکتی ہے۔ اس نے کیری لوگر بل کے حوالے سے کہا ہے کہ ہم سے غلطیاں ہوئی
ہیں ورنہ کچھ کالم نگار اور اینکرمین تو کیری لوگر بل کو پاکستان کے لئے
بہت بڑی نعمت قرار دے رہے ہیں۔ امریکی وائسرائے نے اپنی رہائش گاہ پر نینسی
پاول کے اعزاز میں استقبالیہ دیا جس میں پاکستانی وزیر شذیر بھی شریک ہوئے۔
اس کا خیال تھا کہ سارے وزیر ایک جیسے ہوتے ہیں۔ پاکستانی اور امریکی
وزیروں میں فرق ہے۔ فرق سفیروں میں بھی ہے۔ ایسا ہم نے کوئی وزیر اب تک
نہیں دیکھا جو قومی غیرت کو ذاتی عزت پر ترجیح دیتا ہو۔ ہمیں مجاہد ملت
مولانا عبدالستار خان نیازی کے وزیر ہونے کا دکھ کبھی نہیں جائے گا۔ وہ تو
وزیراعظم بھی بن سکتے تھے مگر جیسے وزیراعظم ہوتے ہیں یہ بھی ان کے قدموں
کی دھول کے برابر بھی نہیں۔ وہ منصب کے آدمی نہ تھے مرتبے کے آدمی تھے۔ پھر
ان کی وجہ سے مذہبی امور کی وزارت کی حالت نہ بدلی تھی۔ نجانے ڈاکٹر بابر
اعوان کیسے وزیر ہو گئے ہیں۔ مگر وہ نہ ہوتے تو یہ واقعہ کس طرح پیش آتا کہ
جس کی وجہ سے تھوڑی دیر کے لئے ہمارا سر فخر سے بلند ہو گیا۔
ڈاکٹر بابر اعوان کی کار پر پاکستان کا قومی جھنڈا لہرا رہا تھا۔ انہیں بھی
ناکے پر روک لیا گیا۔ آجکل اسلام آباد میں آزادانہ گھومنے پھرنے بلکہ آوارہ
گردی کرنے کی اجازت صرف امریکیوں کو ہے۔ پچھلے دنوں ایک سفارت کار کی کار
سے ہینڈ گرنیڈ اور اسلحہ پکڑا گیا مگر اسے چھوڑ دیا گیا۔ تفتیش تو بہت دور
کی بات ہے معمولی سی پوچھ گچھ بھی نہ کی گئی۔ اس کے بعد جی ایچ کیو پر حملہ
ہوا۔ اس سفارت کار کو اب تو شامل تفتیش کیا جائے۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے
امریکی پہرے داروں کو بتایا کہ ان کی گاڑی پر پاکستان کا قومی پرچم لہرا
رہا ہے۔ اس ڈاکو نما ”ناکہ بردار“ نے ایک نگاہ غلط انداز اعوان صاحب پر
ڈالی۔ دل میں کہا ہوگا کہ پاکستانی پرچم کی کیا حیثیت ہے۔ یہ امریکی پرچم
تو نہیں۔ اسے معلوم ہوگا کہ دنیا بھر میں جتنی تذلیل امریکی پرچم کی ہو رہی
ہے، جتنی بے دردی سے امریکی پرچم پھاڑا اور جلایا جاتا ہے کوئی اور جھنڈا
اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ امریکی جھنڈے والی کار جس ایوان کی طرف جائے تو
حکام پھولے نہیں سماتے مگر امریکی جھنڈے والی گاڑی پر کوئی امریکی پاکستانی
عوام کے درمیان نہیں جا سکتا۔ ناکے پر موجود لوگ حیران تھے کہ یہ کیسا وزیر
امریکی سفارت خانے میں آیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سارے وزیر ایک سے ہوتے ہیں۔
ایک محترم کالم نگار نے لکھا ہے کہ ناکے پر مامور گورے نے وائرلیس پر بتایا
کہ آپ نے غلطی سے کرگسوں کی بجائے ایک شاہین کو بھی بلا لیا ہے۔ خدا کرے
سارے وزیر شذیر شاہین صفت بن جائیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان سے کہا گیا کہ گاڑی
پارکنگ میں لگوائیں اور اندر چل کے جائیں۔ یہ کل کہیں گے جوتے بھی اتار کے
جائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میری کار پر پاکستان کا قومی جھنڈا ہے اور
جہاں یہ جھنڈا نہیں جا سکتا وہاں میں بھی نہیں جاؤں گا۔ وہاں کئی اور بھی
وزیر شذیر تھے اور ان کے ڈرائیور پارکنگ کے لئے جگہ تلاش کر رہے تھے۔
کرگسوں کا نصیب مردار کھانا ہے۔ امریکہ یہی کچھ پاکستان کو فراہم کر رہا ہے۔
جب تک اندر سے اطلاع آئی ڈاکٹر بابر اعوان واپس آگئے۔ ان کی واپسی سے ہمیں
وہ راستے یاد آگئے ہیں جن پر چل کے ہمیں آگے کی منزلوں کی طرف جانا ہے۔
کرگس اور شاہین کے حوالے سے بہت خوبصورت بات لکھنے والے دوست کی خدمت میں
علامہ اقبال کا ایک شعر عرض ہے
پرواز تو دونوں کی ہے اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ ڈاکٹر بابر اعوان کے غیور طرز عمل کو اپنی
پالیسی بنائیں۔ خدا کی قسم ہم اگر امریکہ سے صرف یہ کہیں کہ ہم کوئی ناجائز
اور غیر ضروری شرط قبول نہیں کریں گے تو امریکہ ہمارے تھلے لگ جائے گا۔
امریکہ نے عراق پر اس یقین کے بعد حملہ کیا تھا کہ اس کے پاس کوئی مہلک
ہتھیار نہیں مہلک ہتھیاروں کا الزام ایک بہانہ تھا۔ امریکہ نے شمالی کوریا
پر کیوں حملہ نہیں کیا۔ وہ امریکہ کے مقابلے میں کھڑا ہو گیا ہے۔ ایران تو
امریکہ کا مدمقابل بن گیا ہے۔ اب وہ ایران کے ساتھ مذاکرات پر پھر آمادہ ہو
گیا ہے۔ خارجہ امور کے ایک سابق سیکرٹری جنرل اکرم ذکی امریکہ کے معاملات
کو اچھی طرح جانتے ہیں انہوں نے کہا کہ آپ ڈٹ جائیں تو امریکہ آپ کے پاؤں
پڑ جائے گا۔ صدر اوبامہ نے کہا ہے کہ ہم اگلے بارہ مہینے میں ایٹمی پھیلاؤ
ختم کرنے کے لئے متعلقہ ملکوں پر دباؤ ڈالیں گے۔ امریکہ کسی پر دباؤ نہیں
ڈال سکتا۔ وہ صرف پاکستان پر دباؤ ڈالے گا۔ کیا پاکستان یہ دباؤ بھی قبول
کر لے گا۔ اب کیری لوگر بل پر پاکستان کے متفقہ ردعمل پر امریکہ پریشان ہو
گیا ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں یہ شرطیں نہیں لگائی گئی تھیں۔ خود امریکی
سفیر نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا ہے۔ پاکستانی حکومت نے شاہ محمود قریشی
کو امریکہ سے بلا کر پھر واپس بھیجا ہے کہ امریکہ کو پاکستانی عوام کے
جذبات سے آگاہ کرے۔ وہ امریکہ کو پاکستانی حکام کے جذبات سے بھی آگاہ کرے۔
پاک فوج کے جذبات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہئے۔ پاکستان پہلی دفعہ
امریکہ کے خلاف متحد ہوا ہے۔ ہم امریکہ سے دشمنی نہیں چاہتے اور دوستی
برابری کی ہوتی ہے۔ کبھی طاقتور اور کمزور کی دوستی نہیں ہوتی۔ کبھی امداد
دینے والے اور بھکاری کی دوستی نہیں ہوتی۔ کیری لوگر بل کے بعد جی ایچ کیو
پر حملے نے اس قوم کو متحد کر دیا ہے۔ جی ایچ کیو کے دروازے پر پھولوں کا
ڈھیر بڑھتا جا رہا ہے۔ ہم اپنے اندر کھوئی ہوئی غیرت اور جرات کو تلاش کر
لیں تو یہ بات ایک نعمت بن جائے گی۔ یہ 65ء کی جنگ ستمبر کے بعد دوسرا
واقعہ ہو گا۔ بھارت اب پاکستان کے خلاف امریکہ کا پٹھو ہے۔ بھارت سے کبھی
خیر کی توقع نہیں۔ بھارت اور امریکہ کبھی انکساری سے نہیں مانیں گے۔ انکسار
میں بھی ایک وقار ہوتا ہے۔ اس کا مظاہرہ یہ قوم کر رہی ہے۔ ڈاکٹر بابر
اعوان نے یہی پیغام دیا ہے۔
ڈاکٹر بابر اعوان ایک منکسر المزاج آدمی ہیں۔ عاجزی اچھی چیز ہے مگر مغرور
کے سامنے عاجزی گناہ ہے۔ لگتا ہے کہ اب ہمارے حکمرانوں نے یہ گناہ بے لذت
چھوڑ دیا ہے۔ غیر ملکیوں پر پابندی لگانا ہوگی۔ ہم ہی امریکہ کو سب کچھ
سپلائی کرتے ہیں یعنی اس کی مدد کرتے ہیں اور وہ وہی اسلحہ اور پٹرول وغیرہ
ہم پر استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں دوست کہتے ہو تو پھر ہماری عزت کرو۔ مگر ہمیں
امریکہ اور بھارت سے عزت کی توقع نہیں۔ صدر زرداری سے گزارش ہے کہ وہ ہمت
تو کریں٬ ان سے بڑھ کر معزز حکمران کوئی نہ ہو گا۔ |